کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے لیے کیا ہے؟…رؤف طاہر
شہرِ قائد خوش قسمت ہے کہ برسوں بعد ایک بار پھر اس کا چہرہ نکھرنے جا رہا ہے، وہی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، عروس البلاد اور سب سے بڑھ کر ”منی پاکستان‘‘ ہونے کا اعزاز۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے خود کو شہریانِ کراچی کی نمائندگی کے لیے پیش کیا ہے۔ (الگ الگ حلقوں سے) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری۔
قیام پاکستان کے بعد تین چار عشروں تک کراچی کی ایک خاص سیاسی پہچان رہی۔ مشرقی پاکستان کے ڈھاکا کی طرح ادھر مغربی پاکستان میں بھی کراچی اپنے خاص سیاسی شعور اور جمہوری سوچ کی پہچان رکھتا تھا۔ یہ ایک عشرے سے زائد مملکتِ خدا داد کا دار الحکومت رہا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر نے دارالحکومت کو یہاں سے دُور لے جانے (اور اس کے لیے اسلام آباد کے نام سے نیا شہر بسانے) کا جو فیصلہ کیا اس میں ایک بڑا سبب کراچی والوں کی جمہوری سوچ بھی تھی (جس سے ڈکٹیٹروں کا خوف زدہ ہونا فطری ہے۔) مادرِ ملت ڈکٹیٹر کے خلاف میدان میں اتریں تو اُدھر ڈھاکا کی طرح اِدھر کراچی میں بھی جذبوں کا سیلاب تھا، جو امڈ آیا تھا، تلاطم کی وہی کیفیت جو خلیج بنگال اور بحیرہ عرب میں ہوتی ہے جب سرکش لہریں ساحل سے آ ٹکراتی ہیں۔ کراچی والوں کو اس کی سزا ڈکٹیٹر کے نوجوان صاحبزادے کی زیر قیادت ایک جلوس نے، ان پر گولیاں برسا کر دی۔
سول ڈکٹیٹر شپ کے خلاف قومی تحریکوں میں بھی کراچی پیش پیش رہا۔ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں پہیہ جام کی کال پر کراچی کے نوجوان ٹرین رکوانے کے لیے پٹڑیوں پر کود گئے تھے (شہر قائد میں ایم کیو ایم کا ظہور اور اس کے بعد کی سیاست ایک الگ موضوع ہے۔)
کہا جاتا ہے، کراچی میں لیاری والی سیٹ بلاول کے لیے پکی ہے۔ عمران خان کی پی ٹی آئی نے 2013ء کے انتخابات میں اگرچہ یہاں سے قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ (عارف علوی والی) حاصل کی لیکن مجموعی طور پر اس کے ووٹوں کی تعداد سات، آٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ جماعت اسلامی والوں کا دعویٰ ہے کہ ان میں جماعت کے ووٹر بھی تھے۔ جماعت نے دوپہر کے وقت ایم کیو ایم کی دھونس دھاندلی کے خلاف احتجاجاً بائیکاٹ کر دیا تھا؛ چنانچہ اس کے ووٹر جو قطاروں میں کھڑے تھے ، یا گھروں سے نکل آ ئے تھے ، ان کی (دوسری ) ترجیح پی ٹی آئی بن گئی۔ کہا جاتا ہے ، انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کراچی میں اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکی جس کا اظہار دسمبر 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں ہوا جب پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے باوجود کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کسی خاص تیاری کے بغیر بلدیاتی انتخابات میں اتری تھی۔ اس کے باوجود اس کی کارکردگی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے کہیں بہتر رہی تھی۔ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کے جس حلقے سے امید وار ہیں، وہاں کی بیشتر یونین کونسلیں نون لیگ نے جیت لی تھیں۔ یہ اعجاز شفیع (مرحوم) کا حلقہ تھا‘ جہاں شہباز شریف کا مقابلہ اب پی ٹی آئی کے فیصل واڈا سے ہے۔
اب مسلم لیگ (ن) نے اپنے صدر کو اکھاڑے میں اتارا ہے تو اس کے لیے کیا امکانات ہیں؟ ایم کیو ایم کی ”اجارہ داری‘‘ کے دور میں بھی کراچی میں نواز شریف کی مسلم لیگ کے لیے خاصی گنجائش رہی ۔ 1993ء میں یہاں سے مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کر لی تھیں (اعجاز شفیع ، حلیم صدیقی اور ابو بکر شیخانی )۔ 1997ء میں اس نے اعجاز شفیع اور حلیم صدیقی کی نشستیں دوبارہ جیت لیں ، ابوبکر شیخانی کی سیٹ ایم کیو ایم کے ”روایتی ہتھکنڈوں ‘‘ کی نذر ہو گئی تھی۔ (اندرون سندھ بھی نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے مقبولیت کی لہر موجود تھی۔ کراچی کی ان دو نشستوں کے ساتھ، سندھ سے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی بارہ نشستیں تھیں۔)
کراچی اور اندرونِ سندھ میں مسلم لیگ (ن) اپنی یہ پوزیشن کیوں برقرار نہ رکھ سکی، خود اس کی مرکزی قیادت کی بے توجہی اس کا اہم ترین سبب تھی۔ اب مسلم لیگ (ن) نے خود کو دوبارہ اہلِ کراچی کے حضور پیش کیا ہے، تو یہاں کی انتخابی سیاست کے اسرار و رموز سے آشنا ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کی شام اس کے لیے شاید مایوس کن نہ ہو۔ کراچی میں نواز شریف کے گزشتہ ادوار کی Good Will ختم نہیں ہوئی، یہ اب تک قائم ہے اور ان کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ضرورت اسے متحرک کرنے اور پولنگ سٹیشنوں تک لانے کی ہے۔ کراچی والوں کو یاد ہے کہ شہر قائد میں ، جو پاکستان کا معاشی HUB بھی ہے، امن و امان میاں محمد نواز شریف کی اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ 1998ء میں کراچی میں حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے یہاں اپنی صوبائی حکومت کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ تب لیاقت جتوئی کی زیر قیادت مسلم لیگ کی (مخلوط ) صوبائی حکومت میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ حکیم محمد سعید کی شہادت کے لیے انگلیاں ایم کیو ایم کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ وزیر اعظم نواز شریف ایم کیو ایم سے ملزموں کو پیش کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، آخر کار انہوں نے مخلوط حکومت کو ختم کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔
2013ء میں تیسری وزارت عظمیٰ میں بھی نواز شریف کراچی میں امن و امان کو اولین ترجیح دے رہے تھے۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد کراچی کا رخ کیا۔ آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر السلام کو بھی بلایا، کراچی کے تمام پولیٹیکل سٹیک ہولڈرز کو بھی ساتھ بٹھایا اور اتفاق رائے کے ساتھ ”آپریشن‘‘ کا فیصلہ کروا لیا۔ (یہ ”ضربِ عضب‘‘سے پہلے کی بات ہے)۔
اب میاں محمد شہباز شریف نے خود کو اہلِ کراچی کے روبرو پیش کیا ہے‘ تو وزیر اعظم نواز شریف کی Good Will کے ساتھ ان کی اپنی ”کارکردگی‘‘ بھی ان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کو اس کے مخصوص حالات و واقعات کے باعث ایک طرف رکھیں۔ باقی دو صوبوں میں پانچ سال حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں میں سے کیا پیپلز پارٹی کہہ سکتی ہے کہ ہم لاہور کو کراچی اور پنجاب کو سندھ بنا دیں گے۔ یا پی ٹی آئی کہہ سکتی ہے کہ ہم لاہور کو پشاور اور پنجاب کو خیبر پختونخوا بنا دیں گے؟۔
12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے خلاف کراچی کے مسلم لیگی متوالوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں تاخیر نہ کی تھی، وہ اس میں لاہور کے زندہ دلوں سے کہیں آگے تھے۔ فاروق عادل نے ”جو صورت نظر آئی ‘‘ میں اس کی منظر کشی کچھ یوں کی ہے۔ ریگل چوک میں ایک آواز سنائی دی ”نواز شریف۔ زندہ باد‘‘ اور چوک کے مختلف گوشوں سے بھی یہی صدا بلند ہوئی۔ کئی شناسا چہرے دکھائی دیئے۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس مشاہد اللہ خاں سڑک کے عین درمیان میں کھڑے نعرہ زن تھے، ”مشرف آمریت مردہ باد‘‘… مار پیٹ کا عمل کچھ دیر جاری رہا، پھر یہ لوگ انہیں ایک غیر سرکاری گاڑی میں کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ مشاہد کے علاوہ بھی کئی لوگ گرفتار ہوئے جن میں اندرون سندھ کے کئی کارکن بھی شامل تھے۔ ڈیرہ اللہ یار (بلوچستان) کے سردار احمد علی کھوسہ (اب مرحوم) بھی کھنچے چلے آئے تھے جن کا بیٹا کینسر کا مریض تھا اور مقامی ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا، کراچی کی سڑکوں پر ایک تاریخ رقم ہو گئی تھی…۔