منتخب کردہ کالم

ڈاکٹر رتھ فائو …. کالم وقار خان

ڈاکٹر رتھ فائو …. کالم وقار خان

نام فقیر تنہاں دا باھو،قبرجنہاں دی جیوے ھو….وہ ان کے لئے ابربہارتھی جن کے لئے زمین سخت اورآسمان دورہے۔وہ محسن انسانیت تھی جس نے بلاتفریق مذہب وملت اوررنگ ونسل دکھی مخلوق خداکی صحیح معنوں میں بے لوث خدمت کی۔اگرہماری تاریخ کے ایک پلڑے میں ہماری چارہ گراشرافیہ کی خدمات اور دوسرے پلڑے میں اس اکیلی نرم ونازک ریاضت کیش کی انسانیت کے لئے خدمات رکھ دی جائیں تو دوسرا پلڑا بھاری ہے۔بے شمار فربہ تن وتوش مسیحائوں کے مقابلے میں ضعیف البدن ڈاکٹر رتھ فائو اورعبدالستار ایدھی کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔آج 70واں یوم آزادی منانے والی پاکستانی قوم اگر واقعی زندہ قوم ہے تواس غریب الوطن مسیحا خاتون کی مقروض رہے گی۔
ہم مصلحت کیش تواول درجے کے دنیا پرستوںاور بہروپیوں کو بھی درویش دوراں کہہ ڈالتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ لالچ،جاہ پرستی اوردنیاوی آسائشوں کے دائمی اورنسلی اسیر ہوتے ہیں۔گاہے ہم ایسی ہستیوں کواپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں جو دراصل نجاست دہندہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ہم تو ذاتی اور گروہی مفاد کی خاطرانہیں بھی فرشتہ خصلت قرار دیتے ہیں جن کی اس ‘خصلت‘کی آڑمیں سفاکیت اوردرندگی پھن پھلائے کھڑی ہوتی ہے۔کبھی ہم کج ادااپنے کسی ایسے ممدوح کوبھی بے ریا اورکھراکہنے سے نہیں چوکتے جو خلق خداکے نزدیک مستند ریاکار اور کھوٹا ہوتاہے۔اکثر ہم سادہ دل انہیں اپنے لئے چھتناورشجر سمجھ لیتے ہیں جوکانٹوں کی فصل کے مستقل کاشت کار ہیں۔یہاں تو ہم ایسے لوگوں کو بھی دانشور کہہ دیا جاتا ہے جن کی گفتار سے رتی برابر دانش برآمدکرنا محال ہے۔ہمارے پاس ایک ریوڑ ایسا بھی ہے،جس کی بھیڑوں کی غالب اکثریت کا رنگ کالاہے۔کبھی ہم اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے والی ایسی شخصیات کا مشن پوراکرنے کا عزم کر بیٹھتے ہیں،جنہوں نے ساری عمر مخلوق خدا کی گردنوں پر جبراً سواری کے سواکوئی بات نہیں سوچی۔گاہے ہماری تاریخ کا جھومرایسے لوگوں کوکہا جاتا ہے،جن کے کارہائے نمایاں کی بدولت ہمار اوجود تاریخ کی دہلیزپرسوالیہ نشان ہے۔ہم ان کا نام تاریخ کے نگار خانے میں روشن رکھنے کی سعی کرتے ہیں ،جو اپنی زندگی میںفقط اندھیرے ہی پھلاتے رہے اوردوسروں کی زندگی کی شمعیں گل کرتے رہے۔یہاںانہیں بھی محبتوں کا امین کہہ دیا جاتا ہے،جن کی منزل طاقت اورزادراہ نفرت ہے۔ہم سے ان کی قبروں پر گل افشانی کی دعائیں کرائی جاتی ہیں،جو ہمیں زندہ درگور کرکے خودفضا ہی میں تحلیل ہوگئے…..حقیقت میں ایسے معتبر جملوں،اشعار،القابات اور اعزازات کی حرمت ڈاکٹررتھ فائو اورعبدالستارایدھی جیسی اولوالعزم ہستیوں کی زندگی سے جڑی ہے اورجڑی رہے گی۔تاہم ان سے تھوڑا شکوہ بھی ہے۔
وائے حسرتا!پاکستان کی مدرٹریساانسانوںمیں تو جذام کے موذی مرض کا خاتمہ کر گئیںمگر اس نامراد کوڑھ زدہ جمہوریت کا کچھ نہ کر سکیں۔نامراد ہذاکا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے تو ہمیں اپنے کوڑھ زدہ رشتہ دار یاد آتے ہیں،جنہیں ہم سسک سسک کر مرنے کے لئے ویرانوں میں چھوڑ آتے تھے۔کاش کوئی ایسابھی ویرانہ ہوتا،جہاں ہم اس کوڑھی کوپھینک آتے اور مڑکر اس کی منحوس شکل نہ دیکھتے۔اب تک تو ہم نے جن جن کھائیوں میں اسے دھکا دیاہے،یہ کمبخت ہردفعہ وہاں سے لولی لنگڑی اور جذام کی مریض ہونے کے باوجودپھر سے آموجود ہوتی ہے۔مارشل لائوں،ایمرجنسیوں،تشدد،58/2-Bاور نااہلیوں سمیت کیسے کیسے ویرانوں اورکھائیوں میں ہم نے اسے گرایا مگرڈھیٹ مزاج جمہوریت پھر بھی زندہ رہی۔تازہ واردات دیکھئے کہ کامل چار روزتک جی ٹی روڈ پر اس نے تماشادکھاکر اپنا وجود پھر سے منوایا ہے ،حالانکہ اپنی طرف سے تو ہم نے اسے ایک نئی کھائی میں دھکا دیا تھا۔
حسن اتفاق کہیے یا سوئے اتفاق کہ 1958ء میں جب ڈاکٹر رتھ فائو پہلی مرتبہ پاکستان میں جذام کے مریضوں کی فلم دیکھ کر لرز گئی تھیں،تب ہم اپنی کوڑھ زدہ جمہوریت کو تازہ تازہ ایک ویرانے میں چھوڑ کر لوٹے تھے۔ڈاکٹر صاحبہ نے 1960ء میںیہاں آکر کوڑھ کے مریضوں کاعلاج شروع کیامگر شاید ہمارے نظام کا کوڑھ ان کی نظروں سے اوجھل رہا،یا پھراس کا علاج اس مسیحا کے بس سے باہر تھا۔ڈاکٹر رتھ فائو اورہماری ترجیحات میںفرق یہ رہاہے کہ وہ اس غریب ملک کے لوگوں میںجذام کا خاتمہ چاہتی تھیں جبکہ ہم کوڑھ زدہ جمہوریت کا۔ہر دوفریق اپنے اپنے مشن پر کاربند رہے مگرکامیابی صرف اس عظیم عورت کے حصے میں آئی جبکہ ہمارے’مسیحا‘ہاتھ ہی ملتے رہے اورجذام کا شکار جمہوری نظام ان کے سینے پر مونگ دلتا رہا۔اس فرشتہ خصلت خاتون کی انتھک کوششوں سے آخر کار1996ء میں وہ دن آگیا جب عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک قراردے دیا۔تاہم بدقسمتی سے کسی بھی عالمی ادارے کی نظر میں ہماری مساعی جمیلہ ابھی تک ثمر بار نہیں ہوسکیں۔’عالمی صحت کے ادارے‘ سمجھتے ہیں کہ اگرمردمومن ضیاء الحق پاکستانی عوام میں کوڑھ زدہ جمہوریت کے وائرس کاخاتمہ نہیں کر سکے توپھر یہ کارخیر ممکن بھی نہیں کہ ان جیسا مسیحا اس قوم کو میسر ہواہے نہ ہو گا۔
ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹررتھ فائو کے خیال میں جذام کے شکار انسانوں کی طرح جمہوریت کے کوڑھ کابھی علاج کیاجاتا ہے،نہ کہ اسے ویرانوں میں پھینکا جاتاہے۔ممکن ہے وہ سمجھتی ہوں کہ ملکی نظام کے جذام کاعلاج ان جیسے ڈاکٹروں کی بجائے قوم کے حقیقی مسیحاہی کر سکتے ہیں۔اس خیال کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ خود ان کے ملک میں یہی طریقہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ہم سنتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعدجب قیام پاکستان کی منزل دہلیزسے لگی کھڑی تھی،تب ڈاکٹر فائو کا وطن جرمنی اپنے بدترین دور سے گزر رہاتھا۔فوج ختم ہو گئی تھی اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیاچکاتھا۔جنگ میں اس کے 75لاکھ شہری ہلاک اور114شہر تباہ ہوئے تھے۔زراعت 65فیصد رہ گئی تھی ،بجلی اوربندر گاہیں بند،انڈسٹری صفراور کرنسی ختم ہوگئی تھی۔ دس سال تک ایک کروڑ چالیس لاکھ جنگ کے متاثرین امدادی کیمپوں میں پڑے رہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ 1962ء تک جرمنی امریکی امداد سے چلنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔اس دہائی میں پاکستان سمیت چودہ ممالک جرمنی کو امداددیتے تھے۔تاہم جرمنی کے مسیحائوں نے تاریخ پر ماتم داری کی مجالس سجانے کی بجائے اس سے سبق حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔مختصراًنوبت بہ ایں جا رسید کہ آج جرمنی دنیاکی چوتھی بڑی معیشت ہے اور ہم 41ویں نمبر پر ہیں۔جرمنی کا جی ڈی پی 3400بلین ڈالر ہے جبکہ ہمارا271بلین ڈالر۔ان کی سالانہ برآمدات 2100ارب ڈالر ہیں اور ہماری 29ارب ڈالر۔جرمنی میں فی کس آمدنی 41178ڈالر ہے اور وطن عزیز میں 1434ڈالر۔ہماری حکومت نے کبھی جرمنی کو بارہ کروڑکی خطیرامداددی تھی اور آج وہ روزانہ اتنی مالیت کی پیپر پن بنارہے ہیں۔
حضور والا!ڈاکٹر رتھ فائو کی قوم نے یہ مقام دن رات ایک دوسرے کواپنے کوڑھ زدہ نظام کے طعنے دے کر حاصل نہیں کیا۔جرمن قوم نے کسی طالع آزما ،کسی زودفہم دانشوریا کسی دردمند دل کی خواہش بیمارکی خاطرکوڑھ زدہ جمہوریت کو کسی کھائی میں دھکا نہیں دیا۔انہوں نے اپنی غلطیوں اور تاریخ سے سبق حاصل کرکے سیکھاکہ لولی لنگڑی جمہوریت کاتسلسل ہی اس نظام کی صحت یابی اوران کے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔جمہوریت کے دشت کی آبلہ پائی اور منصوبہ بندی کانتیجہ ہے کہ کل کے بے سروساماں آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ،ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں۔شاید جرمنی کی ڈاکٹر رتھ فائو نے اپنے عمل سے ہمیں انسانوں میں جذام کے مرض کے علاج کی آڑ میں نظام کے کوڑھ کا علاج بھی بتانے کی کوشش کی تھی مگرہماری ترجیحات مختلف ہیں ۔ہم تو وہ کج ادا ہیں کہ اپنے ووٹ کی حرمت کی دہائی دینے پرنوازشریف پر پھبتیاں کستے ہیں۔گویا خود اپنے ووٹ کی طاقت کا مذاق اڑاتے ہیں ۔بس ڈاکٹر فائو سے یہی شکوہ ہے کہ انہوں نے ہمارے کوڑھ زدہ اذہان اور نظام کا براہ راست علاج نہیں کیا۔شاید وہ ادراک نہیں کر سکیں کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر آگئی تھیں ورنہ ہمارا اختیار ہوتا تو انسانوں میں بھی جذام کے خاتمے کو کبھی اپنی ترجیح نہ بناتے بلکہ آج بھی ایسے مریضوں کر ویرانوں اورکھائیوںمیں دھکے دے رہے ہوتے ،جیسے جمہوریت کو دے رہے ہیں.

..
اگلا کالم
..