منتخب کردہ کالم

چین میں اپنوں کے درمیان (آخری قسط)….رئوف طاہر

بیجنگ میں ہماری آمد سے دو دن قبل کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 19 ویں نیشنل کانگریس شی چن پنگ کو آئندہ پانچ سال کے لیے (دوسری بار) صدر منتخب کر چکی تھی۔ چین اپنی ایک ارب تیس کروڑ آبادی کے ساتھ آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ گزشتہ سال اس کا جی ڈی پی گیارہ عشاریہ دو کھرب یو ایس ڈالر کو پہنچ گیا تھا جو دنیا کے کل جی ڈی پی کا چودہ عشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ فی کس کے حساب سے یہ 8,123 یو ایس ڈالر بنتا ہے۔ زرعی معیشت کا حامل ایک غریب اور پسماندہ ملک آج دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بن چکا ہے۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد وزیراعظم چو این لائی پاکستان کے دورے پر آئے۔ لاہور میں ”بیکو‘‘ (بٹالہ انجینئرنگ کمپنی) کا وزٹ بھی پروگرام میں شامل تھا۔ یہ ان دنوں پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا کارخانہ تھا (اس کے پہلو میں میاں محمد شریف کی اتفاق فائونڈری بھی تیزی سے پھل پھول رہی تھی) چینی وزیراعظم ”بیکو‘‘ سے اتنے متاثر ہوئے کہ وزیٹرز بک پر اپنے تاثرات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”بیکو‘‘ چینی انجینئرز کو انٹرن شپ کے مواقع مہیا کرے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ”نئے پاکستان‘‘ پر جو احسانات کئے‘ ان میں نیشنلائزیشن بھی تھی۔ پہلے مرحلے میں جو بڑی صنعتیں قومی ملکیت کی نذر ہوئیں‘ ان میں ”بیکو‘‘ سرفہرست تھی‘ جو ”بیکو‘‘ سے ”پیکو‘‘ (پاکستان انجینئرنگ کمپنی) ہو گئی۔ نیشنلائزیشن کا یہ عمل پاکستان میں صنعتوں کی بربادی کا عمل بن گیا تھا۔
90ء کی دہائی کا آغاز پاکستان میں ایک بار پھر معیشت کے ٹیک آف کا نکتہ آغاز تھا۔ صنعت کار خاندان کے فرزند کی حکومت میں موٹرویز کا آغاز ہو رہا تھا۔ نئے ہوائی اڈے‘ نئی بندرگاہیں اس کے خواب تھے‘ ایئرپورٹس پر گرین چینل آ گیا تھا۔ معیشت کو غیر ضروری جکڑ بندیوں سے آزاد کیا جا رہا تھا۔ ٹیلی کام میں فائبر آپٹک جیسی جدید ٹیکنالوجی آ رہی تھی۔ ”طاہرہ‘‘ تب پاکستان میں تھی اور بیجنگ میں ایک شام پاکستان کے ان ماہ و سال کا ذکر کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا‘ ہم سمجھ رہے تھے کہ پاکستان آئندہ برسوں میں خطے کا سب سے تیزرفتار ترقی کرنے والا ملک بن جائے گا، لیکن اڑھائی‘ پونے تین سال کے اندر ہی اُس حکومت کی جبری رخصتی کے ساتھ سب کچھ ریورس ہو گیا۔
پاک‘ چین دوستی سرکاری سطح پر ہی نہیں‘ عوامی سطح پر بھی سمندر سے زیادہ گہری‘ ہمالیہ سے زیادہ بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں جانے کا موقع ملا لیکن تین ملک ایسے ہیں جہاں عام آدمی میں بھی پاکستان کے لیے خاص محبت کا جذبہ پایا، چین‘ ترکی اور سعودی عرب…چینیوں کو یاد ہے کہ 60ء کی دہائی کے اوائل تک امریکہ اور یورپ چین کا نام تک سننا گوارا نہ کرتے تھے۔ بیرونی دنیا سے چین کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن دنیا کی پہلی ایئرلائن تھی جو پیکنگ (بیجنگ) گئی۔ اس روز یہاں جشن کا سماں تھا۔ پاکستان کو اس سے باز رکھنے کے لیے کیرٹ اینڈ سٹک کا کون سا حربہ تھا جو امریکیوں نے نہ آزمایا۔ پھر 1970ء میں یہی پاکستان تھا جو چین سے امریکہ کے رابطے کا ذریعہ بنا جب صدر نکسن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے راستے خفیہ طور پر پیکنگ پہنچے تھے۔
پاک‘ چین دوستی کو اہل چینAll Weather Friendship قرار دیتے ہیں، ایک ایسی دوستی جو آزمائش کے ہر مرحلے میں پوری اتری۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک مخلص دوست کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ مفید مشوروں سے پاکستان کی رہنمائی کی، پاکستان نے انہیں کس حد تک درخورِ اعتنا سمجھا‘ یہ الگ کہانی ہے۔
1971ء میں جب پاکستان کو مشرقی پاکستان میں سنگین ترین بحران کا سامنا تھا اور اس کی آڑ میں بھارت کے جارحانہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں رہے تھے‘ جنرل یحییٰ خاں کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو چین تشریف لے گئے‘ تب چینی قیادت کا پاکستان کے لیے مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ مشورہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ چینی قیادت نے پاک بھارت جنگ کی صورت میں پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات کی نشاندہی بھی کر دی تھی لیکن وطن واپسی پر بھٹو صاحب قوم کو خوشخبری دے رہے تھے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں ”دما دم مست قلندر‘‘ ہو جائے گا اور 16 دسمبر کو واقعی ”دما دم مست قلندر‘‘ ہو گیا‘ لیکن ایک اور صورت میں…1999ء کے کارگل مس ایڈونچر کے دوران بھی ہمارے چینی دوستوں نے ”واپسی‘‘ کا مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔
پاکستان میں عام آدمی کا چینی مصنوعات سے تعارف سستے کھلونوں‘ سستے جوتوں اور عام استعمال کی دیگر سستی اشیاء سے ہوا۔ یہ سستی چیزیں پانچ‘ چھ ماہ چل جاتیں۔ ہم ان دنوں سعودی عرب میں ہوتے تھے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جدہ میں ”ایک ریال‘‘ اور ”دو ریال‘‘ کی دکانیں نظر آنے لگیں جو چینی مصنوعات سے بھری ہوتیں۔ شروع شروع میں یہ ہم جیسے غیر ملکیوں کی توجہ کا مرکز بنیں‘ پھر رفتہ رفتہ متوسط طبقے کے سعودی بھی ادھر کا رُخ کرنے لگے۔ ان ہی دنوں ایک لطیفہ بھی خوب چلا (ہم یہ چینی دوستوں کو بھی سناتے اور وہ اس سے خوب لطف اندوز ہوتے) ایک خاتون اپنی سہیلی سے پوچھنے لگی‘ ”سنا ہے بھائی جان دوسری شادی کر رہے ہیں؟‘‘ ”تم نے صحیح سنا‘‘، سہیلی نے سکون اور اطمینان سے جواب دیا۔ ”حیرت ہے‘ وہ دوسری شادی کر رہے ہیں اور تمہیں اس پر کوئی تشویش اور اضطراب نہیں‘‘…سہیلی نے مسکراتے ہوئے کہا‘ ”تشویش کی کیا بات؟ وہ ایک چینی لڑکی سے شادی کر رہے ہیں اور چینی مال یہی کوئی پانچ‘ چھ ماہ ہی تو چلتا ہے‘‘…لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اب چینی‘ ایک‘ دو ریال سے لے کر نہایت قیمتی اشیاء بھی تیار کر رہے ہیں،برق رفتار جنگی طیارے تک۔
چینی اپنے موجودہ نظام کو “Socialism with Chinese Characteristics” کا نام دیتے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ یہ نظام خوب پھل پھول رہا ہے۔ سیاس انٹرنیشنل یونیورسٹی کی ڈین سے بات ہو رہی تھی‘ اس کے بقول جس کے پاس بھی کچھ پیسہ آ جاتا ہے‘ وہ اپنے بزنس کا سوچتا ہے۔ سرکاری سیکٹر کی بجائے یہاں تنخواہیں بھی زیادہ پُرکشش ہیں‘ تنخواہ کے ساتھ کمشن بھی ملتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ پر چینیوں کی تشویش چھپائے نہ چھپتی تھی۔ ہم نے ایک میڈیا ہائوس میں چینی دوستوں سے گفتگو میں صدر شی چن پنگ کے دوسری بار انتخاب پر مبارکباد دی تو ان میں سے ایک نے چپکے سے کہا‘ لیکن آپ کا وزیراعظم تو اس بار بھی اپنی ٹرم مکمل نہ کر سکا اور” آپ لوگوں‘‘ نے آدھے راستے میں ہی اسے چلتا کیا۔
پچاس سال پہلے چینی وزیراعظم پاکستان کے صنعتی اداروں کو آئیڈیلائز کر رہے تھے آج ہم کہاں ہیں اور ہمارے چینی دوست کہاں؟
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
چینیوں کو یاد ہے کہ 60ء کی دہائی کے اوائل تک امریکہ اور یورپ چین کا نام تک سننا گوارا نہ کرتے تھے۔ بیرونی دنیا سے چین کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن دنیا کی پہلی ایئرلائن تھی جو پیکنگ (بیجنگ) گئی۔ اس روز یہاں جشن کا سماں تھا۔ پاکستان کو اس سے باز رکھنے کے لیے کیرٹ اینڈ سٹک کا کون سا حربہ تھا جو امریکیوں نے نہ آزمایا۔ پھر 1970ء میں یہی پاکستان تھا جو چین سے امریکہ کے رابطے کا ذریعہ بنا جب صدر نکسن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے راستے خفیہ طور پر پیکنگ پہنچے تھے