چین کے ساتھ پاکستان کی توقعات….نذیر ناجی
چین نہ صرف پاکستان‘ بلکہ پوری دنیا خصوصاً ایشیا میں سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ جس کے ثمرات مستقبل قریب میں ملنا شروع ہو جائیں گے‘ لیکن چین کا ملائشیا کی گزشتہ حکومت سے کیا گیا ریل لنک معاہدہ‘ تعطل کا شکار ہو گیا ہے‘ جس کے بارے میںمختلف قسم کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی معیشت میں سی پیک منصوبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس لئے پاکستان کی توقعات اب چین سے اور زیادہ بڑھ چکی ہیں۔
”ممکن ہے آپ نے چین اور امریکہ کے مابین چھڑ جانے والی تجارتی جنگ کا نوٹس نہ لیا ہو‘ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر پائیں گے کہ چین کی اکنامک ڈپلومیسی کو پچھلے چند ہفتوں میں بُری صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو اس سے بھی زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ جس سے اس منصوبے پر آگے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہو گئی ہے ؛ حالانکہ ایک وقت تھا کہ ا س منصوبے کے رکنے یا اس پر عمل درآمد کی رفتار کم ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ا س کا واضح ثبوت غالباًیہ خبر ہے کہ ملائیشیا نے چین کے 22بلین ڈالر مالیت کے منصوبوں کو منجمد کر دیا ہے‘ جس میں ملک کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ بننے والا متنازعہ ریل لنک بھی شامل ہے۔ ملائیشیا میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔ وزیر اعظم مہاتیر محمد نے سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کو ان انتخابات میں ہرانے کے لئے جو مہم چلائی‘ اس کا بنیادی نکتہ یہی الزام تھا کہ نجیب رزاق کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں ‘ جس کی وجہ سے ملائیشیا میں غلط فیصلے کئے گئے اور کرپشن میں اضافہ ہوا۔ یہ مہم کامیاب رہی اور نجیب رزاق کو وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا۔
مہاتیر محمد کے ساتھیوں نے الزام لگایا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے ایک ایم ڈی بی (ون ملائیشیا ڈویلپمنٹ برہاد‘ ملائیشیا کی حکومت کے تحت چلنے والی ایک سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ کمپنی ہے ) کے ذریعے ڈویلپمنٹ فنڈبی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو) کے لئے حاصل کئے‘ جبکہ نجیب کے ساتھیوں نے چینی صدر‘ شی چن پنگ کی تصاویر پارٹی پوسٹرز پر چھپوا کراس تاثر کو گہرا کر دیا۔ ملائیشیا کے ایک سیاست دان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے جب یہ پوسٹر دیکھے ہوں تو یقینا یہی سمجھا ہو گا کہ شی چن پنگ‘ ملائیشیا سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ملائیشیا میں چین کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات بالکل وہی ہیں۔ بی آر آئی کے تحت منصوبے حاصل کرنے والے ایشیا بھر کے ممالک کو جن کے بارے میں خبر دار کیا جا تا رہا ۔ وہ منصوبے ‘ چین میں جن پر کام کرنا آسان ہے‘ کم منظم یا غیر منظم ممالک میں تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیںیا پھر ان کی لاگت میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔قرضوں میں اضافہ‘ خسارہ اور چینی باشندوں کی آمد سیاسی اپوزیشن کو ابھار سکتی ہے اور جب کسی ملک کی نئی حکومت ایسے منصوبوں کو منسوخ کرتی ہے‘ تو پھر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں۔
ملائیشیا کی مثال تو بڑی اعلیٰ سطح کی ہے‘ شمال کی جانب واقع میانمار کے وزیر برائے پلاننگ اینڈ فنانس سوئی وِن نے بتایا کہ ان کی حکومت تقاضا کرے گی کہ خلیج بنگال میں ایک نئی بندرگاہ کی تعمیر کو محدود کر دیا جائے۔ یہ بندرگاہ چین کے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس بندرگاہ کی تعمیر سے چین کو بحر ہند سے تیل براہ راست جنوبی چین تک پہنچانے میں آسانی ہو گی اور اسے آبنائے ملاکا کے تزویراتی چیک پوائنٹ سے بچنے میں آسانی ہو گی‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ میانمار کے ذمے جتنا بھی غیر ملکی قرضہ ہے‘ اس میں سے 40فیصد چین کو ادا کیا جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار کے مذکورہ وزیر نے اسے ناقابل ِقبول قرار دیا اور کہا ہے کہ ارد گرد کے ممالک کے اسی حوالے سے معاملات کو سامنے رکھا جائے‘ تو میانمار کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سری لنکا کی مثال بھی سامنے ہے‘ جہاں چین سرمایہ کاری میں بہت زیادہ ملوث ہونے پر ایک حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے‘ جبکہ اس کے بعد قائم ہونے والی حکومت اس سفید ہاتھی پر سوار ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ چینی قرضوں پر واجب الادا سود‘ جو سالانہ 11بلین ڈالر بنتا ہے‘ سری لنکا کے کل ٹیکس ریونیو کے برابر ہے۔ (چین کی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری سستی نہیں ہے۔ سری لنکا مبینہ طور پر اس پر چھ فیصد سود ادا کرتا ہے) اس دبائو کے تحت سری لنکا کی نئی حکومت نے ہمبن ٹوٹا کے مقام پر چینی کمپنی کو اس وسیع و عریض اور بالکل خالی پورٹ کا نصف سے زیادہ شیئر دینے کا فیصلہ کیا ہے ‘تاکہ اس کے قرضوں یا واجب الادا سود کی شرح میں کچھ تو کمی واقع ہو۔ اس ڈیل نے بھارت کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔ اس نے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس دنیا کی خالی ترین پورٹ کو خریدنے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں‘ تاکہ یہ چین کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے۔
پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ مغرب سے مایوس ہو کر پاکستان نے چین سے سی پیک کا منصوبہ حاصل تو کر لیا‘ لیکن پالیسی ساز کچھ دوسرے خطوط پر بھی سوچ رہے ہیں۔ چین سے قیمتی مشینری کی درآمد نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھا دیا ہے اور روپے کی قدر کو ایک طرح سے دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے محض اتنے ذخائر ہیں کہ جو دو چار مہینوں کی درآمدات کا بل ادا کرنے کیلئے ہی کافی ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بھی اس وقت ہے ‘جب پاکستان نے ابھی پچھلے سال ہی کم و بیش 4بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ مبینہ طور پر پاکستانی حکام نے چین سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو قرضہ فراہم کرتا رہے‘ بصورتِ دیگر پاکستان آئی ایم ایف کی طرف رجوع کر لے گا اور ”پھر ہم ان شرائط کو مکمل طور پر افشا کر دیں گے‘ جن پر چین ‘پاکستان میں سی پیک بنانے پر رضامند ہوا ہے۔
جب ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے‘ تو دوسری جانب چینی وزیر اعظم لی کھی چھیانگ‘ صوفیہ میں مرکزی اور مشرقی یورپ کے لیڈروں سے 16+1فورم میں ملاقات کر رہے ہیں ۔ یورپی لیڈروں کو شکوہ ہے کہ چین انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کئے گئے وعدے بروقت پورے نہیں کر رہا‘ جس سے فراڈ کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جب روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا ‘تو یہ مالی مسائل کا شکار حکومتوں کے لئے قدرت کی جانب سے ایک تحفہ محسوس ہوتا تھا ‘ جس کے تحت وہ ملک کے مالی وسائل بڑھا سکتی تھیں اور اپنے ووٹروں کو وہ انفراسٹرکچر فراہم کر سکتی تھیں‘ جس کے عوام خواہش مند تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی کیش اپنے ساتھ کڑی شرائط لے کر آیا جیسے بلند شرح سود‘چینی کمپنیوں کے لئے پروکیورمنٹ ضمانتیں‘ درآمد کئے گئے ورکرز۔ اب اتنی سرمایہ کاری ہو چکی ہے تو ان حالات میں معاملات کو آگے بڑھانے کیلئے چین کو اپنے رویے میں کچھ تبدیلیاں لانا پڑیں گی اور تعاون بہتر بنانا ہو گا‘‘۔(بلوم برگ)