منتخب کردہ کالم

کاش عمران خان یوم تفکر بھی مناتے…. کالم نازیہ مصطفیٰ

سیاست کی نبض پڑھنے والوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اپوزیشن کو پیچھے چھوڑ کر سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ عمران خان کو پھر وہیں لاکھڑا کردے گا، جہاں وہ دو سال پہلے والے دھرنے کی ناکامی کے بعد کھڑے تھے۔ توکیا یکم نومبر کو بعینہ وہی نہیں ہوا؟ اب پاناما لیکس کے معاملے پر عدالت عظمیٰ نے جو حکم دیا ہے اِس حکم کو عمران خان جتنا چاہیں اپنی مرضی کے معنی کا جامہ پہنائیں، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی کہ نئے یوٹرن سے عمران خان کی سیاست کو ناقابل تلافی دھچکا پہنچا ہے۔ عمران خان کی دھمکیوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنا لائحہ عمل پہلے سے مرتب کر رکھا تھا۔ اس لائحہ عمل کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے ساتھ پہلے قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا اور قانونی لڑائی کے ساتھ ساتھ حکومت نے سخت اقدامات کا بھی فیصلہ کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب گزشتہ دھرنوں کے دوران سرکاری عمارتوں پر حملوں کے مقدمات میں تیزی دیکھنے میں آئی تو دوسری جانب مخالفین کو رگڑا لگانے کے لئے گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ نمٹا تو عوامی تحریک کے ساتھ بھی بعینہ اِسی اندازمیں گیا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحریک قصاص ناکام ہونے کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کو اتنا نقصان نہیں ہوا،اس لیے کہ پارلیمنٹ تو کجا کسی یونین کونسل میں بھی اُن کا کوئی نمائندہ منتخب نہیں ہوسکا، لیکن پی ٹی آئی نا صرف پارلیمنٹ اور تین صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہے بلکہ کے پی کے میں اس کی حکومت بھی ہے۔ اس نئے یوٹرن سے عمران خان اور ان کی جماعت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ خبر یہ ہے کہ عمران خان نے یکم نومبر کی صبح برہان انٹرچینج سے پرویز خٹک کے قافلے کو زبردستی واپس جانے پر مجبور کیا، جس پر وزیراعلیٰ کے پی کے ناراض بھی ہوئے۔
جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کرپشن کے ناسور نے اِس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہی اِس ملک کو ترقی کی حقیقی اور اصل شاہراہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کینسر ہو جائے تو اُس کو قتل کردیا جاتا ہے یا اُس کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے؟ یقیناً سرطان کا علاج ہی کیا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح کرپشن کا کینسر بھی علاج سے ہی ختم ہوگا اور اس کے لئے مریض کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان میں سیاست کے رنگ ہی نرالے ہیں کہ اس سال اپریل میں جب پاناما لیکس سامنے آئیں تو اِن میں وزیر اعظم کے بچوں کے نام سامنے آنے پر مہم جُو عناصر کی گویا ایک بار پھر سنی گئی اور وہ لٹھ لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بہتر ہوتا کہ پاناما لیکس کے سامنے آنے پر جو ماحول بنا تھا، اس میں کرپشن کے سرطان کا باقاعدہ علاج کرنے کے لئے پاناما لیکس کی مکمل تحقیقات ہوتیں اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا، لیکن معاملے کو سلجھانے کی بجائے احتجاج اور ماردھاڑ کی
سیاست کے ذریعے پاناما لیکس کا معاملہ مزید الجھا دیا گیا۔
احتجاج کا کلہاڑا کندھے پر رکھ کر پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک مرتبہ پھر میدان میں نکل آئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک احتساب اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک قصاص شروع کردی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری تو راولپنڈی میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے دوران حالات بھانپ کر واپس کینیڈا پلٹ گئے، لیکن عمران خان پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر ڈٹ گئے۔ عمران خان نے پہلے رائیونڈ میں وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے اور گھر کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی دی اور پھر 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، اس لیے انہوں نے اپنی تحریک کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے ساتھ نتھی کر لیا۔ عمران خان پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے ٹی او آرز کے تحت کمیشن کی تشکیل کو تحریک کے خاتمے کی شرط تو قرار دیتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف گلی گلی تحریک چلانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ دوسری جانب حکومت جواب میں قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست سامنے لے آئی، جس پر پی ٹی آئی نے صرف اور صرف نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کردیا۔ اِس فہرست کی مدد سے اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی میں موجود بعض عناصر کے واویلا مچانے کی اصل ”وجہ‘‘ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ لوگ جانتے تھے کہ اگر ملک میں ٹارگٹڈ احتساب کا شور مچا کر صرف وزیراعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ نہ کیا گیا تو احتساب کا ایسا طوفان اْٹھے گا جس میں وہ سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ اِسی خوف نے اِن لوگوں کو پہلے حبس کے موسم میں بھی کہیں ٹکنے نہ دیا اور پھر جاڑا شروع ہونے کے باوجود یہ لوگ بے چین ہوکر کبھی مٹھائیاں بانٹنے کی باتیں کرنے لگے تو کبھی ہر روز حکومت کا آخری دن ہونے کا راگ الاپتے الاپتے خوابوں کی وادی میں اتر گئے، لیکن یہ لوگ بھی کیا کریں کہ قرضہ معافی کی فہرست اُنہیں خوابوں میں بھی ڈراتی ہے اور یقیناً اُس وقت تک ڈراتی رہے گی جب تک یہ معاملہ کسی کنارے نہیں لگ جاتا۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ جب تحقیققاتی کمیشن بنائے گی تو یہ معاملہ بھی ضرور کنارے لگے گا۔
قارئین کرام! عمران خان کے پاس وقت ہو تو اُنہیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا مقصد کیا تھا؟ شہر اقتدار پر ہزاروں یا لاکھوں لوگوں کو لاکر فساد فی الارض پر اکسانے کا مطلب کیا تھا؟ پہلے دھاندلی کے الزامات اور پھر پاناما لیکس کے الزامات پر درست قانونی راستے اپنانے کی بجائے انتشار اور جلائو گھیراؤ کی سیاست کے معنی کیا تھے؟ ان تمام باتوں کے ایک ہی معنی تھے کہ عمران خان ذہنی طور پر ہار چکے تھے؟ تحریک انصاف کے سربراہ اعصابی جنگ میں شکست کھاچکے تھے؟ عمران خان اِس سے لاکھ انکار کریں لیکن دو دھرنوں کے انجام سے بالخصوص یہی ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان ذہنی طور پر دباؤ میں ہیں۔ ایک سخت اعصابی جنگ نے انہیں سیاسی محاذ پر عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ پی ٹی آئی کی جذباتیت اور جنونیت کی انتہاؤں کو چھوتی سیاست (اگر یہ سیاست ہے تو) بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ عمران خان یکسوئی کی منزل کھوچکے ہیں؟ یکسوئی کی منزل کھوٹی ہوجائے تو دماغ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے اور انتشار انسان کو فساد پر آمادہ کرتا ہے؟ اور جب فساد صاف نظر آئے تو پھر دو نومبر سے پہلے یکم نومبر آجاتا ہے۔ ان ساری باتوں کو غور سے سوچنے کے لئے عمران خان 2 نومبر کو یوم تشکر کی بجائے یوم تفکر مناتے تو بہتر ہوتا۔