کتاب سے محبت پھیلانے والے ملک مقبول صاحب نہ تھے مگر ان کا تذکرہ بہت تھا۔ افتخار مجاز نے ساری میٹنگ سنبھالے رکھی۔ یہ محفل برسوں سے برادرم اسداللہ غالب کرتے ہیں۔ آج تو محفل خاص ہو گئی تھی۔ آج کتاب کے لئے بات ہوئی۔ مہمان خصوصی مقبول اکیڈمی والے ملک مقبول احمد تھے مگر نہ آ سکے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ ساری محفل میں دوست انہیں یاد کرتے رہے۔ ان کی کمی محسوس ہوئی۔ کتاب سے ان کا رشتہ دل کا رشتہ ہے۔
انہوں نے کتاب کی اشاعت اور ترویج میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں علامہ عبدالستار عاصم موجود تھے۔ جن کا پیار ان کے ساتھ بہت ہے۔ افتخار مجاز جو محفل کے مرکزی کردار تھے۔ وہ مقبول صاحب کا بہت ذکر کرتے رہے۔ میں بھی ان سے بہت محبت کرتا ہوں۔ ہر شخص ان کا معترف تھا۔ وہ کتاب کلچر کو فروغ دینے والے پہلے آدمیوں میں سے ہیں۔
لگتا تھا کہ علامہ عبدالستار عاصم ملک مقبول صاحب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ افتخار اور علامہ صاحب ملک صاحب سے مل کر آ رہے تھے۔ ساری محفل میں آخر تک ملک صاحب کی محبت اور کتاب کے ساتھ ان کی محبت آنکھوں میں چمکتی رہی۔ وہ بہت دل والے انسان ہیں۔ آج کی محفل انہی کے لیے سجائی گئی تھی۔ مگر وہ نہ آ سکے۔ وہ نہ تھے مگر لگتا تھا کہ وہ ہیں بلکہ بہت ہیں۔ ہر کسی نے کتاب سے اپنی محبت کو مقبول صاحب کی محبت سے ملا کر بیان کیا۔ اسداللہ غالب بھی کہہ رہے تھے کہ آج کی محفل بہت یادگار ہے۔ اس محفل کو یادگار مقبول صاحب کے تذکرے نے بنا دیا۔ مقبول صاحب واقعی لفظ و معانی کے شہر میں ایک مقبول شخص ہیں۔
مجھے کتابیں اور کتابی چہرے اچھے لگتے ہیں۔ میں تب سے مقبول صاحب کے ساتھ محبت کرتا ہوں کہ ان سے ابھی ملا نہیں تھا۔
کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں رہنا چاہیے۔ پھر ہم بے گھری کا شکار کیوں ہیں؟ آج کی محفل بہت دلچسپ تھی۔ یہاں ’’راوی‘‘ کے تین ایڈیٹر موجود تھے۔ اسداللہ غالب وحید رضا بھٹی اور محمد اجمل نیازی۔ گورنمنٹ کالج کا میگزین ’’راوی‘‘ عالمی شہرت کا میگزین ہے۔ میری مراد گورنمنٹ کالج لاہور ہے۔ جی سی یونیورسٹی لاہور نہیں ہے۔
افتخار مجاز کے ساتھ علامہ عبدالستار عاصم بیٹھے تھے وہ جہاں بھی جس کے ساتھ بیٹھے ہوں اس کا حوصلہ بڑھا دیتے ہیں۔ وہ کتاب کے ساتھ بہت دوستی رکھتے ہیں۔ لیہ کے ایک نوجوان غلام ساجد نے علامہ صاحب کے ڈرائنگ روم کا نقشہ بیان کیا کہ ہم نے کچھ کتابیں ادھرادھر کر کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔ ہر طرف کتابیں پڑی تھیں کچھ کتابیں سو رہی تھیں۔ مجھ سے غالب بھائی نے پوچھا کہ کتابیں سوتے ہوئے خواب بھی دیکھتی ہوں گی۔ میں نے کہا کہ جو کتابیں عاصم صاحب کے گھر چلی جاتی ہیں وہ خواب بھی دیکھتی ہیں۔
افتخار مجاز باغ و بہار آدمی ہیں وہ بات کرتے ہیں اور کھلکھلاہٹیں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔ ایک خاص طرح کی مزاحیہ حس نامور شاعر اور محفل آرا دوست اعزاز احمد آزر میں تھی ۔ اس کا چھوٹا بھائی افتخار مجاز ایسا شخص ہے کہ جہاں ہو وہ محفل سج جاتی ہے ۔
آج کی محفل خود بخود افتخار مجاز کی جھولی میں جا گری اور پھر محفل اس طرح آباد ہوئی کہ پورا ماحول سرشار ہو گیا ۔ علامہ عبدالستار عاصم نے کتاب کے حوالے سے جو گفتگو کی وہ ناقابل فراموش ہے ۔ محفل میں موجود سب دوستوں نے کتاب کے ساتھ اپنے سارے رشتوں کو آج منکشف کر دیا ۔ محفل میں کوئی خاتون نہ تھی اور کتاب مؤنث ہے دنیا میں زیادہ خوبصورت دلچسپ اور مزیدار چیزیں مؤنث ہیں ۔ یہ چیزبھی مؤنث ہے ۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کتاب دوستی کے فروغ کے لئے بہت زور دیتے ہیں ۔ انہوں نے علمی ماحول کو سازگار بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ علم کے ساتھ دوستی کے بغیر زندگی اجنبی رہتی ہے ۔ میرے لئے تو کتاب محبوبہ ہے ۔ ہر وہ خاتون محبت کے قابل ہے جس کے ہاتھ میں کتابیں ہوں۔
یہ بات بھی ہوئی کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر آنے کے بعد کتاب سے تعلق ماند پڑ گیا ہے ۔ جہاں سے ٹیکنالوجی آئی ہے وہاں ہر شخص کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے ۔ بس میں سفر کے دوران کھڑے کھڑے بھی لوگ کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ وہاں لاکھوں کی تعداد میں کتاب شائع ہوتی ہے ۔ پبلشرز ہیں ۔ ان کا کاروبار بھی ہے تو یہ بات بے معنی ہے کہ کتاب کے ساتھ رابطہ ختم ہو گیا ہے ۔ مگر یہ بات تو ہمارے معاشرے میں بہر حال ہے کہ لوگ کتاب سے دور ہو گئے ہیں جس معاشرے میں کتاب اور خواب سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے وہ ماحول رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔
ہمارے تعلیمی ماحول میں کتاب کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے مگر علامہ عبدالستار عاصم نے طے کیا ہے کہ کتاب کا زمانہ واپس لائیں گے ۔ وہ دوستوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں اور خود بھی تالیف و تصنیف کا کام کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک کتاب سیرت رسولﷺ کے حوالے سے علامہ صاحب نے تالیف کی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ ایک انسائیکلو پیڈیا مکتوبات رحمتہ العالمینؐ شائع کیا گیا ۔ جو ایک نادر کتاب ہے ۔ اس کتاب نے پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے ۔ کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ ہم علامہ عاصم صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے ۔ ان کا فون نمبر 0323-4393422 ہے ۔ ایک کتاب قائد اعظم کے حوالے سے ہے ’’ جہان قائد ‘‘ اس میں قائد اعظم کے حوالے سے تمام ریفرنس جمع کر دیئے گئے ہیں ۔ مجید نظامی کے حوالے سے بھی ایک ایسی کتاب ہے جو بے مثال ہے ۔ ایک کتاب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے شاہد رشید نے بھی شائع کی ہے ۔ خیر قبیلہ کے نام سے پاکستانی میڈیا کے لئے ایک مکمل کتاب ہے جس میں مجید نظامی ، مجیب الرحمن شامی اور میڈیا کے دوسرے لوگوں کے انٹرویوز ہیں ۔ بڑا اعزاز ہے کہ اس کتاب میں میرا انٹرویو بھی شامل ہے۔
دراصل مقبول اکیڈمی کے ملک مقبول احمد کے ساتھ مل کر یہ معرکہ آرائی سر انجام دی گئی ہے ۔ کتاب پر گفتگو کے دوران خاص طور پر ملک مقبول احمد اور علامہ عبدالستار عاصم کا ذکر کیا گیا کہ اس کے بغیر گفتگو مکمل نہ ہوتی تھی ۔ جمیل احمد سلیمی صاحب بھی میرے گھر آئے تھے ان کی کھری کھری باتیں دل میں اتر گئیں ، آخر میں افتخار مجاز نے ایک شعر پڑھا اور محفل کا خلاصہ بیان کر دیا۔
لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا ہے میرے شہر کے لوگوں نے
الماری میں بند پڑے ہیں کاغذ قلم کتاب