منتخب کردہ کالم

مخالفت کا حق؛ ڈاکٹر توصیف احمد خان

فلسفہ کے استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف حفاظتی نظربندی سے رہا ہوئے تو نفرت آمیز تقریر کرنے والے شخص کی معاونت کے الزام میں گرفتار ہوگئے۔ ڈاکٹر ظفر عارف، سابق طالب علم رہنما مومن خان مومن اور ایک سیاسی کارکن حمیداﷲ کی نظربندی کو تین ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے۔

وفاقی حکومت نے سینیٹ میں بیان دیا کہ ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں مگر ڈاکٹر ظفر عارف اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی۔ ڈاکٹر ظفر عارف کا تعلق کراچی کے متوسط طبقے سے ہے۔ ان کے والدین رام پور سے کراچی آئے۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے طالب علمی کے دور میں بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی اور 60 کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے طالب علم بنے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب این ایس ایف کراچی کے طلبا کی مقبول جماعت تھی۔ معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، حسین نقی، جوہر حسین، نفیس صدیقی اور واحد بشیر، ایوب آمریت کے خلاف طلبا تحریک کی قیادت کررہے تھے۔

ڈاکٹر ظفر عارف نے این ایس ایف میں شامل ہو کر تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تحریک میں حصہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی یونیورسٹی اور اساتذہ کو علمی آزادی کا بنیادی حق استعمال کرنے کا حق نہیں تھا۔ این ایس ایف کے نمائندے حسین نقی ایک فرد ایک ووٹ کے طریقہ کار کے ذریعے انجمن اتحاد طلبا کراچی یونیورسٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار پروفیسر مکرم علی خان نے دوبارہ انتخابات کرانے کی درخواست کی تھی اور دوبارہ انتخابات میں حسین نقی کامیاب ہوئے تھے، مگر بلوچ طلبا کے خلاف کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے امتناعی اقدام پر مزاحمت کرنے پر حسین نقی کو کراچی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ ظفر عارف ان طلبا میں شامل تھے جو انتظامیہ کے آمرانہ رویہ کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔

بعد ازاں ظفر عارف ایم اے کرنے کے بعد برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر ظفر عارف برطانیہ میں سوشلسٹ تحریک سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کو انجمن اساتذہ کے پلیٹ فارم پر منظم کرنا شروع کیا۔ اس وقت کے یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ جونیئر اساتذہ انجمن میں کوئی فعال کردار ادا کریں، مگر ڈاکٹر ظفر عارف نے انجمن اساتذہ کے علمی ادارہ کو مستحکم کرنے اور اساتذہ کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے وقف کرنے کا تہیہ کیا۔

ڈاکٹر ظفر عارف کی سحر انگیز شخصیت کی بنا پر وہ انجمن اساتذہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ اس وقت شعبہ ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر ناظم زیدی انجمن کے صدر بن گئے۔ اس زمانے میں 100 سے زائد اساتذہ ایڈھاک بنیادوں پر کام کررہے تھے، ان میں سے کچھ تو 10، 10 برسوں سے مستقل نہیں ہوئے تھے، ان اساتذہ کی ملازمتوں کا انحصار شعبہ کے چیئرپرسن، رئیس کلیہ اور وائس چانسلر کی صوابدید پر تھا۔ جو اساتذہ اپنے سینئرز کو خوش نہیں کر پاتے تھے وہ ملازمت سے رخصت کردیے جاتے تھے۔ بعض جونیئر اساتذہ کو شعبہ کے چیئرمین اور ڈین وغیرہ کے گھروں کے کام کرنے پڑتے تھے۔

ڈاکٹر ظفر عارف کی ایما پر انجمن اساتذہ کی ایگزیکٹو کونسل نے ایڈھاک اساتذہ کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔ این ایس ایف کے سابق رہنما شعبہ ریاضی کے استاد آغا علی رضوی اس کمیٹی کے سیکریٹری بنے۔ آغا علی رضوی دونوں پیروں سے معذور تھے۔ پروفیسر سکندر مہدی، ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر شمس الدین وغیرہ اس جدوجہد میں ان کے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر ظفر عارف کی قیادت میں ایڈھاک اساتذہ نے ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا، کئی دن تک ہڑتال جاری رہی۔ جب انتظامیہ نے اس ہڑتال کا کوئی نوٹس نہیں لیا تو ڈاکٹر ظفر عارف نے اعلان کیا کہ اساتذہ ریگل چوک پر مظاہرہ کریں گے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان اخبارات نے بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ۔ شام کے انگریزی کے اخبار میں ممکنہ مظاہرے کی خبر ہیڈ لائن کی صورت میں شائع ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت سائٹ اور لانڈھی میں مزدوروں کی تحریکوں کو طاقت سے کچلنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ پولیس نے مزدوروں کی ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے بہیمانہ فائرنگ کی تھی جس سے متعدد مزدور شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جو مزدور تحریک پر فائرنگ سے پید اہونے والی صورتحال کے اثرات سے نہیں نکلے تھے، اب کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے احتجاج کی طرف متوجہ ہوگئے۔

انھوں نے ڈاکٹر ظفر عارف اور ان کے ساتھیوں سے علی الصبح ملاقات کی اور اس وقت کے وزیر تعلیم پیار علی الانہ اور سیکریٹری تعلیم پناہ علی شاہ کو حکم دیا کہ ایڈھاک اساتذہ کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے۔ ڈاکٹر ظفر عارف کے آہنی عزائم سے اساتذہ کی تحریک کامیاب ہوئی۔

کراچی یونیورسٹی 1950 میں قائم ہوئی تھی، جب سے 1974 تک اساتذہ کے حالات کار بہتر ہوئے، بلکہ ملک بھر میں اساتذہ کی تحریک کو تقویت ملی۔ کراچی میں اسکولوں کے اساتذہ نے تاریخی جدوجہد کی۔ پولیس نے بہیمانہ تشدد کے ذریعے اس تحریک کو کچلا۔ تحریک کے دوران اساتذہ کو پولیس کے تشدد سے بچاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے متحرک رہنما معراج محمد خان زخمی ہوئے تھے، انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحریک کی قیادت اگر ظفر عارف کررہے ہوتے تو یہ تحریک اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرتی۔

ڈاکٹر ظفر عارف کی اس تحریک کے نتیجے میں انجمن اساتذہ میں جونیئر اساتذہ کا ایک گروپ داخل ہو۔ اب نئے نوجوان اساتذہ فیصلہ کن حیثیت کے مالک بن گئے تھے، یوں اساتذہ کی انجمن کی ایک نئی شکل سامنے آئی تھی۔ ڈاکٹر ظفر عارف کی کوششوں سے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کو بے مثال مالیاتی فوائد حاصل ہوئے۔ جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے سائے ملک پر چھا گئے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے تھنڈر اسکواڈ نے ترقی پسند طلبا پر بہیمانہ تشدد کیا۔

آمریت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ کراچی یونیورسٹی میں طلبا تنظیموں میں خونریز تصادم ہوا جس میں متعدد طلبا ہلاک ہوئے۔ پولیس نے کراچی یونیورسٹی میں کریک ڈاؤن کے دوران شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے گھر سے کلاشنکوف برآمد کی۔ کہا جاتا ہے کہ جمعیت کے بعض کارکنوں نے ڈاکٹر کشفی کے علم میں لائے بغیر غیر قانونی ہتھیار ان کے گھر پر رکھے تھے۔ پولیس نے ڈاکٹر ظفر عارف کو بھی گرفتار کرلیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ ان کے گھر کے باہر لان سے کارتوسوں کا دستہ ملا ہے۔

ڈاکٹر ظفر عارف کی گرفتاری پر ملک بھر میں اور یورپ اور امریکا میں احتجاج کیا گیا تھا۔ پھر ڈاکٹر جمیل جالبی کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا، انھوں نے ڈاکٹر ظفر عارف کی سرگرمیوں کے بارے میں گورنر ہاؤس کو منفی رپورٹیں بھیجیں۔ سندھ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عباسی نے ان رپورٹوںپر توجہ نہیں دی مگر جب لیفٹیننٹ جنرل جہانداد خان گورنر بنے تو ڈاکٹر ظفر عارف کو نوٹس جاری کیا گیا۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے اپنے معرکۃ الآراء جواب میں مارشل لاء کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی سفارش پر ڈاکٹر ظفر عارف کو ملازمت سے برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا۔

ڈاکٹر ظفر عارف نے دو سال کا عرصہ سندھ کی مختلف جیلوں میں گزارا۔ انھیں جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بند وارڈ کیا گیا، مگر ظفر عارف کے عزم میں فرق نہیں آیا۔ محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے اورمارشل لاء ختم کیا گیا تو ڈاکٹر ظفر عارف کو سندھ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ریویو بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ریویو بورڈ کے سامنے حکومت کوئی مواد پیش نہ کرسکی اور ڈاکٹر ظفر عارف رہا ہوگئے اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ڈاکٹر ظفر عارف محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی مشیروں میں شامل تھے، مگر اصولی اختلاف کی بنا پر وہ پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے ڈاکٹر ظفر عارف کو کراچی یونیورسٹی کی ملازمت پر بحال نہیں کیا کیونکہ ڈاکٹر ظفر عارف نے اپنی بحالی کے لیے کسی بھی نوعیت کی درخواست دینے سے انکار کیا۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے اس دوران تشدد کو ہتھیار بنانے کی پالیسی کی مخالفت کی اور اس موضوع پر شایع ہونے والی مارکسسٹ دانشوروں کی دو کتابوں کے ترجمے کیے۔ پھر وہ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے قریب آئے مگر پھر سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی۔

بہت سے لوگوں نے ڈاکٹر ظفر عارف کے ایم کیو ایم لندن میں شمولیت کے فیصلے پر اعتراض کیے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب دنیا کے مزدوروں کو متحد کرنے کے فلسفہ کا پرچار کرتے کرتے ایک لسانی وحدت تک محدود ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس فیصلے کے حق میں دلائل دیتے تھے۔ ایک فلسفی استاد کے دلائل میں خاصا وزن ہوسکتا ہے، یہ ایک علیحدہ بات ہے ، مگر ان سے اختلاف ہر شخص کا حق ہے۔ مگر جنرل ضیاء الحق آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے ظفر عارف کی مسلسل نظربندی پر تشویش ہے۔

ظفر عارف نے کبھی تشدد کا پرچار نہیں کیا۔ وہ دلائل سے سیاست کرتے ہیں۔ ان کے دلائل کا جواب دیا جاسکتا ہے مگر ان کی 80 سال کی عمر میں نظربندی پر ہر اس شخص کو تشویش ہے جو مخالفت کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ مخالفت کا حق جمہوری کلچر کو مستحکم کرتا ہے۔