ڈرتے ہیں سب ڈینگوں والے، ایک نہتی لاٹھی سے…..بابر اعوان
رام شیام فلمی کہانی۔ برادرانِ یوسف کا قصہ اللہ کی آخری کتاب میں قصص القرآن میں سے ایک۔ اورنگزیب بادشاہ اور شہزادہ دارا شِکوہ‘ ہندوستان کے گزرے کل کی تکلیف دہ تاریخ۔
ایک بھائی قیدی دوسرا بھائی اقتدار بچانے میں سرگرداں۔ اگلے پانچ دن کے لیے۔ چلئے مان لیتے ہیں نواز نہیں شہباز شریف لاہور ائیرپورٹ جانے کا راستہ بھول گئے‘ اور مال روڈ سے سیدھی ائیرپورٹ جانے والی سڑک چھوڑ کر شالامار باغ جانے والی سڑک پر مُڑ گئے۔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں‘ میڈیا دبائو میں تھا۔ اسی لیے الیکٹرانک میڈیا نے نواز شریف کے تاریخ ساز استقبالی ہجوم پر سلمانی ٹوپی ڈالے رکھی۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ نواز شریف کا ورودِ مسعود یہودیوں کی سازش کا شکار ہو گیا۔ مان لیا ”سٹیل منڈیلا‘‘ کی پاپولیرٹی زمین سے شروع ہو کر خلا تک پہنچ گئی۔ مگر وہ جو ہے ناں ‘کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘ اس نے رام شیام کے پیار کی اندرونی کہانی کھول دی۔ کہا: 2 دن پہلے فیصلہ ہو گیا تھا‘ نواز شریف کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ کوئی نہیں جائے گا۔ مگر شرم و حیا کے پُتلے نے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا کہ یہ میچ فکسنگ کس سے ہوئی اور استقبالی سپاٹ فکسنگ کا ریٹ کیا تھا؟ چلیے مان لیتے ہیں یہ فیصلہ ش لیگ نے ن لیگ کے وسیع تر مفاد میں کیا تھا۔ ن لیگ کے ”بیانیے‘‘کو مضبوط کرنے کے لیے۔ نواز شریف کا وہی بیانیہ جو کبھی وزارتِ اطلاعات کے خرچے پر اور کبھی سرکاری ٹی وی پر نظر آتا تھا‘ جس بیانیے کے پیچھے 42 کروڑ روپے ماہانہ سے چلنے والا میم سے میڈیا سیل ہوتا تھا۔ اب نواز شریف ٹبر سمیت گرفتار ہے۔ لفافی‘ لفافے میں اور لفافہ تھیلے میں بدل گیا۔ تھیلا کرپشن کی کمائی سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ بیانیہ آزاد ہے۔ مگر اس بیانیے پر بیان دینے والے غائب۔ بالکل ویسے ہی غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ گدھا سینگ مارنے کے قابل نہ رہے تو پھر ڈینگ مارنے کی بھی ہمت نہیں کرتا۔ اسی لیے ڈینگ مارنے والے غائب ہیں۔ اور ڈال سے ڈینگ مارنے والے، ڈال والے ڈنڈے سے ڈرتے ہیں۔ آئیے ایسے میں شاعرِ وکالت نامہ کی بھی سن لیتے ہیں:
ڈرتے ہیں سب ڈینگوں والے
ایک نہتی لاٹھی سے…
ڈانگ کی بھی کئی قسمیں ہیں اور لاٹھی کے بہت سے محاورے بھی۔ سب سے مشہور محاورہ ہے ”اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘۔ اس کا روزانہ مظاہرہ آج کل اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہو رہا ہے‘ جہاں علامہ بٹ صاحب قبلہ کے جاری کردہ تعویز بھی چائنہ والے ثابت ہوئے۔ اڈیالہ جا کر نواز شریف نے جیل انتظامیہ کے ساتھ وہی کچھ کیا‘ جیسا شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اپنے قائد کے ساتھ۔ اڈیالہ کا راوی کہتا ہے: نواز شریف نے پہلی فرمائش جیل کی مسجد میں جا کر وظیفہ کرنے کی کر ڈالی؛ چنانچہ جیل انتظامیہ نواز شریف کو لے کر جیل کی مسجد میں چلی گئی۔ اسی اثنا میں جیل کے مختلف سیلوں سے ‘دیکھو دیکھو کون آیا‘ والے نعروں کے ساتھ اپنی مرضی کے سابقے اور لاحقے لگا کر قیدیوں نے من پسند بلکہ شر پسند نعرے لگانے شروع کر دیے۔ جیل کی دنیا میں نعرے کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ جیل کی دنیا کا بادشاہ باغی کو براہ راست سزائے موت دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ لیکن جس جگہ قصوری چکّی (جہاں جیل کے اندر جرائم کرنے والوں کو بند کیا جاتا ہے اور جسے مغربی ممالک کی جیلوں میں Isolation Cell کہتے ہیں) ڈیتھ سیل، بارک، کھولی، فیکٹری‘ لنگر، لیڈیز بارک، بچہ بارک اور پوری جیل نعرے بازی شروع کر دے وہاں جیل کی انتظامیہ کتنے لوگوں کی پٹائی لگا سکتی ہے۔ لہٰذا نااہل شریف کو فوری طور پر لا کر سیل میں واپس بند کر دیا گیا۔ موصوف کی دوسری فرمائش مٹر گشت کرنے کے لیے تھی۔ جیل حکام نے یہ فرمائش بھی پوری کر دی۔ چنانچہ نواز شریف دو دن پہلے اڈیالہ جیل کے اندر واک کے لیے جا نکلے۔ قید خانے میں بھی تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں؛ چنانچہ قیدی نمبر3421 کو ہم منصب قیدیوں نے فوراً تاڑ لیا۔ اس دفعہ ایک مرتبہ پھر جیل کا نظم و نسق معذور ہو کر رہ گیا‘ جس کے نتیجے میں نواز شریف پھر اپنے سیل میں محصور کر دیے گئے۔ اڈیالہ کا راوی کہتا ہے؛ جیل انتظامیہ ایک اور وجہ سے بھی پریشان ہے۔ یہی کہ جو بھی عام قیدی اور حوالاتی اپنے اہل خانہ یا وکلا سے ملاقات کے لیے ڈیوڑھی میں آتے ہیں‘ وہ ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے پورے خلوصِ دِل سے ”رو نواز رو‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اس وقت پوری اڈیالہ جیل کی سکیورٹی ایک طرف اور چور ٹبر کو قیدیوں کے عتابی نعروں اور شتابی موڈ سے بچانے کے لیے درکار سکیورٹی دوسری طرف۔
گدھے کا ذکر جمعرات کے دن الیکشن کمیشن میں بھی ہوا‘ جہاں سے عمران خان کو نوٹس جاری ہوا تھا۔ مجھے اگلے دن محترم ہارون الرشید صاحب کا کالم پڑھ کر فرموداتِ ایازیہ الصادقیہ کا پتا چلا۔ میں نے الیکشن کمیشن کے چار رکنی بینچ کے سامنے پہلی ویڈیو یہی والی چلائی۔ اس بات سے کھلا اتفاق کیا کہ پبلک لینگویج مہذب ہونی چاہیے‘ لیکن کسی کو یہودی خان، طالبان خان، نشہ خان، لاڈلا خان، جھوٹوں کا آئی جی، الزام خان کہا جائے تو؟ ملفوظاتِ ایازیہ کو میں نے آئین کی توہین کہا۔ لیپ ٹاپ سامنے رکھ کر بتایا کہ الیکشن کمیشن کی خاتون ممبر کی موجودگی میں فیصل آباد کے دونوں لیگی ایم این ایز کی ویڈیو چلائی ہی نہیں جا سکتی۔ لائٹر نوٹ پر عرض کیا: گدھا تو استاد بھی کہہ دیتا ہے‘ جس کا مطلب جنس کی تبدیلی نہیں ہوتی‘ مگر یہ ننگی گالیاں‘ یہ گھریلو عورتوں کا ذکر۔ یہ پنجاب کے خلاف صوبائی عصبیت کا کھلا اظہار کون سی مہذب زبان ہے۔
رام شیام والی اس داستانِ محبت کو مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ شہباز اور نواز دونوں ایک پیج پر ہیں‘ یہ بھی درست۔ پنجاب کا نائب حکمران سیاسی کزن اور اُس کی لیڈی کزن بھی ایک ہی گھاٹ پر کھاتے پیتے ہیں۔ ایک سوال مگر پھر بھی بنتا ہے۔ یہی کہ جھوٹا کون ہے اور شاہ جہانی جھوٹا کون۔ جھوٹوں کا سنتری بادشاہ کون اور جھوٹوں کا آئی جی کون؟ نوسر باز کون ہے اور مظلوم کون۔ یہ مقابلہ بلا مقابلہ شہباز اینڈ سنز کے نام رہا۔
اگلے 5 دن پاکستان میں سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی لفافہ جنگ لڑی جائے گی۔ کالم میں میڈیا ٹرائل، ٹاک شو میں میڈیا ٹرائل۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، متبادل میڈیا، ٹویٹر، انسٹا گرام، فیس بُک، پم فلٹ، بینر، بلاگ‘ غرض سارے جتن کئے جا رہے ہیں۔بڑے بڑے جغادری کہہ رہے ہیں: عمران خان کی حکومت ڈیڑھ سال چلے گی۔ میں نے عمران خان کو سندھ کے دورے میں جیکب آباد جاتے ہوئے یہی بتایا۔ کہنے لگا: یہ کون سی نئی بات ہے‘ یہی لوگ کہتے تھے: اول تو شوکت خانم کینسر ہسپتال بنے گا نہیں‘ اور اگر بن بھی گیا تو چلے گا نہیں۔ ہم نے یہ ہسپتال بنایا پھر چلا کر دکھا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا اور اگر حکومت بن گئی تو چلا کر بھی دکھا دیں گے۔ جنگ زدہ کے پی کے کی مثال سے دیکھ لیں۔
انتخابی مہم سے واپسی پر آدھی رات کے بعد اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کیا۔ کوئی مجھے ملنا چاہ رہا تھا۔ فرمایا: تھری ٹریک سازش الیکشن سبوتاژ کرنے کی ہے۔ ساتھ توثیق بھی کروا دی۔ پہلے‘ نام نہاد نیا چارٹر آف ڈیموکریزی یا نیا سوشل کنٹریکٹ‘ جس کے لئے ایڈوانس ہارے ہوئے جواری اکٹھے ہیں۔ دوسرے قومی حکومت کے نام پر کرپشن بچائو نظامِ سٹیٹس کو‘ جبکہ تیسرے مشرقی اور مغربی بارڈر سے گھس بیٹھیے بھجوا کر۔ کچھ تفصیلات خاصی تشویش ناک ہیں۔
یا رب شہِ بطحا کی محبت کا صلہ دے
اس بلبلِ بستانِ زمانی کو شفا دے
یا رب تیری رحمت کے سزاوار ہیں ہم بھی
جو سنگِ گراں راہ میں حائل ہیں ہٹا دے
سرمایہ و محنت کی کشاکش کے نگر میں
شاہوں کے تبختر سے فقیروں کو لڑا دے
شاہوں کے لئے خوِن رعایا بھی روا ہے
اُمتّ کو مگر دولتِ تسلیم و رضا دے