منتخب کردہ کالم

کراچی کا ماسٹر پلان….الیاس شاکر

کراچی کا ماسٹر پلان….الیاس شاکر

کراچی کو تباہ کر دیا گیا۔ شہر میں شارع فیصل سمیت کوئی سڑک سفر کے قابل نہیں… آپ کراچی کے ساتھ کر کیا رہے ہیں؟ آپ لوگ کراچی کے ساتھ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں؟ کیا کراچی شہر کہلانے کے لائق ہے؟ شہریوں کے لیے سانس لینے کی بھی جگہ نہیں چھوڑی… نالے بند پڑے ہیں… اب نالوں پر تجاوزات قائم کرکے شہر کو مکمل ڈبونے کا پلان کیا جا رہا ہے… سرکاری اداروں کا کام نالوں پر ‘دکانیں بناؤ، مال کمائو‘ رہ گیا ہے… ذرا سی بارش نے شہر کو ڈبو دیا مگر کسی نے کچھ سیکھا نہیں… ہر روڈ پر مٹی‘ گندگی اور گرد ہے… تھانے ریڑھی والوں کے چندوں اور پیسوں پر چلتے ہیں… جب کہ ایس ایچ اوز تجاوزات کے پیسوں پر پل رہے ہوتے ہیں… صدر اور اطراف کا علاقہ تجاوزات سے بھرا پڑا ہے۔ آپ ایک ریڑھی ہٹا کر دکھا دیں! پورے شہر کا برا حال ہے۔ کے ایم سی کی ملی بھگت سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ کے ایم سی نے تو پارک بھی کرائے پر دے دیئے اور فٹ پاتھوں پر جنریٹر لگوا دیئے ہیں۔ یہ سطور ہارون الرشید‘ رئوف کلاسرا‘ حامد میر‘ حسن نثار‘ وسعت اللہ خان‘ جاوید چوہدری یا الیاس شاکر نے نہیں لکھیں‘ بلکہ یہ وہ ریمارکس ہیں جو سپریم کورٹ نے تجاوزات کے حوالے سے دو درخواستوں پر سماعت کے دوران دئیے ہیں۔ کراچی کا دکھ‘ کراچی کا مقدمہ‘ لاوارث کراچی‘ کراچی کی داستانِ ستم اور بے شمار ایسے مضامین لکھے‘ جن میں کراچی کا نوحہ پڑھتا رہا… سندھ کے حکمرانوںکے ضمیر جھنجھوڑنے کی بہت کوشش کی… لیکن لگتا ہے کہ مردہ ضمیر جھنجھوڑنے سے حرکت میں نہیں آتے۔
سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کو بہت لتاڑا‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا… یہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ کوئی اثر ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
پاکستان میں کراچی‘ قبائلی علاقہ جات کے مقابلے میں بھی نچلی سطح پر ہے۔ کراچی نے ایسا کیا جرم کیا ہے‘ جس کی سزا اسے مسلسل مل رہی ہے؟ ٹیکس کی شکل میں ”خون‘‘ دینے والے کراچی کی ترقی کا ”خون‘‘ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کراچی جدید اور ترقی یافتہ شہر تھا… لیکن قبضہ مافیا اور نااہل حکمرانوں نے اسے پسماندہ ترین شہر بنا دیا۔ کراچی کی اہم مارکیٹوں میں تجاوزات کی بھرمار نے شہر کی رونق ہی چھین لی ہے جبکہ دوسری جانب ”وحشی کچی آبادیوں اور گوٹھوں‘‘ نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں… ان میں سے آدھی سے زیادہ آبادیاں جدید شہری سہولتوں‘ بلدیاتی سیٹ اپ‘ نکاسی و فراہمیء آب‘ صحت کی بنیادی سہولیات اور انفراسٹرکچر سے محروم ہیں۔ کراچی کا ”ثقافتی مقام‘‘ ختم ہوتا جا رہا ہے… اور اس تمام تر صورتحال کے ذمہ دار پچاس سال سے نعرے لگانے والی کراچی کی لیڈرشپ کے علاوہ ملک اور صوبے کے حکمران بھی ہیں۔ کراچی پاکستان کی ترقی کا خوبصورت چہرہ تھا… جس چہرے پر آج سست ترقیاتی کاموں کے گڑھے پڑے ہیں… اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کا ڈرگ روڈ فلائی اوور تعمیر سے اب تک 28ویں مرتبہ مرمت کیلئے بند ہو چکا ہے… اس پر بھاری اخراجات کئے جاتے ہیں‘ لیکن کچھ ہی عرصے بعد پھر مرمت کا کام نکل آتا ہے۔ اب اس فلائی اوور کو تین ماہ کیلئے بند کر دیا گیا ہے اور 20 کروڑ روپے کی خطیر رقم از سر نو تعمیر کیلئے رکھی گئی ہے‘ جس کی وجہ سے اب شاہراہ فیصل شہریوں کیلئے ”پل صراط‘‘ بن گیا ہے۔ بد ترین ٹریفک جام کراچی والوں کا مقدر بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح ملیر 15 کا فلائی اوور بھی سست ترین تعمیر کا شاہکار بنتا جا رہا ہے۔
کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ہے… کراچی ترقی کے سفر میں پورے ملک کی قیادت کرتا تھا‘ لیکن مل جل کر اس قیادت کرنے والے شہر کا منہ اس بری طرح نوچا گیا کہ آج اس کے نشان شہر کی سڑکوں‘ گلیوں اور اہم شاہراہوں پر بآسانی نظر آ رہے ہیں۔ یہ تماشہ بھی سب نے دیکھا کہ ہم اپنا خوبصورت اور جگمگاتا ”شہر‘‘ اجاڑ کر پوری دنیا میں بھکاری بن کر ”مانگتے‘‘ پھر رہے ہیں۔
امریکہ نے دارالحکومت نیویارک سے واشنگٹن منتقل ضرور کیا لیکن نیویارک کے چہرے پر پنجے نہیں مارے۔ قومی اقتصادی پالیسیوں میں نیویارک کو امریکہ کے ”فنانشل کیپیٹل‘‘ کا درجہ دیا گیا۔ بھارت سے ہم یہی سیکھ لیں کہ دہلی کی تاریخی اہمیت ہونے کے باوجود حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کبھی ”ممبئی‘‘ کی صنعت اور فلم انڈسٹری کا گلا گھونٹنے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی سسکتا‘ بلکتا اور تڑپتا شہر ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس نے ان زخموں پر وہ مرہم لگایا ہے جو کھیلوں کے دوران زخمی کھلاڑیوں کو لگایا جاتا ہے تاکہ وہ کھیل پورا کر سکیں لیکن مکمل علاج بعد میں کیا جاتا ہے۔ کراچی کو بھی مکمل علاج کی ضرورت ہے اور اس کام کیلئے سپریم کورٹ ہی بہترین ”ڈاکٹر‘‘ کا کام کر سکتی ہے۔ کراچی پر حکمران اتنی بھی توجہ نہیں دے رہے جتنی بھینسوں کے باڑے کا مالک اپنی بھینسوں پر دیتا ہے۔ نہ یہاں پانی ہے نہ صفائی… نہ بجلی ہے نہ صحت عامہ کی سہولیات… لیکن آپ کو یہ جان کر تھوڑی حیرت ضرور ہو گی کہ شہرِ قائد کے باسیوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے میں ناکام سندھ حکومت سرکاری گاڑیوں کے لئے اس نعمت کو اس طرح ضائع کر رہی ہے کہ سندھ اسمبلی کو سروس سٹیشن بنا دیا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے مین گیٹ پر گزشتہ دنوں سرکاری گاڑیوں کی باقاعدہ دھلائی کی گئی۔ خبروں کے مطابق ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کے ڈرائیور کو سندھ اسمبلی کے اندر گاڑی کی دھلائی کرنے کی اجازت دی گئی۔ سندھ اسمبلی کا مالی روزانہ پانی کا پائپ شہلا رضا کے ڈرائیور کے حوالے کر دیتا ہے اور وہ اپنی گاڑی دھو کر کراچی کا چہرہ گندا کرتا رہتا ہے۔
کراچی میں ٹیکسٹائل کا بھی انتہائی برا حال ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے اس صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ لاکھوں ملازمین کی نوکریاں دائو پر لگی ہیں۔ ہم تو اس موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے جب ٹیکسٹائل انڈسٹریاں ڈھاکہ منتقل ہونے کے بعد وہاں کے موسم کا ”نشانہ‘‘ بن کر واپس آنے لگیں۔ جس ملک کے وزیر خزانہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جا رہا ہو‘ وہاں کے صنعت کار کس کی ضمانت پر پیسہ لگائیں گے؟ کراچی کے سرمایہ کار پیسے لے کر ”بھاگ‘‘ رہے ہیں۔ وہ کراچی میں رکنے کو تیار نہیں… تاجروں اور صنعت کاروں نے بھتہ اور ٹارگٹ کلنگ سے تو نجات پائی‘ لیکن سندھ حکومت نے انہیں اپنے ”ٹارگٹ‘‘ پر لے لیا‘ تو وفاق نے ٹیکس کے نام پر ”سرکاری بھتہ خوری‘‘ شروع کرکے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ پاکستان کے اطراف کے ممالک آباد در آباد ہو رہے ہیں… غیر ملکی سرمایہ کاروں سے اگر کہا جائے کہ آپ سرمایہ کاری کریں تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ”پاکستان سے آپ کے جو سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں‘ پہلے آپ ان کو تو روک لیں‘ آپ کا ملک اسی سے ترقی کر جائے گا اور آپ کو کسی غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘۔
کراچی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ”ماسٹر پلان‘‘ نہیں ہے… اگر کوئی پرانا‘ گلا سڑا کاغذ کا ٹکڑا نکل بھی آیا‘ تو اسے دیکھ کر آپ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ کراچی کا ”ماسٹر پلان‘‘ ہے… نہ ندیاں ہیں‘ نہ برساتی نالے‘ نہ سڑکیں ہیں اور نہ ہی پارک… کراچی کو کسی پلان کے ذریعے جب آگے ہی نہیں بڑھایا گیا تو ”ماسٹر پلان‘‘ کہاں سے آئے گا؟… کبھی کسی نے کراچی کے دکھ‘ کرب اور زیادتیوں کا ”اجتماعی واویلا‘‘ نہیں کیا۔ کاش!! ہمارے حکمران اتنی ہی عقل رکھتے کہ جب گوالا دیکھتا ہے کہ اس کا جانور کم دودھ دے رہا ہے تو وہ فکرمند ہو جاتا ہے‘ اور ڈاکٹر کا فون نمبر نکال لیتا ہے… پھر جب زیادہ مایوس ہوتا ہے تو قصاب کا نمبر بھی نکال لیتا ہے… لیکن کراچی کے ”گوالوں‘‘ نے تو قصابوں کے نمبر ”ڈائل پیڈ‘‘ پر ہی رکھے ہوئے ہیں… ہمارے حکمران کراچی سے گھٹتی ہوئی ٹیکس کی آمدنی اور بے روزگاری سے ذرا برابر بھی فکرمند نہیں ہو رہے… ایسا لگتا ہے کہ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی تباہی کی پروا بھی نہیں… بجلی کا وزیر کراچی پر ہی ”بجلی‘‘ گراتا ہے… خزانے کا وزیر ”ٹیکسوں‘‘ کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا… صنعت و تجارت کا وزیر نمائشوں میں تصویری نمائش کرکے چلا جاتا ہے… کوئی کراچی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کو تیار نہیں… یہاں تک کہ کراچی کا کچرا بھی ہم چینی کمپنی کے ذریعے اٹھانے کا پلان بنائے بیٹھے ہیں۔ ہم ٹھیکیداروں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سندھ کے حکمران کسی دن سندھ حکومت ہی ”ٹھیکے‘‘ پر دے کر سکون سے دبئی اور لندن میں جا کر بیٹھ جائیں۔