ڈاکٹر ظفر الطاف بنام شہباز شریف….رؤف کلاسرا
کل سے سوچ رہا ہوں‘ بہادر شاہ ظفر، ڈاکٹر ظفر الطاف، کلدیپ نائر اور شہباز شریف میں ایسا کیا مشترک ہے کہ یہ چاروں مختلف زمانوں، کرداروں اور سوچوں کے حامل افراد میرے دماغ پر سوار ہیں؟
کتنے لوگوں نے یہ خبر پڑھی ہو گی کہ بھارتی کالم نگار کلدیپ نائر کی باقیات پاکستان میں دریا راوی میں بہا دی گئیں۔ یہ باقیات ان کی پوتی مندرا نائر پاکستان لائی تھیں۔ یہ ہے انسانی زندگی کا سفر اور اس کا انجام۔ قبر میں منوں مٹی تلے مٹی بن کر ڈھانچا بن کر رہ جائو‘ جسے صدیوں بعد کوئی آرکیالوجسٹ کبھی آنے والے زمانوں میں کھدائی کے دوران نکال کر میوزیم میں سجا دے یا پھر کسی دور دراز بہتے دریا میں راکھ کی شکل میں بہا دیے جائو اور نام و نشان ہی نہ رہے۔ شاید غالب نے اسی دن کے لیے دلی کی کسی اداس شام یہ کہا تھا:
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
کلدیپ نائر سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ رہتے بھارت میں تھے‘ لیکن ان کی روح سیالکوٹ میں ہی تھی۔ اگر کسی نے پچھلے ستر برسوں کی پاکستان اور بھارت کی تاریخ ایک کتاب میں پڑھنی ہو تو ان کی آٹوبائیوگرافی Beyond The Lines کا مطالعہ کرے۔ انسان کتنا ہی دوڑتا رہے‘ آخر کو ہونا مٹی میں مٹی ہے یا پھر باقیات ایک برتن سے نکال کر کسی دریا کنارے بیٹھ کر پانی میں بہا دی جاتی ہیں۔
بینظیر بھٹو کا ایک انٹرویو یاد آیا۔ موت سے چند ماہ پہلے ایک برطانوی صحافی خاتون نے دوبئی محل میں انٹرویو کے دوران پوچھا تھا: یہ کتنے میں خریدا؟ بی بی نے فخر سے کہا تھا: دو کروڑ بیس لاکھ درہم کا۔ کچھ عرصہ قبل ہی بینظیر بھٹو اور زرداری نے لندن کا سرے محل چالیس لاکھ پونڈز میں بیچا تھا۔ وہی سرے محل جس کی ملکیت سے وہ ساری عمر انکاری رہے۔ دو کروڑ بائیس لاکھ درہم کے اس محل میں بی بی چند ماہ بھی نہ رہ سکیں۔ آج کل وہ خالی محل یقینا اپنے مکینوں کا راستہ دیکھتا ہو گا‘ کیونکہ اس کا اصلی مالک آصف زرداری یہاں پاکستان میں فالودے والوں کو ارب پتی بنانے میں مصروف ہے۔ جب قومی اسمبلی میں نواز لیگ نے سنڈے ٹائمز کا سرے محل سکینڈل بریک کیا تھا‘ تو بینظیر بھٹو نے انکار کیا تھا۔ کابینہ کے اجلاس میں ان کے وزیر شیر افگن نے وزیر اعظم سے پوچھا تھا کہ کیا سرے محل ان کا ہے؟ بینظیر بھٹو نے اعتماد سے کہا تھا: ہرگز نہیں۔ شیر افگن‘ بینظیر بھٹو پر یقین کر بیٹھے۔ جب وہ سرے محل بکا اور زرداری صاحب نے چالیس لاکھ پونڈز کھرے کیے تو شیر افگن افسردہ رہے کہ ان کی وزیر اعظم نے ان سے سچ نہیں بولا تھا۔
پھر اس ملک میں سچ ہم سے کس نے بولا ہے؟ نواز شریف نے بولا ہے؟ پانامہ کے بعد تین تقریریں کیں اور تینوں میں جھوٹ۔ ایک ٹی وی شو میں عاصمہ جہانگیر سے یہ سوال ہوا: وزیر اعظم صاحب جھوٹ بول رہے ہیں‘ تو وہ بولی تھیں: تو کیا ہوا؟ ہم میں سے کون جھوٹ نہیں بولتا۔ سب بولتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم جھوٹ بولتا ہے تو اس میں کون سی انہونی ہے‘ جس پر ہم سب اتنے حساس ہو گئے ہیں؟ پانامہ میں کیا کیا جھوٹ گھڑے گئے۔ کیسی کیسی کہانیاں ہمیں نہ سنائی گئیں۔ پانامہ سکینڈل میں ہر نیا دن‘ ایک نیا جھوٹ۔ تو پھر کیا ہوا؟ وہی نواز شریف اپنے جھوٹ سمیت جیل جا بیٹھے۔ تین دفعہ ملک کے وزیر اعظم کے لیے پیسہ، دولت اور جائیدادیں سب کچھ تھا۔ چلیں آپ خود مال و دولت بنانے کے راستے پر نکل کھڑے ہوئے۔ اکثر لوگ بچوں کو اپنے گندے دھندے سے دور رکھتے ہیں۔ ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کا ویٹو کارلیون بھی اپنے بچوں کو وکیل بنانا چاہتا تھا‘ اپنے جیسا ڈان نہیں۔ ہمارے ہاں الٹ ہے۔ جو کچھ ہم خود ہیں وہی بچوں کو بنانا چاہتے ہیں۔ حسن‘ حسین کم عمری میں ہی ارب پتی بن گئے‘ یا بنا دیے گئے۔ وہ بھی ڈٹ گئے۔ ہزاروں صفحات پر پھیلی وہ داستان عبرتناک ہے۔
شہباز شریف صاحب نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ ہر بات پر فرماتے تھے: دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو مجھے لٹکا دیں۔ واقعی ایک دھیلے کی کرپشن نہ تھی‘ یہ کچھ زیادہ دھیلوں کی نکلی۔ صاف پانی پراجیکٹ میں چار ارب روپے بیوروکریسی اور شہباز شریف نے پھونک ڈالے۔ پانی کی ایک بوند نہ گری۔ پراجیکٹ بہاولپور میں شروع ہونا تھا‘ چار ارب روپے بابوز نے لاہور میں خرچ کر ڈالے۔ شہباز شریف صاحب کے بچے تو بچے، داماد بھی اس کھیل میں شریک ہوئے۔ علی عمران نے صاف پانی پروجیکٹ کیلئے اپنی عمارت کرائے پر دے کر کروڑوں روپے کا ایڈوانس لیا‘ اور چند دن بعد دفتر خالی کر دیا گیا۔ دوسری طرف نواز شریف صاحب نے اپنے داماد کو قومی اسمبلی میں بیس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ کا سربراہ بنا دیا۔ اب نیب کہتا ہے: ان رقوم میں بھی بھاری گھپلے سامنے آئے ہیں۔ چلیں‘ اب دونوں بھائی‘ شہباز شریف اور نواز شریف‘ ایک دوسرے کو طعنے دینے کے قابل نہیں رہے کہ تمہارے داماد نے خاندان کا نام ڈبو دیا میرا تو بڑا شریف تھا۔ ایک کا داماد جیل سے ہو آیا ہے تو دوسرا لندن مفرور ہے۔
عمران خان صاحب کی سن لیں۔ لوگوں کا ایک رومانس تھا کہ وہ ویسا نہیں کریں گے‘ جو دیگر نے کیا۔ عمران صاحب نے کہا تھا کہ وہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے‘ اور واقعی کوئی نہیں بچا جو تحریکِ انصاف میں نہ ہو یا کابینہ میں شامل نہ ہو۔ جب میں نے یہی بات عمران خان صاحب سے کہی تو کوئی جواب نہ پا کر طنزاً کہا تھا: رئوف‘ پھر تم کابینہ بنا دو۔ میں نے کہا: خان صاحب‘ یہی جواب نواز شریف اور بینظیر بھٹو دیتے تھے تو ہم ان پر پل پڑتے تھے۔ آپ کہتے تھے: میں کرپٹ لوگوں کے بغیر حکومت بنا کر دکھائوں گا۔ اب چند دانے ہی بچے ہیں‘ تحریک انصاف میں جن کے دامن پر داغ نہیں۔ جب عمران خان صاحب مسلسل زچ ہو کر اپنے قریبی ساتھیوں کی کرپشن اور مانیکا فیملی کا دفاع کر رہے تھے تو مجھے ترس آرہا تھا۔ کیا انسان اس عہدے پر کوشش کرکے اس لئے پہنچتا ہے کہ ایک دن سب کرپٹ لوگوں کا وہ دفاع کرے؟
شہباز شریف کو گرفتار ہوتے دیکھ کر اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کی یاد آ گئی۔ شہباز شریف صاحب نے ان کے زندگی کے آخری ایام میں ان کا جینا حرام کر دیا تھا۔ ان پر اینٹی کرپشن پنجاب کے ذریعے جھوٹے مقدمے درج کرائے گئے۔ انہیں گرفتار کرنے کے لیے پنجاب پولیس اسلام آباد ان کے گھر بھیجی گئی۔ قصور یہ تھا کہ وہ ہلہ دودھ کے اعزازی چیئرمین تھے۔ لاہور سے ہلہ دودھ ختم کرکے شہباز شریف صاحب کے بچوں نے چنیوٹ سے دودھ دہی لا کر بیچنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنی ٹیم اور ہلہ دودھ سے دور رہیں‘ ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے مزاج میں نہ تھا کہ وہ مشکل وقت میں ان ملازمین کو چھوڑ دیتے‘ جن پر مقدمے قائم کرکے گرفتار کیا گیا تھا۔ پلانٹ پر قبضہ کر لیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ان کی ضمانتیں کرانے گئے تو ان پر بھی مقدمے درج ہوئے۔ ایک دن کچھ اداس ہو کر بولے: یار یہ کیسے شریف لوگ ہیں۔ میرے والد چوہدری الطاف ان کی اتفاق فائونڈری کے مرتے دم تک لیگل ایڈوائزر رہے، ذاتی جان پہچان تھی‘ خود میں نواز شریف صاحب کے دور میں فیڈرل سیکرٹری رہا‘ ایک لمحے کے لیے بھی ان شریفوں نے میرے والد کے برسوں کے تعلق کا لحاظ نہیں کیا‘ اور جھوٹے پرچے درج کرا کے پولیس بھجوا دی۔ وہ چوہتر برس کی عمر میں پنجاب کی عدالتوں میں ہر ہفتے پیش ہوتے تھے۔ شہباز شریف صاحب مسلسل اس کیس کی نگرانی کرتے تھے۔
لوگ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے لوگوں پر کیا کیا ظلم کیے ہوئے ہوتے ہیں‘ لیکن قدرت نہیں بھولتی۔ شہباز شریف صاحب کے ستم کا شکار ڈاکٹر ظفر الطاف منوں مٹی تلے جا سوئے اور وہی شہباز شریف آج اسی تختِ لاہور میں ایک سیل میں قید ہیں‘ جہاں کبھی ان کی سلطنت کا سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ اسی لاہور شہر میں آج شہباز شریف قیدی ہیں‘ جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی دو مائوں سمیت چودہ معصوم انسانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔
ہزاروں میل دور سے آئے فرنگیوں کا قیدی اور ہندوستان کا آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر یاد آ گیا‘ جس نے اپنی سلطنت گنوانے کے بعد اپنے ایک شعر میں کہا تھا:
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا