منتخب کردہ کالم

چین و عرب ہمارا… ………محمد بلال غوری

چین کے 68ویں قومی دن کی تقریب میںجب پاک چین دوستی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھاتومیں چپکے چپکے فرانسیسی مدبر چارلس ڈی گلوکے اس جملے کو اپنے فہم کے ترازو میں تول رہا تھا کہ قوموں کے دوست نہیں ہوتے محض مفادات ہوتے ہیں۔بالعموم چینی حکام غیر ملکی زبانوں میں اظہار خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنی زبان میں بات کرتے ہیں مگر چینی سفیر سن وائی دونگ‘ جو اسی مہینے اپنی سفارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر واپس جا رہے ہیں‘ نے غیر متوقع طور پر انگریزی زبان میں گفتگو کی۔بالعموم چینی باشندوں کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ بہت محنتی ہوتے ہیں مگر پنجاب میں سرکاری منصوبوں پر جس تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ”پنجاب سپیڈ‘‘ کے چرچے تو بہت سنے تھے مگر پہلی مرتبہ چینی سفیر کی زبان سے براہ راست یہ اصطلاح سننے کو ملی اور انہوں نے بتایا کہ ساہیوال کا کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ‘ جس کی افتتاحی تقریب میں انہوں نے شرکت کی‘ 22ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہوا جبکہ اس کی ڈیڈ لائن میں ابھی 6ماہ باقی تھے۔ چینی سفیر ہی نہیں لاہور میں چینی قونصلیٹ کے قونصل جنرل نے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی دل کھول کر تعریف کی۔ہاں البتہ جب وہاںموجود بعض چینی باشندوں سے گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ جن خرابیوں اور مسائل کی بنیاد پر ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتا، یہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی، ان میں سے بیشتر خامیاںاور مسائل وہاں بھی بدرجہ اتم موجودہیں۔ مثال کے طور پر عمومی تاثر یہ ہے کہ چونکہ چین میں بدعنوانی کی سزا موت ہے اور قانون کی عملداری بہت سخت ہے اس لئے وہاںرشوت، سفارش یا بدانتظامی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔میرے کچھ چینی دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہاں بھی رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ اگر آپ کا مریض ہاسپٹل میں ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہاں کا عملہ اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرے تو ان کی جیب گرم کرنا پڑے گی۔ اسی طرح اگر بچے
کی پیدائش ہوئی ہے تو ڈاکٹر سے لے کر سویپر تک سب کو ”تحفہ‘‘ دینا پڑے گا۔ جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ چوریاں، ڈاکے اور قتل کی وارداتیں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ یہ حقائق سامنے رکھنے کا مقصدچین کی برائیاں بیان کرنا یا اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنا نہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ جہاں انسان ہوں گے‘ وہاں جرائم بھی ہوں گے۔ قانون کی عملداری یقینی بنا کر جرائم کی شرح کم کی جا سکتی ہے لیکن انہیں بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی بھی کوئی چیز صد فیصد نہیں ہوتی۔ افراد ہوں یا معاشرے خوبیوں اورخامیوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ مگر چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی خامیوں کے بجائے خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو محدب عدسے سے دیکھنے کے بعد مستقبل سے مایوس ہو جاتے ہیں اور بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ بس اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
چینی سفیر نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ختم کرنے کے بعد فی البدیہہ گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے یہاں اردو کا ایک لفظ سیکھا ہے ”سنگم‘‘ اور اس سے مراد وہ جگہ ہے جہاں دریا ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس صوبے کو پنجاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں پانچ چھوٹے دریا ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک بڑے دریا میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا کہ پاکستان اور چین کی مثال بھی دریائوں جیسی ہے‘ جب یہ دریا مل کر ایک ساتھ بہتے ہیں تو اس کی رفتار اور بہائو کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس دل موہ لینے والی تمثیل پر تقریب میں موجود افراد نے دل کھول کر داد دی۔ اس سے پہلے جب پاک چین تعلقات کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی تو بہت سے لوگوں کو پہلی بار یہ بات معلوم ہوئی کہ پاک چین تعلقات کا کریڈٹ تین وزرائے اعظم کو جاتا ہے:حسین شہید سہروردی جو چین کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے اور جنہوں نے پاک چین تعلقات کی پہلی اینٹ رکھی، ذوالفقار علی بھٹو جن کے دور حکومت میں پاک چین دوستی کو نئی جہت ملی اور نوازشریف جن کے دور اقتدار میں دو طرفہ تعاون تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔ لیکن اس سے پہلے کی تاریخ نہ تو ہمارے ہاں کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی کوئی اس کے بارے میں کچھ جاننا چاہتا ہے۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ جس طرح آج پاک چین دوستی کا غلغلہ ہے اسی طرح کبھی چین بھارت دوستی کا طوطی بولتا تھا۔پیپلز ری پبلک آف چائنا کے معرض وجود میںآنے کے فوراًبعد پاکستان نے چین کی کمیونسٹ حکومت کو تسلیم کر لیاتھا۔ اس دوران سامراج مخالف بھارتی حکومت جو روس سے دوستی کے باعث خود کو اشتراکیت کے زیادہ قریب سمجھتی تھی، چین کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ نہرو نے جب یہ مطالبہ کیا کہ تائیوان کی جگہ چین کو اقوام متحدہ کا رُکن بنایا جائے تو بھارت اور چین کے درمیان فاصلے مزید سمٹ گئے۔ اس دوران کسی عالمی فورم پر پاکستانی وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کی چینی وزیر اعظم چواین لائی سے سرراہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے غلط فہمیاں ختم کرنے کی کوشش کی تاہم چین بھارت دوستی کے خمار میں کدورتیں دور نہ ہو سکیں۔ اس دوران یہ گرہ کھلنے لگی کہ چین اور روس کے کمیونزم میں بہت تفاوت ہے‘ اور پھر سرحدی تنازعات کے سبب بھارت اور چین کے تعلقات بگڑنے لگے تو موقع کو غنیمت جان کر وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے چین کا دورہ کیا‘ اورچینی ہم منصب چواین لائی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بعد ازاںبھارت نے دلائی لامہ اور ان کے پیروکاروں کا پناہ دے کر جلاوطن حکومت قائم کرنے کی اجازت دی تو چین سے دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ پہلے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں اور پھر 1962ء میں پہلی جنگ ہوئی جس میں چین نے بھارت کو پچھاڑ دیا۔ چونکہ پرانی کہاوت ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اس لئے پاکستان اور چین کی دوستی کے سفر کا آغاز ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوستی کا یہ سفر نہایت تیزی سے طے ہوا۔ موجودہ دورِحکومت میں سی پیک کے حوالے سے پہلی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے تو دوطرفہ تعاون کا سلسلہ وسیع تر ہو تا چلا گیا۔ یقینا پاک چین دوستی شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے ۔ بلاشبہ چینی ہمارے دوست ہیں اور سی پیک سے اس خطے کی تقدیر سنور سکتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ تب تک ہمارا کوئی دوست کچھ نہیں کر سکتا جب تک ہم اپنے آپ سے دشمنی کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے خود اپنے دوست نہیں ہو جاتے۔ پاک چین تعلقات کی بات ہو تو گاہے اقبال کے اشعار کانوں میں گونجنے لگتے ہیں:
”چین و عرب ہمارا،ہندوستاں ہمارا‘‘ یا پھر ”نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر‘‘اب ہم چین جائیں یا چین پاکستان آئے۔ہم چین کے ہو جائیں یا چین ہمارا ہو جائے ، بات تو ایک ہی ہے ناں، دوستی میں ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے بھلا۔

قانون کی عملداری یقینی بنا کر جرائم کی شرح کم کی جا سکتی ہے لیکن انہیں بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی بھی کوئی چیز صد فیصد نہیں ہوتی۔ افراد ہوں یا معاشرے خوبیوں اورخامیوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ مگر چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی خامیوں کے بجائے خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو محدب عدسے سے دیکھنے کے بعد مستقبل سے مایوس ہو جاتے ہیں اور بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ بس اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا۔