منتخب کردہ کالم

بھوٹان میں‌ قتل کا ایک واقعہ ………حسنین جمال

بھوٹان میں‌ قتل کا ایک واقعہ ………حسنین جمال

بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں ایک چھوٹا سا سکول ہے ۔ وہاں بہت سے بچے دسویں جماعت تک پڑھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین انہیں سکول بھیج کر بے غم ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کا لاڈلا جب وہاں سے نکلے گا تو ایک باعزت زندگی گزارنے کا ابتدائی سبق لے چکا ہو گا۔ بھوٹان کا سرکاری مذہب بدھ ازم ہے ۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات کے مطابق بدھسٹ بڑے امن پسند لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں وہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کا عقیدہ بھلائی اور محبت کا پرچار کرتا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں تو کیڑے مکوڑے مارنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ سچے دل سے اپنے عقیدے کو فالو کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی ان کی راہ نجات ہے ۔ ہوا یوں کہ اگست کے آخری ہفتے میں ایک مسلمان لڑکے نے ادھر داخلہ لے لیا۔ ابھی اپنے سکول میں اس کا پہلا دن ہی تھا کہ ایک استاد نے اسے کلاس سے باہر نکال دیا۔ اسے کہا گیا کہ چوہڑے تمہارا یونیفارم پورا نہیں ہے (وہاں چونکہ چھوٹی موٹی صفائی کی نوکریاں وہی لوگ کرتے ہیں اس لیے انہیں چوہڑا کہا جاتا ہے ۔) وہ بے چارہ سر جھکائے گھر چلا گیا۔ ماں کو سارا قصہ سنایا، ساری رات ماں روتی رہی اور لڑکا اپنے غم کا ہار ماں کے گلے میں ڈال کر نچنت سو گیا۔ صبح وہ بہت لیٹ اٹھا، ماں نے اسے جان بوجھ کر نہیں اٹھایا تھا۔ اوکھے سوکھے ہو کر اگلا پورا دن انہوں نے یونیفارم کے باقی لوازمات پورے کرنے میں گزار دیا۔ وہ اب بہت خوش تھا، اس کی ماں بھی سہانے خواب دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں سکول جانے کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی ختم کر چکے تھے ۔
اگلے دن صبح سویرے سولہ سترہ برس کا نوجوان پوری نک سک سے تیار ہوا اور خوشی خوشی سکول چلا گیا۔ بھوٹان میں ایک مسئلہ بہت زیادہ ہے ۔ وہاں چھوت چھات کا رواج اب بھی موجود ہے ۔ بھوٹانی ماں باپ اپنے بچوں کو دوسرے عقائد رکھنے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ باقی تو سب خیر ہے اگر کسی مسلمان سے ملنا پڑ جائے تو پورا ہاتھ بھی نہیں ملانا، بس دو انگلیوں سے مصافحہ کرنا ہے اور ان سے زیادہ بات چیت نہیں کرنی، وہ ناپاک لوگ ہیں، کیوں ہیں؟ اس بارے میں بچے کچھ زیادہ نہیں جانتے ۔ اصل میں یہ نظریہ روائتی طور پر ان کے باپ دادا کے زمانے سے وہاں چلا آ رہا ہے ۔ دو تین نسلوں بعد اس سارے معاملے میں اتنی شدت آ چکی ہے کہ اب وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر کھانے پینے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ کبھی بہت زیادہ وختا پڑ جائے تو انہیں الگ برتنوں میں کھانا پیش کر دیتے ہیں، میلے پلاسٹک یا سٹیل کے برتن ہر قابل عزت بھوٹانی اپنے گھر میں رکھتا ہے تاکہ مسلمانوں کی سیوا کر سکے ۔
تو وہ جوان نئی یونیفارم ڈٹ کے سکول پہنچا اور خوشی خوشی استاد کا انتظار کرنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ اب اسے کوئی بھی کلاس سے باہر نہیں نکال سکتا۔ بیٹھے بیٹھے اسے تھوڑی پیاس محسوس ہوئی۔ وہ اٹھا اور پانی پینے کے لیے کولر کے پاس گیا۔ ٹھنڈا پانی تھا، دیکھ کر ویسے ہی طبیعت خوش ہو گئی، ایک دو گلاس وہیں کھڑے کھڑے پی لیے اور آرام سے واپس آ کر اپنی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ پیاسے کو پانی پلانے والے معاملے کی چونکہ ویسے بھی اس کے عقیدے میں فضیلت تھی اس لیے وہ ہمیشہ دوسروں کو پانی پلانے میں بھی آگے آگے رہتا تھا۔ ابھی وہ سیٹ پر آ کے بیٹھا ہی تھا کہ اس کا ہم جماعت ایک بدھسٹ لڑکا اس کے سر پہ آ کر کے کھڑا ہو گیا۔
لڑکے نے اس سے پوچھا کہ تم ابھی پانی پی کر آئے ہو؟ اس نے کہا ہاں، پیا ہے ۔ بدھسٹ نے پوچھا گلاس کون سا تھا، کہنے لگا وہی جو وہیں پڑا تھا۔ بس یہ پیاس اس بچے کی آخری پیاس تھی اور یہ جملہ اس معصوم کا آخری جملہ تھا۔ اس کے بعد کلاس میں موجود ساٹھ ستر بدھ طالب علموں نے اسے اتنے برے طریقے سے مارا کہ وہ غریب بچ نہیں سکا۔ کچھ اچھے بدھسٹ بچے بھی وہاں موجود تھے ، وہ اسے ہسپتال لے گئے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ ہسپتال والوں نے اس مسلمان بچے کو ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ ایشو کر دیا۔ بھوٹانی اقلیتی فرقے کی ماں نے اپنے بچے کو نئی یونیفارم نہیں کفن خرید کر دیا تھا سو اس میں وہ اپنے گھر واپس آ گیا۔ بھوٹان کے میڈیا نے اس قتل کی خبر شائع کی تو معلوم ہوا کہ سکول میں آس پاس کوئی استاد موجود نہیں تھا۔ شاید وہ کئی مربعوں میں پھیلا ہوا سکول ہو گا ورنہ عام طور پر تو چوکیدار، ہیلپر، استاد، دوسری کلاسوں کے بچے ، سب کے سب ٹوہ لینے کے لیے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہو اور پرنسپل تک بات پہنچائیں۔ ایک استاد نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت اخبار پڑھ رہے تھے ۔ شاید بھوٹان میں اخبار پڑھتے ہوئے لوگ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کے سروں پر بم بھی گرائے جائیں تو انہیں پتہ نہیں چلتا۔ سکول انتظامیہ ویسے بھی اپنے نامعلوم کاموں میں اس قدر مصروف تھی کہ بدنصیب لڑکا جب مر گیا تو ایک گھنٹے بعد وہ لوگ وہاں جا سکے اور اس کی موت کی خبر لے کر آئے ۔
ہے نا عجیب سا واقعہ؟ بھوٹان میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ بدھ لوگ برما میں جو مرضی کرتے پھریں لیکن بھوٹان کے بارے میں تو ایسی خبر کبھی نہیں آئی۔ خدا نہ کرے ایسی خبریں دنیا کے کسی ملک سے بھی آئیں۔ یہ پاکستان تھا۔ یہ بورے والا ہے ۔ یہ وہاں کا گورنمنٹ سکول ہے ۔ چوہڑے کا کردار حسب سابق اس کہانی میں شیرون مسیح نے ادا کیا اور باقی ہم جماعت اور سکول والے ہمارے ہم وطن تھے ۔
ایک مقبول عام بیانیہ یہ ہے کہ نفرتوں کے جو بیج ہم نے ضیا دور میں بوئے تھے اب انہی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ۔ ہم آج بھی اپنے نصاب کی صورت وہی بیج بوئے جا رہے ہیں، اسی فصل کو پانی لگا رہے ہیں اور ہر ماہ تازہ وصولی مشال خان یا شیرون مسیح کی شکل میں ہاتھ آتی ہے ۔ ابھی تک مشال والے کیس میں بھی انصاف آج تک ہوا میں لٹک رہا ہے ۔ خیبر پختونخواہ کا حکومتی ٹولہ وعدہ کرنے کے باوجود اب تک کوئی وکیل اس جواں مرگ کی حمایت کے لیے نہیں تیار کر سکا۔ 13 اپریل (مشال کے یوم قتل) سے لے کر آج تک اس کی بہنیں پڑھنے نہیں جا سکیں، مقدمے کی کارروائی میں جے آئی ٹی رپورٹ کی شمولیت ابھی کنفرم نہیں ہوئی، خیبر پختونخوا میں کوئی حکومت اگر ہے تو کہاں ہے ؟ آخری اطلاعات کے مطابق شیرون مسیح کیس کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق کلاس ٹیچر اور ہیڈ ما سٹر سمیت پا نچ اساتذہ کو معطل کر دیا گیا ہے ‘ اسا تذہ کے خلاف انکو ائر ی شر وع کر دی گئی ہے اور انتظامیہ کے مطابق واقعہ میں جس کی بھی غفلت پا ئی گئی اس کے خلاف سخت کا رروائی عمل میں لا ئی جا ئے گی ۔
تاہم ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قسم کے واقعات میں کوئی بے چینی محسوس کرتے ہیں؟ چونکہ نہیں کرتے اس لیے یہ سب ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک ایسی خبروں کو مثال بنا کر گھر میں بچوں کو ایسے واقعات سے نفرت نہیں دلائی جائے گی تب تک یہ سب کچھ ایسے ہی چلے گا!

ایک مقبول عام بیانیہ یہ ہے کہ نفرتوں کے جو بیج ہم نے ضیا دور میں بوئے تھے اب انہی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ۔ ہم آج بھی اپنے نصاب کی صورت وہی بیج بوئے جا رہے ہیں، اسی فصل کو پانی لگا رہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قسم کے واقعات میں کوئی بے چینی محسوس کرتے ہیں؟ چونکہ نہیں کرتے اس لیے یہ سب ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک ایسی خبروں کو مثال بنا کر گھر میں بچوں کو ایسے واقعات سے نفرت نہیں دلائی جائے گی تب تک یہ سب کچھ ایسے ہی چلے گا!