منتخب کردہ کالم

کراچی‘ عالمی کرکٹ اور ٹریفک جام!!…الیاس شاکر

کراچی‘ عالمی کرکٹ اور ٹریفک جام!!

کراچی‘ عالمی کرکٹ اور ٹریفک جام!!…الیاس شاکر

پی ایس ایل آیا اور چلا گیا۔ پی ایس ایل تھری کی نئی اور خاص بات یہ تھی کہ اس کا فائنل کراچی میں کھیلا گیا۔ کراچی والوں نے نو برس بعد کرکٹ کا ”چہرہ‘‘ ٹیلی وژن کی بجائے میدان میں دیکھا۔ ایک میچ کی خاطر کراچی والوں نے بہت ساری پریشانیاں اور دکھ برداشت کئے لیکن چونکہ یہ کراچی کیلئے تھا‘ اس لئے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا گیا۔ رکاوٹیں‘ سختیاں‘ ٹریفک جام اور بہت کچھ کراچی والوں کو کرکٹ کیلئے سہنا پڑا۔ ابھی پی ایس ایل کے اثرات ہی ختم نہ ہوئے تھے کہ نجم سیٹھی صاحب نے کراچی والوں کو ایک اور خوشخبری سنا دی کہ ”ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کراچی آ رہی ہے جو تین ٹی ٹونٹی میچز کھیلے گی‘‘۔ سیریز کا آخری میچ پہلے چار اپریل کو رکھا گیا جو بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹوکی برسی کی وجہ سے تین اپریل کو ہی منعقد کرنا پڑا۔
ویسٹ انڈیز کے ساتھ کرکٹ کی یہ سیریز بڑی عجیب تھی‘ جس میں ”زبردستی‘‘ کی کرکٹ کھیلی گئی۔ ایک تھکی ہوئی ٹیم جس نے پچیس گھنٹے سے زائد فضائی سفر کیا اور ہفتے کی رات کو کراچی پہنچی اُسے نہ آرام کا موقع ملا اور نہ پریکٹس کا۔ پھر اس سے مقابلے کیلئے تازہ پی ایس ایل کھیلنے والی پاکستان جیسی خطرناک ٹیم موجود تھی۔ یوں پاکستان نے سیریز یکطرفہ طور پر جیت لی۔ ایک طرف ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم میں تجربے کی واضح کمی نظر آئی تو دوسری جانب کراچی کے شہریوں کو پی ایس ایل فائنل کے پانچ دن بعد ہی دوبارہ بند راستوں‘ رکاوٹوں اور ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ایس ایل فائنل کے اختتام کے فوری بعد ہی ٹی ٹونٹی سیریز کا انعقاد ”مس ٹائم ‘‘ ہو گیا۔ کراچی والے ابھی پی ایس ایل کو انجوائے کرکے ہی بیٹھے تھے کہ انہیں فوری طور پر ایک اور سیریز کیلئے تیار رہنے کا کہہ دیا گیا۔
ایکسپو میں دفاعی نمائش ہو‘ وزیراعظم اور صدرکی آمد ہو یا کوئی اور اہم تقریب‘ کراچی کی سڑکیں بند کرنا ”مجبوری‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ کوئی جلوس جب ایم اے جناح روڈ سے گزرتا ہے تو تمام گلیاں‘ سڑکیںبند اور دکانیں سیل کر دی جاتی ہیں۔ جب یہ جلوس بخیر و عافیت اختتام پذیر ہوتا ہے تو آئی جی سندھ پولیس سمیت افسران و اہلکار شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں۔ پی ایس ایل کا فائنل بھی جیسے ہی ختم ہوا اور غیرملکی کھلاڑی واپس چلے گئے تو سجدۂ شکر پولیس پر لازم ہو گیا۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کیا آئی کرکٹ کی ”عالمی بحالی‘‘ کا کریڈٹ لینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔کسی نے کہا کہ یہ کام نواز شریف کا ہے تو کسی نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے محنت کی ہے۔ کسی نے چیئرمین پی سی بی کی تعریف کی تو کسی نے وزیراعلیٰ سندھ کو ”مین آف دی میچ‘‘ کا درجہ دیا لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کی تمام اہم سڑکیں بندکرکے عالمی کرکٹ کی واپسی کراچی والوں کو کتنی مہنگی پڑی۔ جس وقت نیشنل سٹیڈیم میں میچ دیکھنے والے پینتیس ہزار تماشائی تالیاں بجا رہے تھے‘ اسی وقت کراچی کی ہر سڑک پر ٹریفک جام میں پھنسے تقریباً بیس لاکھ سے زائد شہری کھلاڑیوں اور منتظمین کی دل ہی دل میں بے حد ”تعریف‘‘ کر رہے تھے ۔ تین میچوں کیلئے کراچی کو مکمل طور پر جام کر دیا گیا۔ ایک دل جلے نے کہا کہ اگر کراچی میں تین ٹیسٹ میچ ہو گئے تو پندرہ دن تک ٹریفک جام میں پھنس کر ”نفسیاتی‘‘ بننے والے شہریوں کو اپنے ”ٹیسٹ‘‘ کرانے پڑ جائیں گے۔
کراچی کی ٹریفک پولیس جو عام حالات میں گاڑیوں کی روانی برقرار رکھنے میں ناکام رہتی ہے‘ وہ اتنے ”ہائی پروفائل میچز‘‘ کے موقع پر کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک جب سیکورٹی پلان کیلئے پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اس کی سب سے خاص بات راستے بند کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔
کراچی ایک پُرامن اور بے خوف شہر تھا۔ کیا آج کراچی کو ہم پُرامن اور بے خوف شہر کہہ سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نیشنل سٹیڈیم کے اطراف کی تمام بند سڑکوں سے موصول کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کا ماضی بہت شاندار تھا، یہاں نہ فسادات تھے‘ نہ فائرنگ‘ نہ ٹارگٹ کلنگ‘ نہ بھتہ خوری اور نہ ہی دہشت گردی۔ رواداری‘ برداشت اور حسن سلوک کراچی میں عام تھا۔ غیر ملکی سیاح یہاںخود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔ کراچی کی مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور تھی۔ماضی کا کراچی موجودہ صورتحال سے یکسر مختلف تھا۔ کراچی میں یہودی فیسٹیول بھی منعقد ہوتے تھے۔ 1982ء میں نشاط سینما کے باہر لوگوں کا رش دیکھ کر دنیا حیران ہوتی تھی‘ یہ سینما2012ء میں جلا دیا گیا تھا اور آج اس کے آثار دیکھ کر بھی دنیا حیران ہوتی ہے۔ غیر ملکی سیاح کراچی کے تانگوں کی سیر کرتے تھے۔ امریکی سیاحوں کے گروپ ٹرین کے ذریعے لاہور سے کراچی کا سفر کرتے تھے۔ معیارِ تعلیم اِس قدر شاندار تھا کہ یہاں کی درسگاہوں میں غیر ملکی بھی پڑھنے آتے تھے۔ دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی کراچی کے بازاروں میں شاپنگ کرتے نظر آتے تھے۔ آج کراچی روشنیوں کا شہر تو بن گیا ہے لیکن دہشت گردوں کا خوف ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اسی لئے کراچی میں موجود آج کے غیر ملکی جب یہ سنتے ہیں کہ کرکٹ میچ کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہے تو حیرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ماضی میں جب کرکٹ ٹیمیں کراچی آتی تھیں تو یہاں کے عوام ان کے واپس جانے پر افسردہ ہوتے تھے۔ خریداری کرنے والے کھلاڑیوں سے پیسے نہیں لئے جاتے تھے۔ آٹو گراف لینے والوں کا رش لگ جاتا تھا لیکن آج کے ”سیلفی دور‘‘ میں پہلی بار لوگ یہ پوچھتے رہے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم واپس کب جا رہی ہے، سیریز کب ختم ہو گی؟ کراچی کی سڑکیں کب کھلیں گی؟
کراچی کا نیشنل سٹیڈیم 1955ء میں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل سٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل سٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آ گیا۔ نیشنل سٹیڈیم میں آخری میچ نو سال قبل کھیلا گیا اس وقت بھی کراچی کو ٹریفک جام کا سامنا تھا لیکن یہ ”لائٹ ٹریفک جام‘‘ تھا۔ آج نو سال بعد کراچی میں کچھ اور نہ بھی بدلا ہو‘ ایک بڑی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ گاڑیوں کی تعداد چارسے چھ گنا بڑھ چکی ہے لیکن سڑکیں وہی ہیں۔ کچھ سڑکیں تھوڑی چوڑی کی گئیں لیکن اس سے کوئی فرق نہ پڑا۔ ایسا ممکن نہیں کہ کراچی کو کوئی اہم اور سنگین مسئلہ درپیش ہو اور اس کی وجہ سندھ حکومت نہ ہو۔ ڈرگ روڈ فلائی اوور کی تعمیر نو میں مسلسل تاخیر نے شاہراہ فیصل سمیت دیگر شاہراہوں کو بھی جام کرکے رکھ دیا۔ اگر اس فلائی اوور کا کام وقت پر مکمل کر لیاجاتا تو عوام کی بڑی تعداد ٹریفک جام کے عذاب سے بچ جاتی۔ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی بلاشبہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن ویسٹ انڈیز کی جونیئر ٹیم بلا کر انہوں نے پی ایس ایل فائنل کی محنت پر بھی پانی پھیر دیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر میں ایک لاکھ ٹکٹیں فروخت ہونا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ”ٹریفک جام‘‘ میں پھنسے لوگ نجم سیٹھی صاحب کی تعریفیں نہیں کرتے کہ کہیں دس دن بعد پھر کوئی ٹیم نہ بلا لیں۔ ایک دانشور نے مشورہ دیا کہ نیشنل سٹیڈیم کو شہر سے باہر لے جایا جائے۔ اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کیلئے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے اور پھرکھلاڑیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سٹیڈیم کے اندر اتارا جائے تاکہ عوام پر عذاب نازل نہ ہو سکے۔ ایسا نہ ہو کہ عالمی کرکٹ ٹیموں کا ”استقبال‘‘ کرتے کرتے عوام کو کرکٹ سے ہی نفرت ہو جائے۔