کتابوں کی دنیا….ڈاکٹر لبنٰی ظہیر
ـکتابوں کی دنیا سلامت رہے نیشنل بک فائونڈیشن کا ترانہ ہے جو اب قومی سطح پر معروف ہو چکا ہے۔ عام طور پر سمجھا جا رہا ہے کہ کتاب کی دنیا ویران ہو رہی ہے۔ مطالعہ کا رجحان مسلسل کم ہو رہا ہے۔ لائبریریاں بے رونق ہو رہی ہیں۔ کتابوں کا کاروبار کرنے والے اشاعتی ادارے خسارےکا شکار ہیں۔ ان باتوں میں یقیناََ کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔ واقعی مطالعے کا ذوق و شوق بظاہر کم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ کتابوں کی دنیا اتنی بھی ویران نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے۔ کم از کم اسلام آباد میں منعقدہ نیشنل بک فائونڈیشن کے چار روزہ قومی کتاب میلے سے تو یہی تاثر ملا کہ کتاب پوری قوت کیساتھ موجود ہے۔ چھپ رہی ہے، بک رہی ہے۔ خریدی جا رہی ہے اور پڑھی جا رہی ہے۔ادیبوں اور اخبارات کے ذریعے ایسی خبریں ملتی رہتی تھیں کہ دو سال پہلے بنائے گئے ایک نئے حکومتی ڈویژن یعنی قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے وجود میں آنے سے وہ تمام علمی، ادبی اور ثقافتی ادارے فعال اور متحرک ہو گئے ہیں۔ معروف دانشور اور کالم نگار عرفان صدیقی کو اس نئے ڈویژن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یقیناََ یہ انکے اپنے ذوق، دلچسپی اور لگن کا نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں نیشنل بک فائونڈیشن، اکادمی ادبیات، ادارہ فروغ قومی زبان، اقبال اکیڈمی، اردو
سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، قائد اعظم اکیڈمی، میوزیم اینڈ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ، قائد اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ اور ایوان اقبال جیسے اداروں میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
قومی کتاب میلے کی یہ روایت کوئی آٹھ سال پہلے قائم ہوئی لیکن اسکی اٹھان کا سفر 2016 میں ساتویں کتاب میلے سے شروع ہوا۔ آٹھواں کتاب میلہ اسلام آباد جیسے شہر میں زبردست ہلچل پیدا کر گیا۔ اور 6 آپریل کو منعقد ہو نے والا نواںکتاب میلہ ایسی نئی بلندیوں کو چھو گیا جنہیں برقرار رکھنا شاید نیشنل بک فائونڈیشن اور ادبی ورثہ کی وزارت کیلئے بھی آسان نہ ہو۔ صدر ممنون حسین نے میلے کا با ضابطہ افتتاح کرتے ہوئے “یوم یکجہتی کشمیر” کے حوالے سے کہا کہ اہل قلم کو مقبوضہ کشمیر کے محکوم عوام کیلئے موثر ادب تخلیق کرنا چاہیے۔ انہوں نے کتاب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو معاشرے کتاب سے دور ہو جاتے ہیں، وہ محبت، بھائی چارے اور ہمدردی جیسے اعلیٰ انسانی جذبوں سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر اور قومی تاریخ و ادبی ورثہ کیلئے وفاقی وزیر عرفان صدیقی صاحب نے اس تاثر کی نفی کی کہ کتاب نہیں پڑھی جا رہی۔ انہوں نے کتاب میلے میں شریک اور تقریب افتتاح میں موجود ایک پبلشر کے حوالے سے بتایاکہ وہ سال میں 360 کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ یعنی ہر روز ایک کتاب۔ ظاہر ہے کہ انکی شائع شدہ کتابیں فروخت بھی ہو رہی ہونگی، ورنہ خسارے کا سودا کون کرتا ہے۔ بتایا گیا کہ میلے میں کتابوں کے ایک سو تیس اسٹال لگائے گئے ۔ لوگوں کی بھیڑ، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد، دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ واقعی کوئی میلہ ہے شاید ہی کوئی اسٹال ایسا ہو جہاں بے پناہ رش نہ ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص نظر آئے جسکے دونوں ہاتھوں میں کتابوں سے بھرے بڑے بڑے شاپنگ بیگز نہ ہوں۔ کتابوں کی خرید و فروخت کیساتھ ساتھ مختلف کمروں میں کتابوں کی تقاریب رونمائی، مباحثے، مذاکرے، سیمینار اور دیگر علمی و ادبی پروگرام بھی جاری تھے۔
میلے کے اختتام پر جاری ہونے والے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ چار دنوں میں اسلام آبادکے ساڑھے تین لاکھ سے زائد شہری یہ کتاب میلہ دیکھنے آئے۔دو کروڑ روپے مالیت سے زیادہ کی کتب فروخت ہوئیں۔ یاد رہے کہ یہ رعایتی قیمت کا تخمینہ ہے۔ اصل قیمت کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر پبلشرز اپنی کتابوں پر پچاس فیصد سے زیادہ رعایت دے رہے تھے۔ سب سے زیادہ دلکش بات یہ تھی کہ لوگوں کے چہروں پر خوشی اور آسودگی کا رنگ تھا۔ کتابوں میں گھری اس بستی میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی موجودگی سے ایک نئے پاکستان کا چہرہ ابھر رہا تھا۔ اس بار پہلی مرتبہ تین دوست ممالک چین ، ترکی اور ایران نے بھی اپنے اسٹالز لگائے۔ ان تینوں ممالک کے سفیران کرام کے علاوہ درجنوں غیر ملکی سفارتکار کتاب میلہ دیکھنے آئے۔ بلا شبہ اب یہ کتاب میلہ اسلام آباد کا ایک بڑا تہوار بن چکا ہے۔ کاش پاکستان اسی طرح کے تہواروں سے جانا اور پہچانا جائے۔
کتابوں کا تذکرہ چلا ہے تو دونئی شاندار کتابوں کا ذکر بھی ہو جائے۔ ایک کتاب کا نام ہے “جو بچھڑ گئے”۔یہ عرفان صدیقی صاحب کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جو دنیا سے رخصت ہو جانے والی معروف شخصیات پر لکھے گئے۔ یہ تمام کالم” نقش خیال” کے عنوان تلے روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کالموں کی ادبی چاشنی نے، انہیں کالم سے کہیںزیادہ “ادب پارہ “بنا دیا ہے۔ بلاشبہ یہ بہت سا وقت گزر جانے کے باوجود زندہ کالم ہیں۔ بعض کالم پڑھنے سے تو دل و جاں میں ایک ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال کی ایک رباعی” توغنی ازہر دو عالم ۔۔۔”کے حوالے سے ڈیرہ غازی خان کے انگلش ٹیچر، رمضان عطائی کے بارے میں لکھا گیا کالم بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اس مجموعے میں محترمہ بینظیر بھٹو، قاضی حسین احمد، نواب زادہ نصراللہ خان، میاں طفیل محمد، نواب اکبر بگٹی، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا نعیم صدیقی، ڈاکٹر اسرار احمد، میاں محمد شریف، اشفاق احمد،ارشاد احمد حقانی، احمد فراز اور عباس اطہر جیسی معروف شخصیات پر لکھے گئے کالم شامل ہیں۔ اپنی والدہ کی وفات پر لکھا گیا کالم پڑھنے سے شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو پرنم نہ ہو جاتی ہو۔
دوسری کتاب معروف دانشور، صحافی اور کالم نگار جناب الطاف حسن قریشی کی ہے۔ ـ”جنگ ستمبر کی یادیں “نامی اس کتاب میں 1965 کی پاک بھارت جنگ کی ولولہ آفریں یادوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ یہ تحریریں ہیں جو جنگ کے دوران یا فورا بعد لکھی گئیں۔ مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں کی یہ کہانیاں ہماری دفاعی تاریخ کا ایسا سرمایہ ہیں جنہیں ہر دور میں پڑھا جاتا رہے گا۔ ایسی یادیں زندہ رہنی چاہئیں۔ قوموں کی زندگی اسی طرح کی داستانوں سے عبارت ہوتی ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب کی تحریروں میں ایسی ڈرامائی کشش پائی جاتی ہے کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس معرکہ حق و باطل کا ایک کردار سمجھنے لگتا ہے۔ ان تحریروں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دفاع وطن کے اس امتحان میں پوری قوم کس طرح اپنے جانبازوں کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ قریشی صاحب نے بہت اچھا کیا کہ اپنی ان تحریروں کو کتابی شکل دے دی۔ بلاشبہ کتاب زندہ ہے۔لکھی جا رہی ہے۔ پڑھی جا رہی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ قاری کیلئے دلچسپ اور پر کشش مواد اور دل پذیر اسلوب رکھتی ہو۔