کاک ٹیل…ظفر اقبال
آصف شاہکار
سویڈن سے اگلے روز ممتاز نظم گو آصف شاہکار نے فون پر بتایا کہ پاکستان میں میرے نام ایک گھوڑی پال مربعہ ہے‘ جس کی لیز کی تجدید ہر پانچ سال کے بعد ہوتی ہے۔ میں اس سے متعلقہ تمام ریکارڈ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو بھیج چکا ہوں‘ لیکن اُن کا اصرار ہے کہ میں خود حاضر ہو کر اسے ممکن بناؤں ‘جبکہ میرے تین بائی پاس ہو چکے ہیں اور ذیابیطس/ بلڈ پریشر کا زور اس کے علاوہ ہے۔ ہر تیسرے دن میرا کوئی نہ کوئی ٹیسٹ ہوتا ہے اور میں ہرگز سفر کے قابل نہیں ہوں؛ اگر یہاں سے روانہ ہوا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ راستے ہی میں پورا ہو جاؤں‘ اس لیے ڈی سی صاحب کو کسی سے کہلوائیں کہ میری وہاں موجودگی کے اصرار سے درگزر کریں اور فائل پر مطلوبہ کارروائی کر دیں۔ میں نے آفتاب اقبال سے بات کی‘ جبکہ آصف شاہکار کا اپنا کہنا بھی یہی تھا کہ یہ کام آفتاب کے کہنے پر بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ آفتاب نے ڈی سی سے بات کر کے انہیں رضامند کر لیا ہے‘ جن کا کہنا ہے کہ اُنہیں کہیں کہ آفتاب اقبال کے حوالے سے مجھے ایس ایم ایس کر دیں تو میں ان کی طرف سے کسی اٹارنی کی حاضری ہی کو کافی سمجھ لوں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں وقتاً فوقتاً فون کر کے معلوم کرتا رہوں گا‘ لیکن کوئی فون نہیں آیا‘ جبکہ میں نے اپنے فون سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن میرے فون سے اُن کا نمبر ڈائل ہی نہیں ہوتا‘ اس لیے کالم میں لکھ رہا ہوں کہ وہ میرے کالم کے قاری بھی ہیں۔
شکیل عادل زادہ
پہلے ایک لطیفہ: مجھے پچھلے دنوں میسج کیا کہ آپ کا کالم دو دفعہ پڑھ چکا ہوں اور اپنی بیوہ کو بھی پڑھ کر سنایا ہے‘ میں نے کہا: کیا کہا! تو بولے کہ بیچاری بیوہ ہی تو ہے! میں نے اُن کے رسالے کے بارے پوچھا کہ کیا اُس کی اشاعت کا احیاء بھی زیرغور ہے یا نہیں؟تو بولے کہ اُردو کی ریڈر شپ ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے‘ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں بچے انگلش سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ اس لیے اُردو زبان سے انہیں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے‘ اسی لیے شاعری بھی چھوٹے شہروں ہی میں ہو رہی ہے۔
مکالمہ
مبین مرزا کے جریدے ”مکالمہ‘‘ کے چار شمارے موصول ہو چکے ہیں‘ پہلے دو‘ جن میں مجلد سالنامہ شامل تھا‘ ایک صاحب پڑھنے کے لیے لے گئے۔ اب خدا خدا کر کے ان سے واپسی ہوئی ہے‘ جن کا تذکرہ جلد ہی کیا جائے گا۔ شمارہ 37 میں پروفیسر سحر انصاری کی تین تازہ غزلوں کے ساتھ سؤرگ باشی بھارتی اداکارہ سری دیوی پر اُن کی یہ خوبصورت نظم بھی شائع ہوئی ہے:
سری دیوی
زیست اور مرگ کے بارے میں بہت سوچا ہے/ پھر بھی طے ہو نہ سکی آخری بات/ میل ہا میل کی وسعت میں یہ تکوین کا کھیل/ کہیں رکتا ہی نہیں/ لا کھ سیارے بس اک لمحے میں/ خلق ہوتے ہیں فنا ہوتے ہیں/ جب کبھی حسنِ مجسم کوئی/ اُفقِ زیست پر چھا جاتا ہے/ اور پھر رزقِ اجل بن کے اندھیرے میں سما جاتا ہے/ تو وہی ایک سوال/ ذہن میں ناگ پھنی بن کے ابھر آتا ہے / زیست کا کام ہے کیا/ حُسن کا انجام ہے کیا / اک طرف آج بھی انساں کے بنائے اہرام/ لاکھوں صدیوں سے‘ اسی طرح سے استادہ ہیں/ ان کے فن کاروں کا معماروں کا/ نقشِ موہوم بھی اب/ صفحۂ زیست پہ موجود نہیں
تیرا چہرہ/ تیری قامت ترا رنگ/ رقص کرتے تھے سدا قوسِ قزح کی صورت/ شرق اور غرب میں آباد تھی پوری دنیا/ تیرے نادیدہ پرستاروں کی/ اور تیرا وہی انجام ہوا/ جو ہوا کرتا ہے تخلیق کے شہ کاروں کا/ ایک دُلہن کی طرح تیری سجائی ہوئی لاش/ آخری آگ کے شعلوں میں بھی رقصندہ رہی/ ہو گیا راکھ ترا جسم ِ حسیں/ راکھ بھی وہ جو سمندر میں بہا دی جائے۔
اب لگے ہاتھوں اُن کی غزلوں میں سے یہ اشعار بھی:
کسی سوچی ہوئی تدبیر پہ رکھا ہوا ہے
اُس نے ہر فیصلہ تاخیر پہ رکھا ہوا ہے
بات کرتا ہے محبت کی نئے لفظوں میں
اور اک ہاتھ بھی شمشیر پہ رکھا ہوا ہے
کھوکھلی رکھی ہے بنیاد بڑے فخرکے ساتھ
اور الزام بھی تعمیر پہ رکھا ہوا ہے
کشتی کے ڈوب جانے سے اٹھا ہے یہ سوال
ساحل سے کتنی پاس تھی طوفاں سے کتنی دُور
پوچھا کسی نے ایسے اسیروں کا حال بھی
زنداں میں رہ رہے ہیں جو زنداں سے کتنی دُور
شاید کسی کی بزم میں یہ تذکرہ بھی آئے
ہم زیست کر گئے سروساماں سے کتنی دُور
اور اب اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ اگر پروفیسر سحر انصاری مری ہوئی سری دیوی پر نظم لکھ سکتے ہیںتو میں زندہ کترینہ کیف پرغزل کیوں نہ لکھوں؟
شاخ تراشی
مالی نے گلاب کی جھاڑیوں کی شاخ تراشی کر دی ہے۔ پچھلے سال اُس نے سِٹرس کے پودوں کی شاخ تراش کی تھی‘ جس سے اس بار اُن پر بھر کے پھل آیا ہے۔ کاش! ایسا بھی ہو سکتا کہ انسانوں کی بھی شاخ تراشی ہو سکتی اور ان کی جگہ نئے بازو اور ٹانگیں نکل آیا کرتیں‘ جس سے یہ کم بخت بڑھاپا چند برسوں کے لئے ٹل سکتا!
بیمار کا حال اچھا ہے
فہمیدہ ریاض کی صورت حال اب کافی بہتر ہے۔ اس طرح سلیم کوثر بھی آپریشن کے بعد روبصحت ہیں۔ خالدہ حسین اور انور سجاد کے بارے تازہ ترین اطلاع سے بے خبر ہوں۔ خدا کرے‘ وہ بھی صحت یاب ہو چکے ہوں یا ہو رہے ہوں!
آج کا مطلع
قافیے کی بند گلیوں کا گدا گر کر دیا
اُس نے کیسے کام پر مجھ کو مقرر کر دیا