منتخب کردہ کالم

کراچی میں دو روز (جمہور نامہ) رئوف طاہر

ابن الحسن (مرحوم) کہا کرتے تھے‘ ساری عمر انگریزی میں لکھا‘ سندھ کلب کے باہر کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ اردو اخبار میں لکھنا شروع کیا تو یہ دور دور تک جان پہچان کا ذریعہ بن گیا۔ اب ڈبل روٹی لینے جائیں تو بیکری والا بھی ہمارے کالم پر تبصرہ شروع کر دیتا ہے۔ آخری برسوں میں وہ نوائے وقت کے ادارتی صفحے کے علاوہ‘ صلاح الدین شہید کے”تکبیر‘‘ اور شامی صاحب کے ”زندگی‘‘ میں بھی چھپنے لگے تھے۔ تب کالم کے ساتھ کالم نگار کی تصویر کا رواج بھی پڑ گیا تھا‘ اور اب تو خیر سے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر ہمارے لیے آنے والی گاڑی کو راستے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ ہم انتظار میں تھے کہ ایک صاحب نے ”پہچان‘‘ لیا۔ انہوں نے اپنا تعارف ”خاموش اکثریت کے نمائندے‘‘ کے طور پر کرایا اور کراچی کے مسائل پر بات کرنے لگے۔ ”کراچی میں آپ کا قیام کہاں اور کب تک ہو گا‘‘؟ ہم نے ہوٹل کا نام لیا اور بتایا کہ کل شام کو واپسی ہے۔ وہ کہنے لگے‘ آپ کے پاس وقت مختصر ہے‘ لیکن کوشش کریں کہ اس علاقے سے باہر بھی نکلیں۔ آپ کو کچرے کے وہ ڈھیر نظر آئیں گے‘ جن کے باعث کراچی کو ”کچراچی‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ میڈیا اور اپوزیشن کے شور شرابے کے بعد حکومت نے اس طرف توجہ دی لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ ٹی وی پر لاہور میں انڈرپاسز اور فلائی اوورز کے ساتھ میٹرو بس کو دیکھتے ہیں‘ لال بسوں کی فیڈر سروس بھی شروع ہو گئی ہے‘ اورنج لائن کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے‘ تو یقین کریں خوشی ہوتی ہے کہ لاہور بھی اپنے ہی ملک کا شہر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کراچی کے زخموں سے ٹیس بھی اٹھنے لگتی ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے لیکن ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے کہ روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ انہیں اعتراف تھا کہ ایم کیو ایم بھی اس میں بری الذمہ نہیں‘ جو 2002ء سے 2013ء تک سندھ کی مخلوط حکومت کا حصہ رہی‘ لیکن اس صورت حال کا بڑا سبب پیپلز پارٹی کا کراچی کے ساتھ سوتیلے پن کا رویہ ہے اور پھر وہ تصویر کا دوسرا رخ
لے بیٹھے‘ ”اندرونِ سندھ بھی پیپلز پارٹی نے کون سا دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں‘ وہاں آج بھی عشروں پرانی صورتِ حال ہے‘‘۔ یہاں انہوں نے ایک اور بھی بات کہی‘ ”لیکن میاں صاحب نے کراچی اور سندھ کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا‘‘؟ میرے اس نئے دوست کا اندرونِ سندھ بھی آنا جانا رہتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے‘ سندھ میں بھی میاں صاحب اور ان کی مسلم لیگ ”متبادل‘‘ بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ برے وقت میں میاں صاحب کا ساتھ نبھانے والی سندھی لیڈرشپ زرداری (اور بلاول) کی پیپلز پارٹی کا رخ کر رہی ہے۔ اس دوران ہماری گاڑی پہنچ گئی تھی اور اسلام آباد سے ان کا مہمان بھی آ گیا تھا۔ انہوں نے اس تاکید کے ساتھ اجازت چاہی کہ ہم کراچی اور سندھ کے عام آدمی کا یہ گلہ میاں صاحب تک پہنچا دیں کہ وہ اس کے لیے سیاسی متبادل کیوں نہیں بنے؟
اسی شام جماعت اسلامی نے ”کے الیکٹرک‘‘ کے خلاف شارع فیصل پر دھرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ کراچی جماعت کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ دھرنے کے باوجود شارع فیصل پر ٹریفک رواں دواں رہے گی جس کے لیے اس کا ایک حصہ اور سائڈ لین کھلی رہے گی۔ دیگر مسائل کے علاوہ بجلی بھی کراچی والوں کا بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے 1913ء میں یہاں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (KESC) قائم ہوئی تھی۔ یہ سٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ پبلک لمیٹڈ کمپنی تھی۔ کراچی پھیلتا گیا‘ یہاں انڈسٹری بھی وسیع تر ہوتی گئی لیکن کے ای ایس سی نے بجلی میں کمی نہ آنے دی۔ 1971ء کے بعد بھٹو صاحب آ گئے تو اس کے ایم ڈی کا تقرر وفاقی حکومت کرنے لگی یوں یہاں حکومتی (اور سیاسی) عمل دخل شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسے واپڈا کے نیشنل گرڈ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا (جس پر احتجاج بھی ہوا) پرافٹ دینے والے ادارے کو اب خسارے کا سامنا ہونے لگا۔ بجلی چوری (کنڈا سسٹم اور میٹروں میں ہیرا پھیری) اس کا ایک اہم سبب تھا۔ قومی اداروں میں ایک اور سفید ہاتھی کا اضافہ ہو گیا تھا۔ مشرف کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ شوکت عزیز نے مشورہ دیا تھا کہ پی آئی اے‘ ریلوے‘ واپڈا اور سٹیل مل‘ ایک ڈالر میں بھی بکتے ہیں‘ تو بیچ دیں کہ قومی خزانے پر ان کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ مشرف دور میں کے ای ایس سی ایک عرب کمپنی کو بیچ دی گئی۔ یہاں سے یہ دبئی کی ایک کمپنی کے پاس چلی گئی۔ زرداری صاحب آئے تو انہوں نے اس پر مراعات کی بارش کر دی۔ اب اسے ایک چینی کمپنی کو بیچنے کا معاملہ ہے۔ معاہدے کے مطابق‘ اس دوران اس کی پروڈکشن میں اضافہ ہوا‘ نہ ٹرانسمشن کو بہتر بنایا گیا۔ کبھی یہاں سے سرپلس بجلی واپڈا کو بیچ دی جاتی تھی‘ اب واپڈا اسے 650 میگاواٹ سبسڈائزڈ ریٹ پر دیتا ہے۔ اس کے باوجود کراچی کے شہریوں کو غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ‘ اووربلنگ‘ مہنگے ٹیرف اور تیز میٹروں کا سامنا
ہے۔ انہی مسائل پر احتجاج کے لیے جماعت اسلامی کراچی نے شارع فیصل پر پُرامن دھرنے کا اعلان کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد پولیس نے ادارۂ نور حق کا گھیرائو کر لیا۔ ادارے کا مین گیٹ ٹینکر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ جماعت کی قیادت پُرامن رہنے کا یقین دلا رہی تھی‘ لیکن حکومت دفعہ 144 کے تقدس پر کوئی ”کمپرومائز‘‘ کرنے کو تیار نہیں تھی۔ نوبت آنسو گیس‘ لاٹھی چارج اور فائرنگ تک پہنچ گئی۔ حافظ نعیم الرحمن‘ اسداللہ بھٹو اور دیگر قائدین کی گرفتاری کے بعد کارکنوں کا احتجاج شدید تر ہو گیا تھا۔ خود حکومتی اقدامات شارع فیصل اور اس کے اردگرد ٹریفک جام کا باعث بن گئے۔ چار‘ پانچ گھنٹے بعد گرفتار شدگان کو رہا کر دیا گیا۔ فائرنگ کا نشانہ بننے والوں میں دو کی حالت نازک تھی۔ اخبار نویسوں کے سوچنے کا اپنا انداز ہوتا ہے‘ ہمارا ایک ساتھی کہہ رہا تھا‘ پولیس نے کتنی بڑی خبر بنا دی‘ معاملے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ لیکن امیر جماعت کا نقطۂ نظر مختلف تھا۔ ان کے بقول‘ میڈیا میں پولیس تشدد نمایاں ہوا اور اصل مسائل پس منظر میں چلے گئے۔
اسی شب جناب سلیم کوثر کی چھوٹی صاحبزادی کی رخصتی کی تقریب تھی۔ برسوں پہلے منفرد اسلوب کے ممتاز شاعر کی غزل آئی اور دنیائے اردو ادب میں دھوم سی مچ گئی ؎
میں خیال ہوں کسی اور کا‘ مجھے سوچتا کوئی اور ہے
پسِ آئینہ میرا عکس ہے‘ سرِ آئینہ کوئی اور ہے
سلیم کوثر کا ایک اور رنگ ؎
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ہوتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے
تمہاری طرح جینے کا ہنر آتا تو پھر ہم بھی
مکاں اپنا وہی رکھتے‘ پتا تبدیل کر لیتے
کچھ عرصہ پہلے گلے کے سرطان نے آ لیا۔ وہ پی ٹی وی سے سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ علاج کے لیے لیاقت نیشنل ہسپتال میں Entitlement تھی۔ مرض کی سنگینی کے پیش نظر احباب نے آغا خان میں علاج کا مشورہ دیا۔ ان کی درخواست تھی کہ لیاقت نیشنل ہسپتال کے حساب سے ہی ادائیگی کر دیں‘ باقی کا وہ کسی نہ کسی طور خود بندوبست کر لیں گے۔ اس میں دفتری قواعد و ضوابط کا لمبا سلسلہ درپیش تھا۔ عارف نظامی نگران وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ انہوں نے بھی اپنی سی کوشش کی۔ شامی صاحب اور عطاء الحق قاسمی بھی ارباب اختیار کو توجہ دلاتے رہے۔ آخر صدر ممنون حسین کی کاوش رنگ لائی اور سرکار نے 60 فیصد ادائیگی کر دی۔ بدترین حالات میں بھی شاعر نے خود داری پر آنچ نہ آنے دی تھی۔ آغا نور محمد پٹھان (تب ڈائریکٹر اکیڈمی آف لیٹرز) راوی ہیں کہ صدر زرداری نے شاعروں‘ ادیبوں کی امداد کا فیصلہ کیا تو ایک لفافہ سلیم کوثر کو بھی بھجوایا‘ انہوں نے یہ کہہ کر وصولی سے معذرت کر لی کہ میں نے اکیڈیمی کے لیے کوئی سکرپٹ لکھا‘ نہ ترجمہ کیا‘ نہ اس کے کسی مشاعرے میں شرکت کی تو پھر اسے کس مد میں وصول کر لوں؟
سلیم کوثر موت کی دہلیز پر پہنچ کر لوٹ آئے‘ لیکن خوفناک مرض کے اثرات باقی ہیں‘ معمول کی غذا کے برعکس لیکوڈ پر گزارا ہے۔ انہی دنوں ان کی کلیات بھی منظر عام پر آئی جس میں ان کے پانچ مجموعے یک جا کر دیے گئے ہیں‘ جنہیں ابوالخیر کشفی‘ پیرزادہ قاسم اور عبیداللہ علیم نے مرتب کیا تھا۔ کلیات کا نام سلیم کی غزل کے ایک شعر سے لیا گیا ہے ؎
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنانہیں‘ دیکھنا انہیں غور سے
”جنہیں راستے میں خبر ہوئی‘‘ کہ یہ راستہ کوئی ہے
سلیم کا مجموعۂ حمد و نعت اس کے علاوہ ہے ؎
مرے ہاتھوں اور ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت‘ چوما بہت