نیب پر حکومتی برہمی کی کوئی ایک وجہ نہیں۔ اسلام آباد میں ہر باخبر کے پاس ایک نئی کہانی ہے‘ ان کہانیوں میں سے کچھ مصدّقہ ہیں‘ کچھ غیر مصدّقہ اور سنی سنائی۔ وزیر اعظم کے بعض قریبی صنعت کاروں سے تفتیش بھی ایک وجہ ہے۔ یہ حکم لگانا مشکل ہے کہ نیب سو فیصد درست ہے یا صنعت کاروں کا موقف۔ جس ملک میں اعلیٰ عدالتوں سے سزا یافتہ افراد بھی اپنا جرم قبول نہ کرتے ہوں اور درجنوں افراد کی موجودگی میں سرعام قتل کے مرتکب شاہ رخ جتوئی اورمصطفی کانجو پیشی کے موقع پر وکٹری کا نشان بنا کر مقتولوں کے ورثا اور شریف شہریوں کا مُنہ چڑاتے ہوں‘ وہاں کوئی صنعت کار و سرمایہ دار بھلا اپنے آپ کو قصور وار کیسے مانے گا؟
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے نیب کو مزید ذمہ داری کی تلقین کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ آصف علی زرداری کو دس سال جیل میں رکھ کر نیب کچھ ثابت نہ کر سکی تو میں عش عش کر اٹھا۔ ایں کار از توآید و مرداں چُنیں کنند۔ آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو اگر واقعی بے قصور تھے‘ سرے محل زرداری صاحب نے خریدا ‘نہ سوئٹزر لینڈ کے بنک میں کروڑوں ڈالر سرمایہ اور قیمتی ہار محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا تو عدالت سے بری ہونے کے بجائے فوجی ڈکٹیٹر سے مفاہمت کیوں کی؟ مقدمات واپس کرانے کے لیے این آر او کا سہارا کیوں لیا؟اور بعدازاں سرے محل کس نے بیچا‘ قیمتی ہار اور بنک میں موجود رقم کون لے گیا؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
نصیر اے شیخ پاکستان کے معروف صنعت کار تھے اور علمی و ادبی حلقوں میں معروف۔ سید سبط الحسن ضیغم مرحوم کے گھر میں ملاقات ہوتی تواکثر اس بات پر افسوس ظاہر کرتے کہ پاکستانی معاشرے میں ڈھٹائی اور بے شرمی کا کلچر فروغ پذیر ہے جس کی وجہ سے اچھے بُرے ‘ معصوم اور مجرم کا امتیاز مٹ گیا ہے۔ مثال وہ ان دنوں دو متحارب سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کی دیا کرتے کہ کرپشن‘ بے ضابطگی اور امانت میں خیانت کے الزام پر جواب یہ نہیں ملتاکہ الزام غلط ہے اور انہوں نے کبھی ان جرائم کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ کہتے ہیں کہ یہ کام صرف ہم تو نہیں کرتے ‘ہمارے مدمقابل بھی کرتے ہیں‘ قومی خزانہ صرف میں نے نہیں لوٹا دوسرا بھی لوٹ رہا ہے‘ اختیارات کا غلط استعمال فلاں فلاں نے بھی تو کیا۔
یہ کلچر اب اس قدر عام ہے کہ صرف سیاستدانوں اور سرمایہ داروں نہیں‘ دانشوروں اور صحافیوں کی محفل میں بھی کسی منتخب عوامی نمائندے‘ وزیر مشیر اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار کی کرپشن‘ نااہلی اور اقربا پروری کا ذکر چلے تو اس کی دیانت‘ اہلیت اور اُصول پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے عموماً یہ جواب ملتا ہے کہ پھر کیا ہوا؟ فلاں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی جرنیل‘جج اور بیورو کریٹ بھی تو بدعنوان ہے ‘گویا اس کی بُرائی ہمارے ممدوح کے لیے لوٹ مار کا پروانہ ہے‘ اصلاح احوال کی فکر کسی کو نہیں ۔
نیب کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی کمشن بنانے کی تجویز منظر عام پر آ چکی ہے‘ جسے موجودہ ماحول میں بدنیتی ہی قرار دیا جائیگا کیونکہ مجوزہ کمشن حکمران جماعت کے چیدہ چیدہ افراد اور پسندیدہ صنعت کاروں کو بچانے کے لیے بن رہا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کی برہمی کا سبب صرف نیب کی سطح پر ہونے والی پیش رفت نہیں‘ ان کے بعض قریبی ساتھیوں نے حسب عادت گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران جو کارنامے انجام دیے ان کی وجہ سے کئی دوسرے کھاتے بھی کھل چکے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے کے تقرر میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جا رہی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے پینل میں شامل بعض اُصول پسند افسروں کا تقرر میاں صاحب کے کچھ ساتھیوں کو پسند نہیں کیونکہ ان کی وجہ سے مفاہمتی سیاست خطرے میں پڑ سکتی ہے جو کسی کو منظور نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے دو اہم رہنما واسع جلیل اور حیدر عباس رضوی کی مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر کے تعاون سے بیرون ملک روانگی بھی بعض حلقوں کو چبھ رہی ہے اور وہ اسے کراچی آپریشن میں رکاوٹ سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ نیب اگر پنجاب کی اہم شخصیات کے علاوہ بعض سرکاری افسران پر ہاتھ ڈالتی ہے تو اندیشہ یہ ہے کہ ان کے اعترافی بیانات سے ایک ایسا پینڈورا بکس کھل جائیگا جو سیاست اور جمہوریت دونوں کے انجر پنجر ہلا سکتا ہے۔ لاہور میں ڈی ایچ اے سٹی کی طرز پر ایل ڈی اے سٹی کا منصوبہ ابھی تک ذرائع ابلاغ کا موضوع نہیں بنا‘ جہاں ساٹھ ہزار کنال اراضی خریدنے کا ٹاسک پانچ کمپنیوں کو دیا گیا تھا مگر اب تک بمشکل دس ہزار کنال اراضی خریدی جا سکی ہے جبکہ عوام سے اربوں نہیں کھربوں روپے بٹورنے کی اطلاعات ہیں۔ نیب کو اس سکینڈل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے مگر تابکے؟ عوامی سرمایہ ہضم کرنے والے بکروں کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔
ملک میں بڑے مجرموں کو کھل کھیلنے کا موقع سول اور فوجی حکومتوں کی لاپروائی’ چشم پوشی اور دوست نوازی کی وجہ سے ملا۔ کرپشن ‘دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کی ماں اس لیے ہے کہ پولیس کے ناکے سے بارود بھری گاڑی سلیمانی ٹوپی پہن کر نہیں کچھ دے دلا کر گزرتی ہے اور شہروں میں ہر طرح کے جرائم پولیس و انتظامیہ کے علاوہ بااثر افراد کی سرپرستی میں ہوتے ہیں جس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ زمینوں پر قبضہ‘ فرقہ پرست‘ دہشت گرد اور لسانی و نسلی تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع سیاسی مصلحتوں اور ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف لوٹ مار میں مشغول حکومتوں اور ان کی تابع فرمان پولیس و انتظامیہ کی وجہ سے ملا‘ لہٰذا کرپشن کی آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑے بغیر ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اورقیام امن ممکن ہے نہ اتحاد و یکجہتی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے مگر احتساب کے ذکر پر ہماری حکمران اشرافیہ کی حالت وہ ہوتی ہے جو سرخ رومال دیکھ کر بے قابو بیل کی۔ غریب‘ کمزور اور بے وسیلہ کے احتساب پر کسی کو اعتراض نہیں‘ مخالفین کے مواخذہ پر بھی نہیں البتہ اپنے کسی قریبی ساتھی‘ عزیز رشتہ دار اور سیاسی حلیف کا احتساب ناقابل قبول‘ ناممکن۔ طاقتور‘ امیر‘ جاگیردار اور لٹیرے کے لیے ہمارے مجموعۂ قوانین میں کوئی سزا درج نہیں۔ قتل اس کا مشغلہ‘ لوٹ مار شوق اور ڈاکہ زنی پیدائشی حق۔اسی امتیاز و تفریق اور بااختیار و بے اختیار کی تقسیم نے معاشرے کو جنگل بنا دیا ہے جہاں درندوں کا راج ہے اور کمزور جانور جان بچاتے پھرتے ہیں۔ طاقتوروں‘ اُمرا اور حکمرانوں کے خلاف مقدمات دس دس سال تک اس لیے چلتے ہیں کہ انہیں مقدمات کو برسوں تک التوا میں رکھنے کے ماہر وکیل دستیاب ہوتے ہیں‘ جنہیں وزارت‘ مشاورت اور سینیٹر شپ ملنے کی اُمید ہوتی ہے۔پولیس اور عدالتیں اس کے سامنے بے بس اور قانون محض موم کی ناک۔ اس کے علاوہ جان چھڑانے کے لیے امریکہ‘ سعودی عرب اور لبنان کے دوستوں کی مدد بھی میّسر۔ یہ سہولت کسی مالو مصلّی اور گامے ماجھے کو نہیں۔
ہر شخص احتساب چاہتا ہے مگر اپنا‘ اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کا نہیں‘ صرف اور صرف مخالفین اور کمزوروں کا۔ احتساب کے الگ الگ پیمانے ہیں اور الگ الگ بیانیہ‘ جس کا بھر پور فائدہ جرائم پیشہ عناصر اٹھا رہے ہیں اور ریاست غریب کی جورو بنی ہوئی ہے جو سب کی بھابھی کہلاتی ہے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جب کسی طاقتور کو اس کے جرم کی سزا نہیں ملتی تو وہ سزا پورے سماج پر تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ یہی سزا عرصۂ دراز سے بھگت رہا ہے مگر سدھرنے کو پھر بھی تیار نہیں۔ ڈھٹائی ایسی کہ ہم اپنا یا اپنے ممدوح کا دفاع یہ کہہ کرتے ہرگز نہیں شرماتے کہ یہی جرم دوسروں نے بھی تو کیا۔ یحییٰ خان‘ ایک فوجی آمر کی غلطی سے ملک ٹوٹا تو منتخب حکمرانوں کو یہ حق کیوں حاصل نہیں اور جنرل پرویز مشرف نے نیب کو اپنے چہیتوں کے مواخذے سے دور رکھاتو ہم نے اور ہمارے رفقا ء نے کیا قصور کیا ہے؟ فوجی ڈکٹیٹر اور منتخب حکمران میں تفریق کیسی؟ امتیاز کیوںکر؟
دنیا ٹی وی پر تعلیمی ادارے کے سامنے مکئی اور گندم کے دانے بھوننے والی ارشاد بی بی کی فوٹیج چل رہی تھی۔ صابر و شاکر خاتون کا کہنا تھا”بہت کما لیا اب اللہ کا گھر دیکھنے کی خواہش ہے‘‘ یہ جملہ ہم نے کسی دولت مند‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار سیاستدان‘ حکمران اور صنعت کار سے کبھی نہیں سنا۔ شکائتیں بہت‘ عدلیہ ‘ نیب‘ حکومت‘ معاشرے اور ریاست سے حتیٰ کہ شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے”ان‘‘ کو۔