منتخب کردہ کالم

کراچی بمقابلہ لاہور … الیاس شاکر

کراچی بمقابلہ لاہور … الیاس شاکر

”کراچی تباہ ہو رہا ہے اور لاہور ترقی کر رہا ہے‘‘۔ یہ جملہ میئر کراچی وسیم اختر نے ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کیا کراچی میں ترقی ہو رہی ہے؟ کیا کراچی کے برساتی نالے کچرے سے صاف ہو چکے ہیں؟ کیا کراچی میں پانی کی منصفانہ تقسیم کی جا رہی ہے؟ دنیا بھر میں آئوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کی اجازت اور کراچی میں اس پر پابندی کیوں ہے؟ کیا کراچی میں خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں ؟ کیا کراچی کے 90 فیصد شہریوں کو پینے کے لئے غلیظ پانی فراہم نہیں کیا جا رہا؟ کیا کراچی کے 52 فیصد رقبے پر کچی آبادیاں قائم نہیں ہیں؟ کیا سندھ ریونیو بورڈ کراچی اور اندرون سندھ کے لئے الگ الگ ٹیکس نہیں لگا رہا؟ کیا کراچی میں بیس لاکھ گھروں کی کمی نہیں؟ کیا وسیم اختر نے کچھ غلط کہا؟
کراچی اور لاہور کا تقابل کیا جائے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ لاہور ایک طرف ہے اور پورا پنجاب دوسری طرف… تعلیم ہو صحت یا پھر ترقی… صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہر مل کر بھی لاہورکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لاہور بے مثال ترقی میں کمال پر پہنچ گیا ہے۔ بڑے بڑے پلان بنائے گئے… ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ ٹرانسپورٹ اور کھیل کے میدان ترقی کی داستان سنا رہے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق پنجاب کی آبادی دس کروڑ اور لاہور کی ایک کروڑ ہے۔ لاہور کا بجٹ ساڑھے چھ کھرب جبکہ باقی صوبے کے لئے صرف ڈھائی کھرب رکھے گئے ہیں۔ اب لاہور ترقی نہ کرے تو کیا کراچی ترقی کرے گا؟ کراچی میں تو سڑکیں بھی ایسی بنائی جاتی ہیں کہ سالوں تو دور مہینوں میں ہی ان کا ”دم خم‘‘ نکل جاتا ہے۔ منصوبہ بندی کا اتنا فقدان ہے کہ کراچی کی اہم شاہراہ یونیورسٹی روڈ پر آئے روز پانی کی لائن پھٹنا معمول بن چکا ہے۔ لاہور میں اگر شہر کی ترقی کے لئے مقابلے بازی ہو رہی ہے تو کراچی میں یہ مقابلہ ہو رہا ہے کہ شہر کو کون کتنی تیزی سے تباہ کرے گا؟ اس ”ریس‘‘ میں سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں‘ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ کراچی کی ترقی اور اس کے اندر نئی نئی تفریح گاہوں کے بارے میں سوچنے والا کوئی نہیں۔ جو پارک آج سے بیس سال قبل قائم ہوئے ان کے ٹوٹے پھوٹے اور ”بیمار‘‘ جھولے تک تبدیل نہیں کئے گئے… اور کسی بڑے تہوار کے موقع پر یہ ”کمزور جھولے‘‘ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں… اور خوشی منانے والے غم کا کرب ساتھ لے جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں لوگ تفریح کے لئے جاتے ہیں… وہاں تفریح کے بھرپور مواقع میسر ہیں… ایک سے بڑھ کر ایک تفریح گاہیں‘ سرکس‘ میوزیم‘ لائبریریاں‘ چڑیا گھر یہاں تک کہ تیز رفتار ٹرینیں بھی تفریح کا ذریعہ معلوم ہوتی ہیں… لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ کراچی کا تو چڑیا گھر اتنا لاوارث ہے کہ یہاں ایک ہاتھی مر جائے تو دوسرا آنے میں دو سے تین سال لگ جاتے ہیں جبکہ شیر کے حصے کا گوشت انسان ”کھا‘‘ جاتے ہیں۔ لاہور کا چڑیا گھر بھی کراچی سے بہت آگے ہے۔ لاہور میں میٹرو بس کے بعد اب اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جبکہ کراچی میں ابھی گرین بس کا ٹریک بھی تعمیر نہیں ہو سکا۔ کراچی سرکلر ریلوے بھی شہریوں کے لئے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں ایک پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ پہلے یہ منصوبہ جاپان کے پاس تھا… اور اب اسے چین کے حوالے کرکے سی پیک کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ کراچی میں اب تو شہریوں کی سب سے بڑی تفریحات میں ٹریفک جام نہ ملنا‘ سڑکوں پر سیوریج کا پانی نہ ہونا‘ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی ہونا جیسے معاملات شامل ہو چکے ہیں… یا پھر رات کو گھر جا کر بچوں کو پیٹنا یا گھٹیا کوالٹی کے تیل میں ابلی ہوئی مرغیاں (فرائی مرغی) مزے لے لے کر کھانا بڑی تفریح بن گئی ہے۔
سندھ حکومت اس وقت کراچی کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہونے کی دعوے دار ہے۔ یہی دعویٰ ایم کیو ایم پاکستان کا بھی ہے… اور اس بار تو ایم کیو ایم پاکستان نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم کا ووٹ دینے کے بدلے کراچی کے لئے 21 ارب روپے کی امداد ”طے‘‘ کی… لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق یہ رقم ایم کیو ایم پاکستان کو خوابوں میں ہی ملے گی۔ مسلم لیگ ن کی روایت رہی ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کو جب بھی فنڈز دینے کی بات آتی ہے وہ دور دور رہنے لگتی ہے۔ یہ وعدے اور دعوے صرف سپیکر اور وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر ہی کئے جاتے ہیں… اور بعد میں تو کون میں کون؟ کراچی اور حیدر آباد کے شہری بھی بڑے ”کوآپریٹو‘‘ ہیں… شاید اس لئے کچھ ہی عرصے میں بھول بھال جاتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ لاہور والے جب کراچی آتے تھے تو کراچی پررشک کرتے تھے اور کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے… لیکن اب صورتحال بالکل بدل گئی ہے اور اب اہل کراچی لاہور پہنچ کر رشک کرتے ہیں… اور کراچی کا لقب (روشنیوں کا شہر)اب غیر اعلانیہ طور پر لاہور کومل گیا ہے۔ ایک وقت تھا‘{ جب کراچی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ شہر قائد ہر رنگ نسل کو بلا امتیاز روزگار دیتا ہے لیکن اب یہ اعزاز بھی لاہور کو حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے لوگ لاہور سے کراچی ہجرت کرتے تھے لیکن اب کراچی سے لاہور جا رہے ہیں۔ کراچی سندھ حکومت اور لاہور پنجاب حکومت کے زیر انتظام ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت فنڈز کا رونا بھی نہیں رو سکتی۔
کراچی میںحالیہ بارشوں کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ”برساتی دورے‘‘ پر نکلے تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یاد آ گئے جو لکشمی چوک پر بارش کے بعد کھڑے پانی میں اپنے لانگ شوز پہن کر چلے گئے تھے۔ شہباز شریف کا لانگ شوز پہن کر بارش کے کھڑے پانی میں جانے کو ان کے مخالفین نے شعبدہ بازی قرار دیا‘ کڑی تنقید کی گئی۔ آج لکشمی چوک میں پانی کھڑا ہونے کا مسئلہ حل ہو گیا ہے‘ لیکن شہباز شریف پر تنقید کرنے والے وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی میں یہ مسئلہ تاحال حل نہیں کیا… اور وہ خود بارش کے بعد پانی کے اندر کھڑے تصاویر بنواتے نظر آتے ہیں۔ میاں عامر محمود (چیف ایڈیٹر روزنامہ دنیا) جب لاہور کے ناظم تھے تو انہوں نے لاہور کی ترقی کے لئے جن منصوبوں کی بنیاد رکھی‘ وہ آج اس شہر کے ماتھے کا جھومر بنتے جا رہے ہیں۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن شہری سہولتوں اور شہری ترقی میں یہ شاید پہلے نمبر پر آ گیا ہے‘ جبکہ کراچی کو نااہل حکمرانوں نے دوسرے نمبر پر دھکیل دیا ہے… اور وہ وقت دور نہیں جب فیصل آباد بھی کراچی سے آگے نکل جائے گا… اور کراچی میں اختیارات کی جنگ اور سندھ حکومت کا ایک بڑے شہر کے ساتھ ”چھوٹا‘‘سلوک آج کی طرح ہی برقرار رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کراچی کو بھی ایسے حکمران مل جائیں جو اس شہر کی ترقی کا پہلے اور اپنی ترقی کا بعد میں سوچیں۔

اگلا کالم