ڈالروں کی ڈیل!…..رئوف کلاسرا
اسلام آباد جیسا خوبصورت شہر اب مر رہا ہے۔ سپریم کورٹ پریشان ہے‘ جھیلوں کے شہر سے پانی ختم ہوگیا ہے۔ لگتا ہے پاکستانی بیوروکریسی اور افسران نے تہیہ کر لیا ہے کہ بہت خدمت کر لی اس ملک اور عوام کی‘ اب عوام جانیں اور ملک جانے ‘ ہم تو ہر وہ کام کریں گے جس میں نقدی ملے گی‘ تاکہ بیرون ملک سیٹل بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں ۔ مجھے نہیں پتہ بیوروکریسی کے اندر یہ مایوسی کب آئی‘ انہوں نے کب معاملات ہاتھ سے جانے دیے اور نوٹ گننے بیٹھ گئے‘ وہ بابو کب کے مرکھپ گئے جو کبھی ریاست‘ شہروں اور شہریوں کا سو چتے تھے۔
اسلام آباد کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی زوال پذیر ہوتے دیکھ رہا ہوں ۔ آج سے بیس برس قبل آیا تھا تو شہر کی آبادی‘ بشمول دیہی علاقے، دس لاکھ تھی‘ اب بیس لاکھ ہوگئی ہے۔ جس شہر میں دس لاکھ لوگ پہنچ جائیں اور شہر وہیں کا وہیں کھڑا ہوا تو پھر کیا حشر ہوگا ۔ پچھلے دنوں ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا تو پتہ چلا کہ واشنگٹن کی آبادی صرف چھ لاکھ ہے۔
اسلام آباد کبھی ایک خوبصورت جگہ ہوتی تھی۔ دوپہر کو گرمی بڑھتی تو شام تک بارش کی بوندیں شروع ہو جاتی تھیں۔ دن کتنا ہی گرم کیوں نہ ہوتا شامیں خوشگوار ہوجاتیں۔ ہر طرف سبزہ اور سڑک پر خال خال ٹریفک ۔ اب ہر طرف ٹریفک جام دیکھ کر ہول اٹھتا ہے۔ کبھی شہر میں رات نو بجے بعد کھانا ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا تھا ‘ سہانی شامیں دل کو بہلاتی تھیں‘پھر دھیرے دھیرے ہائوسنگ سوسائٹی کلچر نے اس شہر کو تباہ کرنا شروع کیا اورلوٹ مار کے نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری صرف چوبیس کلومیٹر علاقے میں واقع ہے اور اس وقت قانونی چھوڑیں‘ غیرقانونی ہائوسنگ کالونیوں کی تعداد بھی 110 سے زائد ہے۔ حیران ہوں اسلام آباد میں کیسے ایک سو دس ہائوسنگ سوسائٹیز کی ضرورت پڑ گئی؟ سی ڈی اے میں بیس ہزار ورک فورس بھرتی ہے‘انہوں نے ایک کام کیا کہ شہر کی صفائی ٹھیکے پر دی ‘ ٹھیکیداروں سے کمیشن کھایا اور خود یونین بازی شروع کر دی ۔ وہ سب بڑے بڑے بلڈرز کے ساتھ مل گئے اور شہر میں نئے سیکٹرز ڈویلپ کرنے بند کردیے‘ یوں پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیز کا کام چل نکلا۔ انہوں نے عام لوگوں کو کھل کر لوٹا‘سبز باغ دکھائے کہ فلاں فلاں سہولتیں ہوں گی‘ اب وہاں جائیں تو اتنی گندگی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ملیں گی کہ آپ حیران ہوجائیں گے۔ سی ڈی اے اگر خود کام کررہا ہوتا تو کبھی اسلام آباد میں یہ تباہی نہ مچتی جو ہائوسنگ سوسائٹیز نے مچا دی ہے۔ جعلی اشتہارات چھاپ چھاپ کر‘ جس میں وہ سوئٹرزلینڈ کی تصویریں استعمال کرتے ہیں‘ لوگوں کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے۔ سی ڈی اے بیٹھا تماشا دیکھتا رہا اور اپنا حصہ وصول کرتا رہا ۔
آپ ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کر لیں یا کئی ڈیمز بنا لیں‘ جب آپ کے ہاںشہر کی آبادی مسلسل بڑھے گی اور باہر سے لوگ مزدوری کی تلاش میں آئیں گے‘ جنہیں یہاں صفائی اور تربیت سے زیادہ اپنی روزی روٹی کی فکر ہوگی‘ تو شہر تباہ ہوگا ۔ اسلام آباد کا حسن پچھلے کچھ سالوں میں زیادہ برباد ہوا ہے‘ جب شہر ٹھیکیدار مئیر کے حوالے ہوا ۔ بیوروکریسی پہلے بھی کچھ نہیں کرتی تھی‘ اب اس کے پاس نیا بہانہ آگیاکہ ہمارے تو اختیارات مئیر کے پاس ہیں۔
حالت یہ ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ چیخ رہی ہے کہ شہر سے پانی ختم ہورہا ہے اور شہر کا مئیر لندن پہنچا ہوا ہے۔ نگران وزیراعظم کے کان پر بھی جوں نہیں رینگ رہی‘ سب لوگ کام چھوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ مگر ہم نے تو چیف جسٹس کو غلط ثابت کرنا ہے کہ چیف جسٹس نے کیوں جرأت کی اور بنیادی مسائل پر سوئو موٹو لینے شروع کر دیے؟ اب بابوؤں سے لے کر سیاستدانوں اور میڈیا تک‘ سب چیف جسٹس سے ناراض ہیں۔ اپنے گھریلو ملازم سے جو چوبیس گھنٹے کام لیتے ہیں اور پوری تنخواہ تک نہیں دیتے ‘وہ خود لاکھوں کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام نہیں کرتے ‘ پوچھے جانے پر خفا ہوجاتے ہیں۔
کیا ہمارے شہر جان بوجھ کر برباد کیے جارہے ہیں؟ سی ڈی اے کا ممبر ماحولیات امریکن نیشنل ہے‘ جس نے ایمبیسی روڑ پر درختوں کا قتل عام کرایا ۔ ہم چیختے رہے‘ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ایک ماہ مسلسل ‘رولا‘ ڈالا‘ ایک این جی او نے مظاہرہ کیا تو صرف بیس لوگ باہر نکلے‘ جن میں سے دس لوگ میرے شو کی پروڈکشن ٹیم کے تھے۔ یہ شعور کا لیول ہے اسلام آباد میں۔ وزارتِ ماحولیات کے ایک ڈی جی نے مجھے بتایا ایمبیسی روڈ پر راتوں رات ایک پٹرول پمپ تعمیر کر دیا گیا؛اگرچہ ماحولیات کی ایجنسی نے لکھ کر دیا تھا کہ یہ پٹرول پمپ اس جگہ نہیں بن سکتا ‘شہر کو خطرہ ہوگا‘ قریب ہی بچوں کا سکول ہے۔ سی ڈی اے افسران نے مالک کو کہاکہ تم رات کو پٹرول پمپ شروع کردو‘ ہم سب کو دیکھ لیں گے۔ جنہوںنے شہر کا تحفظ کرنا تھا وہی اس شہر کا شکار کررہے ہیں۔ ان سب کو پتہ ہے کہ انہوں نے اس ملک میں نہیں رہنا‘ ان کے بچے پہلے ہی باہر رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے جب دوہری شہریت والے بابوؤں کی فہرستیں اور نام چھاپنے شروع کیے تو ہماری چیخیں نکل گئیں کہ آدھی سے زیادہ ٹاپ بیوروکریسی تو بچوں سمیت امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘نیوزی لینڈ کی شہریت لے چکی ہے۔ اب مجھے بتائیں سی ڈی اے یا کابینہ ڈویژن میںبیٹھے امریکی شہریوں کو پاکستان یا اس شہر سے کتنی دلچسپی ہوسکتی ہے؟ بیرون ملک اپنے بچوں کے لیے فلیٹس اور اخراجات پورے کرنے کے لے یہ سب پاکستان کو لوٹ رہے ہیں اور حالت یہ ہوچکی ہے کہ پچھلے دنوں یہ خبر آئی: دبئی میں پچھلے سال پاکستانیوں نے چار ہزار کروڑ روپے کی نئی جائیدادیں خریدی ہیں۔ دس ارب ڈالرز کا فگر پہلے آچکا تھا۔ لندن میں جس طرح نواز شریف کے بچوں کی نئی جائیدادوں کی خبریں سامنے آئی ہیں اس سے لگتا ہے سب ملک لوٹ گئے ہیں۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو اور زرداری نے سرے محل خرید لیا تھا۔ ان سے سوالات کرو تو فوراً جواب ملتا ہے: آپ جمہوریت کے دشمن ہیں۔ اگلے دن شاہ محمود قریشی کے گوشوارے پڑھ رہا تھا ‘ بیس کروڑ روپے کا کیشں ان کے اور بیوی بیٹے کے اکاؤنٹ میں پڑا ہے لیکن کل ٹیکس آٹھ لاکھ روپے دیا۔ ان لوگوں کے پاس کہاں سے آرہا ہے؟ہمارا پروگرام دیکھ کر ایک بھارتی شہری نے دلی سے میسج کیا کہ وہ پچھلے ماہ لاہور میں تھا ‘ اس نے ڈالرز دے کر پاکستانی کرنسی تبدیل کرائی‘ منی ایکسچینج ڈیلر نے کچی رسید دے دی‘ یہ ڈالرز پاکستان کی اکانومی میں نہیں گئے‘ یہ ڈالرز سٹیٹ بینک میں نہیں گئے‘ بلکہ اب یہ ڈالرز اس ڈیلر سے خرید کر‘ کوئی حرام کی کمائی دبئی بھیجے گا ۔ وہ کہہ رہا تھا جب سیاح کا پیسہ آپ کے بینکوں میں جاہی نہیں رہا تو پھر ڈالر کہاں سے آئیں گے اور کیونکر پاکستانی کرنسی تباہ نہیں ہوگی؟ وہ مجھے بتانے لگا کہ بھارت میں کیسے یہ سب کچھ کنٹرول ہوتا ہے۔ میں اس کا میسج پڑھتا اور کڑھتا رہا۔ یہاں کون ان باتوں کی پروا کرتا ہے‘ بھارت میں تو کسی کے پاس غیرملکی شہریت ہو تو بھارتی شہریت ختم ہوجاتی ہے‘ ووٹ تک نہیں ڈال سکتا۔ پاکستان میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے‘ ملک کے وزیراعظم‘ وزیرخارجہ اوروزیرداخلہ تک بیرون ملک نوکریاں کرتے ہیں ۔
شاہد خاقان عباسی کراچی کی ایک پارٹی کو روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز کی ادائیگی پندرہ برس تک کرنے کی ڈیل دیتے ہیں‘ چاہے وہ ایل این جی ٹرمینل ایک ماہ بھی استعمال نہ ہو۔ سمجھداری دیکھیں‘ روزانہ تین کروڑ روپے پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کی ڈیل نہیں دی‘ڈالروں میں ادائیگی کی ڈیل کی گئی۔ کمپنی پاکستانی ہے‘ لیکن وہ ہم سے ڈالرز لے رہی ہے۔ اس ملک سے‘ جس کا ڈالر ریٹ روز بروز بڑھ رہا ہے اور قرضے نوے ارب ڈالر سے کراس کرگئے ہیں ‘ یہ سب اپنا ایک ٹکا بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں۔ڈالرز کا ریٹ بڑھتا جائے گا ان لٹیروں کا منافع بھی بڑھتا جائے گا ۔ سب کو ڈالرز چاہیں‘ لیکن کہاں سے آئیں گے‘ یہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی سوچنا چاہتا ہے۔
کسی اور زمانے کے لوگ ہوں گے جو سوچیں گے‘ سمجھیں گے یا ملک چلائیں گے‘اس زمانے کے لوگوں کو تو اپنے بچے بیرون ملک سیٹل کرنے‘ حرام کی دولت سے جائیدادیں خریدنے اور بزنس مین دوستوں کو پندرہ برس تک روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار کی ڈیل اور وہ بھی ڈالروں میں‘ دینے سے فرصت نہیں ہے؛جبکہ ملکی اکانومی تباہ کرنے بعد اب اسحاق ڈار لندن کی گلیوں میں چہل قدمی کرتے پائے جاتے ہیں!