منتخب کردہ کالم

کاش میں تمہیں خوش رکھ سکتا!!…حسنین جمال

کاش میں تمہیں خوش رکھ سکتا!!…حسنین جمال

”کاش میں تمہیں خوش رکھ سکتا‘‘۔ چیونگم کی طرح کئی بار چبایا گیا یہ جملہ ہم میں سے ہر کسی نے کبھی نہ کبھی ضرور بولا ہو گا۔ ایک لڑکا اور لڑکی درخت کے نیچے بیٹھے ہیں، دھوپ تیز ہونے والی ہے۔ کوے درختوں پہ لڑ رہے ہیں۔ عموماً کوئی کونا پکڑے ہوئے زبردستی سنجیدہ لڑکا اصلی اداس لڑکی سے یہ ڈائیلاگ کہتا ہے۔ اب یہ ہے تو پٹی ہوئی ترکیب لیکن ہر کامیاب بریک اپ (علیحدگی) کے ابتدائی کلمات اکثر یہی ہوتے ہیں۔ آپ کے خیال میں جب ایک بندہ کہہ رہا ہے کہ کاش میں تمہیں خوش رکھ سکتا تو اس کا مطلب واقعی وہی ہے کہ وہ دوسری پارٹی کی تاحیات خوشی چاہتا ہے؟ بالکل صحیح! اصل میں وہ کہنا چاہ رہا ہوتا ہے کہ بھائی، بات سنو، میری ہو گئی ہے بس! میں نے آج تک جو کچھ بھی تمہارے لیے کیا ہے وہ تمہیں کبھی پسند نہیں آتا۔ میں جو کچھ تمہارے لیے لاتا ہوں تم اسے کسی کھاتے میں نہیں رکھتیں، تم مجھے پوری طرح پکا چکی ہو، میں تھک گیا ہوں، میرا دی اینڈ ہو گیا ہے! اس لیے اے جانِ عزیز، ہن بس کر دے، میں اب اپنا راستہ الگ کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ ساری بات کہی کیسے جائے؟ تو بس لپیٹ لپاٹ کے خوش نہ رکھ سکنے یا اسی قسم کے دوسرے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں۔
”یار… میرا کیا ہے، کچھ بھی کر لوں گا، تم بہت اچھی ہو، تمہیں مجھ سے کہیں زیادہ بہتر لڑکے مل جائیں گے۔‘‘اس لائن کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اے خاتون، اب سمجھ بھی جاؤ، سو طریقوں سے بتا دیا کہ اٹس اوور، اب میرا دماغ کہیں اور لگ گیا ہے، میں بے شک برا لڑکا نہیں ہوں لیکن تمہارے لیے بہتر لڑکے والی بات اس لیے کی کہ تم سکون سے میری جان چھوڑ دو۔ قسم بہ خدا میں تھک گیا ہوں، میں ہاتھ جوڑوں گا تو تم برا مناؤ گی لیکن واللہ میرے دلی جذبات یہی ہیں جنہیں میں نے خوبصورت پیکنگ میں ڈرتے ڈرتے پیش کیا ہے۔ ”میرا کیا ہے، کچھ بھی کر لوں گا‘‘ کا مطلب یہ سمجھ لو کہ اس وقت میرے پاس کچھ آپشنز زیر غور ہیں، کہیں نہ کہیں فٹ ہو جاؤں گا لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ادھر سے کٹ لوں گا۔ تو بھائی اب مجھے سلام کرو اس معاملے میں، کوئی طنز کرو، کوئی لڑائی کرو، اور کچھ نہیں تو ایک بار ناراض ہی ہو جاؤ لیکن بس کوئی بہانہ دو کہ میں کبھی واپس نہ آنے کے لیے بھاگ جاؤں۔
”میں تمہارے قابل نہیں ہوں‘‘ یہ اس سرزمین کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بندہ آپ کی عظمت کردار سے متاثر ہو چکا ہے یا وہ آپ کو آسمانوں میں کہیں براجمان دیکھ کے زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا یہ بات کر رہا ہے یا وہ کسی خاص کمزوری میں مبتلا ہے، نہ! ہرگز نہیں۔ اصل میں وہ کہنا چاہ رہا ہے کہ میری ساری قابلیتوں کی لٹیا چوبیس گھنٹے تم سے بات کرنے کی وجہ سے ڈوب چکی ہے، میں کسی قابل تبھی ہوں گا جب تمہارے نائٹ پیکج والے لمبے لمبے فون میری جان چھوڑیں گے۔ ویسے بھی ان ساری فون کالوں میں ” ہاں، ہوں، بالکل ٹھیک، صحیح، قسم سے‘‘ کے علاوہ میں بولتا بھی کیا ہوں؟ باتیں کرتے کرتے سوتا ہوں، تمہاری کھڑکی کے باہر کووں کے بولنے کی آواز جب ہینڈز فری میں آتی ہے تو اٹھ کے کال کاٹتا ہوں، دن اپنا ہے نہ رات اپنی ہے، چوبیس گھنٹے موبائل ٹوں ٹوں کرتا ہے، موٹر سائیکل تک ایک ہاتھ اور ایک کان سے چلانی پڑتی ہے، کل بھی اسی لانجھے میں دہی کی تھیلی پھٹ گئی۔ تمہارے نخرے پھر بھی ختم نہیں ہوتے، تو بھئی اب ستو مک گئے ہیں میرے، خدا کا نام مان بی بی، میں واقعی تمہارے کیا کسی جوگا بھی نہیں رہوں گا اگر یہ گھن چکر دو ہفتے اور چل گیا، اب تھوڑے کہے کو بہت سمجھو اور اگلا میسج نہ کرنا!
”کاش ہم ہمیشہ اکٹھے رہ سکتے‘‘ اصل میں یہاں بھی ڈھیر ساری بھڑاس ایک چھوٹے سے جملے میں نکالی گئی ہے۔ سادہ ترین اور پہلا مطلب تو یہ ہے کہ بھائی یہ لانگ ڈسٹنس والے چکر اب مجھ سے نہیں چلتے، یا تو مل لو یا نکل لو۔ بندے کو سو کام اور ہوتے ہیں، فوٹو گرافر کی دکان تھوڑی کھولے بیٹھے ہیں جو ہر دو گھنٹے بعد تازہ ترین تصویر بھجوائیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم میری کوئی بات بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہی ہو۔ میں فون پہ کچھ کہتا ہوں تم کچھ سمجھتی ہو۔ میں کسی اور موڈ میں بات کرتا ہوں تمہیں وہ بات اپنے بارے میں کوئی طعنہ لگتی ہے۔ میں اگر کسی موسم کی تعریف کر دوں تو اس موسم میں تمہیں برائی نظر آ جاتی ہے۔ اب چونکہ ہمارے اکٹھے رہنے کا دور دور تک کوئی سین ویسے بھی نظر نہیں آ رہا تو اے جانِ تمنا، میں یہی وقت کہیں اور برباد کرنا چاہوں گا، بس اتنی سی بات ہے۔
”میں غلط تھا، میں تمہیں کبھی سمجھ ہی نہیں پایا‘‘۔ شاعر یہاں کہنا یہ چاہتا ہے کہ میں ایک نمبر کا گدھا تھا جو پہلے تمہیں ٹھیک سے سمجھ نہیں سکا۔ مجھے بہت پہلے اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ تم ایک نخریلو، سڑی ہوئی اور ہر وقت ڈپریس موڈ میں رہنے والی لڑکی ہو گی۔ تم مجھ سے ایزی لوڈ کرواؤ گی اور کالیں پھر بھی میں ہی تمہیں کرتا رہوں گا۔ میری سالگرہ والے دن تمہیں نمونیا ہو جائے گا اور تمہاری سالگرہ والے دن میری دو مہینے کی تنخواہ تیل ہو جائے گی۔ تمہیں روز لانگ ڈرائیو پسند ہو گی اور میں سردی میں موٹر سائیکل پہ ککڑ بن جاؤں گا۔ تمہیں چامن، پاستہ اور سٹیک پسند ہو گا اور میں دنبے کے کڑاہی گوشت کے لیے ترستا رہوں گا۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تمہیں دنبے کے گوشت سے ”سمیل‘‘ آتی ہے اور تم وہ عجیب بدبودار جھینگے شوق سے نگل جاتی ہو تو میں آٹھ سو پینتیس بار سوچتا اور پھر بھی تمہاری طرف ٹرائے نہ مارتا۔ اور اب اتنے عرصے بعد بھی میری سمجھ دانی سڑ کے سواہ ہو چکی ہے لیکن تمہاری کوئی چیز مجھے ٹھیک سے سمجھ نہیں آ سکی۔ تمہارا موڈ ہر وقت آف ہی رہتا ہے ۔ میں ایویں رُل گیا ہوں۔ مجھے معاف کر دو، میں غلط تھا، میں تمہیں کبھی سمجھ ہی نہیں پایا۔
”یار تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے، یہ سب میرا قصور ہے‘‘۔ادھر گیم تھوڑی ٹیکنیکل ہو جاتی ہے۔ جذبات کی مار اس سے بہتر کسی جملے میں نہیں ہے۔ اب لاکھ اگلا بندہ منہ پھٹ ہو لیکن اتنی کرٹسی سب میں ہوتی ہے کہ اگر دوسرا بالکل فلیٹ ہو کے سارا مدعا اپنے گلے میں ڈال رہا ہے تو کچھ چیزیں، کچھ جھگڑوں کا بوجھ، کسی بحث کی بدمزگی اپنے ذمے لے لی جائے۔ پھر یہاں کچھ اخلاق کی مار بھی پڑ جاتی ہے۔ بقول جون ایلیا‘ ہمیں ہماری تہذیب نے مار ڈالا، تو بس وہ جو تہذیب یافتہ لوگ ہوتے ہیں یہ جملہ انہیں بلیک میل کرنے کے لیے بنا ہے۔ اگر سارا قصور اپنے گلے میں ڈالتے ہوئے آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو بھی اتار لیے جائیں تو اس سے زیادہ سُریلا کام کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ جملہ ویسے دونوں پارٹیاں استعمال کرتی ہوتی ہیں، لگی دے دا آلا حساب اے (جہاں جس کا داؤ لگ گیا والی بات ہے)۔ اس صورتحال کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ واقعی سارا قصور آپ ہی کا ہو تب بھی سامنے والا بندہ رحم کھا جاتا ہے اور اس ادا سے بچھڑنا ہوتا ہے کہ صرف رت بدلتی ہے گالیاں نہیں پڑتیں۔
دیکھو، ہم صرف اچھے دوست ہیں۔ میں نہیں چاہتا/ چاہتی کہ ہماری دوستی کبھی خراب ہو۔ یہ سب سے بڑی بکواس بات ہوتی ہے۔ ابے یا چھوڑ دو یا ساتھ ہو جاؤ بھائی دوستی کی بریکٹ میں کیوں بند کر رہے ہو؟ انسانی تاریخ میں آج تک کوئی لڑکا کبھی اچھی دوست ڈھونڈنے کے لیے باؤلا نہیں ہوا۔ اسے صرف ”سچا پیار‘‘ چاہئے ہوتا ہے جس کی تلاش میں وہ پچاس ساٹھ دروازے کھٹکھٹا کے بھی نامراد مرتا ہے۔
بات کچھ بھی نہ تھی، بات اتنی بڑھی کہ ادھر تک پہنچ گئی۔ یارو، کوئی نئے بہانے ڈھونڈ لو خدا کے واسطے۔ یہ کیسٹیں اب اتنی پرانی ہو گئی ہیں کہ ان کی ریل بھی چلتے چلتے ٹوٹ جاتی ہے۔ یا تو کوئی ایسا لُچ فرائے نہ کرو کہ بعد میں بھاگنا پڑے یا بھاگو تو کم از کم طریقے سے تو بھاگو یار۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانو اور اس میدان میں اترے ہو تو اپنا ذخیرہ الفاظ بڑھاؤ۔ نصیب اپنا اپنا۔