کاک ٹیل….ظفر اقبال
احمد مشتاق
عید سے پہلے پردیس سے احمد مشتاق کا فون آیا جس سے عید کی خوشیاں گویا دوچند ہو گئیں۔ میرے ہم عمر ہیں اور ماشاء اللہ صحت مند اور چلتے پھرتے ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ اب تو کسی دوست کو فون کرتے ہوئے دل ڈرتا ہے کہ کہیں یہ جواب نہ ملے کہ وہ تو گزر گئے! سو، ہمارا ایک نہایت عمدہ اور صاحبِ اسلوب شاعر عرصہ دراز سے امریکہ کو زیب دے رہا ہے، وہ منظر آنکھوں میں اسی طرح تازہ ہے کہ پاک ٹی ہائوس میں داخل ہوتے ہی دائیں کونے میں انتظار حسین، حنیف رامے، ناصر کاظمی اور احمد مشتاق اپنی منڈلی جمائے بیٹھے ہوا کرتے تھے۔ ایک اور صاحب بھی تھے جن کا نام یاد نہیں رہا۔ میں نے پوچھا: شمس الرحمن فاروقی آپ کا کلیات ترتیب دے رہے تھے‘ اس کا کیا ہوا تو بتایا کہ وہ کچھ زیادہ صحت مند نہیں رہتے۔ واپسی کا پوچھا تو کہنے لگے اب کہاں واپس آئوں گا۔ اس کے چند اشعار کا تحفہ قبول فرمائیں!
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں ، یہ ہوا، یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
ہوتی ہے شام، آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
رہ گیا مشتاقؔ دل میں رنجِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے، قبریں پرانی ہو گئیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
انوکھی چمک اس کی آنکھوں میں تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
چلتے چلتے جو تھکے پائوں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری، خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
دھیان ہر لحظہ ترے سایۂ در پر رکھا
آخر اس کو مری آنکھوں کی چمک لے آئی
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آیا
اس کا اب تک آخری مجموعہ ”غزل‘‘ اوراقِ خزانی کے نام سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا تھا۔
ایک بڑی کتاب
یہ چونکہ ایک بڑے آدمی کے بارے میں ہے اور سائز اور وزن کے حوالے سے بھی بڑی کتاب ہے‘ اس لیے اسے بڑی کتاب کہنا غلط نہ ہوگا اور یہ قائداعظم کے حوالے سے ضیا شاہد کی تصنیف ہے‘ جس کا عنوان ہے ”سچا اور کھرا لیڈر‘‘ کوئی ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل، آرٹ پیپر پر چھپنے والی یہ یادگار دستاویز قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت 2500 روپے رکھی ہے۔ اندرونی سرورق پر محترمہ فاطمہ جناح اور کے ایچ خورشید کی رائے قائداعظم کے بارے میں درج ہے۔ انتساب پاکستانی قوم کے نام ہے۔ سرورق پر قائداعظم کی تصویر جبکہ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور تعارف درج ہے۔ قائداعظم کی زندگی کے دلچسپ واقعات جو ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب ہر لائبریری کی زینت بننی چاہئے۔
مقامی معاملات
سٹرس پھلوں نے نصف کے قریب سائز اختیار کر لیا ہے۔ قسم قسم کی چڑیاں، کوّے ، قمریاں، لالیاں اور دیگر پرندے سبھی خیر و عافیت سے ہیں، پیڑ، پودوں اور گھاس سمیت۔ آفتاب اقبال نے (بہ سلسلۂ حفاظت) میرا گھر سے نکلنا بند کر دیا ہے اور ہر ہفتے جو چھوٹے بیٹے جنید اقبال کے پاس جایا کرتا تھا، وہ بھی موقوف ہے۔ آفتاب کے بچپن کے دوست بلکہ کلاس فیلو جاوید اسلام ان کے نئے مینجر کے طور پر تعینات اور اسی عمارت میں رہائش پذیر ، یہ آفتاب کے زیرِ تکمیل ٹی وی چینل کو بھی سپروائز کرتے ہیں۔ چینل میں تازہ ترین انٹری حضرات نجم سیٹھی اور ادریس بابرؔ کی ہے۔ ہمارے دوست اور ممتاز نظم نگار جناب اقتدار جاوید سعادتِ حج کرنے گئے ہوئے ہیں۔
آہ کلدیپ نائر
آپ نے یہ افسوسناک خبر سن ہی لی ہو گی کہ بھارت کے نامور ادیب اور کالم نگار کلدیپ نائر 95 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ آپ ہمارے اخبارات میں بھی لکھتے رہے ہیں۔ میں جن دنوں نوائے وقت میں لکھا کرتا تھا تو مجھے مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ کلدیپ نائر آئے ہوئے تھے اور آپ سے بھی ملنا چاہتے تھے تو میں نے انہیں بتایا کہ وہ تو اوکاڑہ میں ہوتے ہیں۔
ریکارڈ کی درستی
عید کے دن والے بھائی صاحب کے کالم بعنوان ”بساطِ خاک سے اٹھنا ہمارا؟‘‘ میں دو شعر درست درج نہیں ہوئے، ایک تو یہ تھا ؎
فلک سے رفتگاں نے جھُک کر دیکھا
بساطِ خاک سے اٹھنا ہمارا
اس کے مصرعۂ اوّل میں جھُک کر دیکھا کی بجائے جُھک کے دیکھا ہونا چاہئے کیونکہ بصورتِ دیگر مصرع بے وزن ہو جاتا ہے۔ اگرچہ فرق بالکل معمولی ہے اور معنی میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن شعر کو کلامِ موزوں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ وزن میں ہوتا ہے۔ دوسرا شعر ہے ؎
حاصلِ عمر نثارے رہ یارِ کر دم
شادم از زندگی، خویش کہ کارے کردم
پہلے مصرع میں لفظ ”نثارے‘‘ کی بجائے اضافت کے ساتھ یعنی ”نثارِ‘‘ ہونا چاہئے تھا کیونکہ نثارے کا مطلب ہوا ایک نثار‘ جس سے مصرع بے معنی ہو گیا۔ نیز عنوان کے آگے سوالیہ نشان بھی ضروری نہیں تھا۔
آج کا مطلع
دنیا میں اک وہی نہیں، دنیا ہے اور بھی
آنکھیں کھلی رہیں کہ تماشا ہے اور بھی