منتخب کردہ کالم

کراچی کا جشن آزادی .. الیاس شاکر

کراچی کا جشن آزادی .. الیاس شاکر

کراچی جشن آزادی کی تقریبات پر خرچہ کرنے والا ملک کا سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ 70 سال میں پہلی مرتبہ کراچی میں جشن آزادی کے لئے ریکارڈ 15 ارب روپے کی خریداری کی گئی۔ کراچی کے شہریوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ اس شہر نے جشن آزادی میں تمام بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جس شہر کے لوگوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں‘ وہی شہر پاکستان کی آزادی کی سب سے زیادہ خوشیاں مناتا رہا ہے۔ اس سال اگست میں جتنی خریداری ہوئی اس نے عید کے تہواروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں پیدل ”ٹریفک جام‘‘ کا عالم تھا۔ دکانوں‘ ٹھیلوں‘ پتھاروں پر اتنا رش تھا کہ یہ گمان بھی ہونے لگا کہ شاید جھنڈیاں‘ پرچم‘ بیجز‘ کیپس اور دیگر سامان مفت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہی حال تمام شہر کے دوسرے چھوٹے بڑے علاقوں کا تھا۔ وہاں بھی جشن آزادی کے لئے خریداری کرنے والوں کا رش تھا۔ ہر سڑک کے کنارے ”آزادی بازار‘‘ بن گئے جہاں ہر دکان پر سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا تھا۔ قومی پرچموں کی بہار تھی۔ دوسری سبز رنگ کی چیزیں بھی فروخت کی جا رہی تھیں‘ جیسے ٹی شرٹیں‘ کیپس اور بیجز۔ یہ سب کچھ اس کراچی میں ہوا جہاں کے شہر ی اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور کوئی مانتا نہیں۔
کراچی میں جشن آزادی کی تقریبات پر کتنا خرچہ کیا گیا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور فیصل آباد میں جشن آزادی کی تقریبات پر خرچہ ایک طرف اور کراچی کا خرچہ ایک طرف ہے۔ حالیہ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ جبکہ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ بتائی گئی ہے۔ اس حساب سے تو لاہور اور کراچی کی جشن آزادی تقریبات کے لئے خریداری پر اٹھنے والے اخراجات میں زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے تھا‘ لیکن خریداری کے اعدادوشمار مردم شماری کی رپورٹ کی پول کھول رہے ہیں۔
مردم شماری کے ابتدائی نتائج نے کراچی والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نتائج کے مطابق 1998 میں کراچی کی آبادی 98 لاکھ تھی‘ جو اب ایک کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ گئی ہے‘ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لاہور کی آبادی تقریباً دگنی ہو گئی ہے‘ جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق آبادی میں اضافے کی شرح سندھ میں 68 فیصد جبکہ پنجاب میں 52 فیصد ہے۔ کراچی میں مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے لیکن حالیہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کراچی میں آبادی کے اضافے میں ”ڈنڈی‘‘ ماری گئی ہے‘ جس کا خدشہ پہلے ہی سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ایک طرف مختلف ماہرین پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں آبادی میں اضافے کی شرح پر حیران ہیں تو دوسری جانب کراچی کے دانشوروں میں یہ بحث بھی چھڑ چکی ہے کہ جب اس شہر کی آبادی میں افغان‘ بنگالی‘ برمی اور دنیا بھر کی مختلف قومیں شامل ہیں… وہ اس شہر کے وسائل استعمال کر رہے ہیں… یہاں کی سڑکیں ان کی گاڑیوں کا بوجھ بھی برداشت کر رہی ہیں… تو ان کی مردم شماری کس ”کھاتے‘‘ میں ڈالی گئی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ تو اب آبادی کی بنیاد پر ہی تقسیم ہو رہا ہے‘ اس لئے کراچی کو نقصان در نقصان ہی ہو گا۔ منی پاکستان کہلائے جانے والے شہر کی آبادی میں جتنا اضافہ حقیقی طور پر ہوا اسے مردم شماری کے ”کاغذات‘‘ میں لکھنے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال اب ہر جگہ کیا جانے لگا ہے۔
کراچی میں جشن آزادی منانے کے جذبے میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ کار اور موٹر سائیکل سوار منچلے نوجوان 13 اگست کی رات 12 بجنے سے پہلے ہی سڑکوں پر آ گئے… اور پھر جب گھڑی کی دونوں سوئیاں ایک دوسرے پر سوار ہوئیں تو ہر سڑک‘ گلی‘ محلے اور شاہراہ پر جشن شروع ہو گیا… توپوں کے 21 گولے داغے جانے سے قبل ہی ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنا شروع ہو گئے… ملی نغمے گونجنے لگے… رات کو ہی دن کا سماں ہو گیا۔ بیشتر مقامات پر ٹریفک جام تھا تو کئی سڑکوں پر گاڑیاں چونٹیوں کی رفتار سے رینگ رہی تھیں… کیونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا۔ ٹریفک پولیس نے اس دن کے حوالے سے کوئی پلان تیار نہیں کیا تھا۔ اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا… آناً فاناً گاڑیاں سڑکوں پر آئیں اور سب کچھ ”جام‘‘ ہو گیا۔ سب پھنس گئے۔ نہ کسی کے آنے کی کوئی جگہ رہی اور نہ ہی کسی کے جانے کے لئے کوئی راہ بچی۔ حالانکہ بہتر منصوبہ بندی سے اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ سی ویو پر بھی سمندر کے سامنے ایک سمندر تھا… اور یہ کراچی کے لوگ تھے جو جشن آزادی منانے کے لئے کراچی کے کونے کونے میں موجود تھے۔ 50 سے زائد نیوز چینلز بھی کراچی میں جشن آزادی کی تقریبات‘ ہلا گلا‘ موسیقی کے پروگرام‘ نوجوانوں کے ”کرتب‘‘ اور رت جگا ”کور‘‘ نہیں کر پا رہے تھے۔ کراچی میں جشن آزادی کے جوش و خروش میں اضافے کی بڑی وجہ امن و امان کا قیام ہے۔ پرامن کراچی کا کریڈٹ بلاشبہ پاک فوج کو جاتا ہے‘ جس نے غیر محسوس طریقے سے کراچی کو ایک بار پھر امن کا شہر بنا دیا۔ اس کی روشنیاں اور رونقیں بحال ہو رہی ہیں۔ حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اب ہر شہری ہر جگہ اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کر سکتا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک آزادی کا جشن شایان شان طریقے سے مناتے ہیں۔ یہ زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ جو قومیں اپنے پیسے خرچ کرکے‘ پٹرول جلا کر‘ ٹریفک جام میں پھنس کر‘ بڑے بڑے لائوڈ سپیکر لگا کر‘ گاڑیاں سجا کر باہر نکلتے ہیں۔ وہ آزادی کی خوشی اپنی روح کی تسکین کے لئے مناتی ہیں۔
ہم آزاد ملک میں تو رہتے ہیں لیکن ابھی ہم سیاسی‘ سماجی اور معاشی طور پر آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں نوکری کرتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… ہماری سیاسی جماعتوں کا کوئی سربراہ خاندان سے باہر کا نہیں ہوتا… کیونکہ ہم آزاد نہیں… ہم موروثی سیاست کے خلاف لیکچر دیتے ہیں‘ تقریریں کرتے ہیں لیکن ووٹ ہم پھر بھٹو یا شریف کو دیتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… ہم امریکا کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور امداد کے لئے ہاتھ بھی امریکا کے سامنے پھیلاتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… ہم سود کو حرام بھی قرار دیتے ہیں‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے کا سود بھی قوم کی حلال کی کمائی سے ادا کرتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… جشن آزادی کے موقع پر بھی بھارتی فلمیں ریلیز ہوتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… سینما گھروں پر پاکستان کا پرچم اور اس کے نیچے بھارتی فلم کا پوسٹر ہوتا ہے… کیونکہ ہم آزاد نہیں۔ ہم دودھ تو کیا جان بچانے والی ادویات میں بھی ملاوٹ کرتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں۔ ہم نقلی باٹ سے کم سامان تول کر دیتے ہیں… اور پھر نماز بھی پڑھتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… ہم بینکوں سے سود پر قرضہ لے کر گاڑی خریدتے ہیں اور اس میں اپنے بیوی‘ بچوںکو بٹھا کر فخر سے گھومتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… سود پر سامان خرید کر اس کے منافع سے حج کرنے چلے جاتے ہیں… کیونکہ ہم آزاد نہیں… دراصل ہم سودی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری معیشت کے پیروں میں آئی ایم ایف کی بیڑیاں ہیں۔ ہماری سیاست پر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ ہماری ”بانجھ‘‘ انڈسٹریاں نوکریاں پیدا کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں۔ ہم آزاد تو نہیں لیکن جشن آزادی بھرپور مناتے ہیں۔

اگلا کالم بلال غوری