کرپشن کی لوک داستانیں….ظفر محمود
یہ 1989ء کا واقعہ ہے، میں ان دنوں سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ چھٹی کا دن تھا۔ گھر کے دفتر میں وہ کاغذات پڑھ رہا تھا جن پر عام دنوں کی مصروفیت میں غور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ کھڑکی سے باہر، دسمبر کی چمکیلی دھوپ میں ایک گاڑی گھر کے اندر داخل ہوتے دکھائی دی۔ دفتر کے سامنے رکی تو ایک بارہ تیرہ سال کا نوجوان لڑکا نیچے اترا۔ میں اُسے پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا، مگر یاد آگیا۔ اُس کے والد مضافاتی علاقے سے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ اگلے روز سیالکوٹ میں پاکستان اور ہندوستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ شروع ہونا تھا۔ اُنہوں نے صبح مجھے فون کیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے اور اُس کے لاہور سے آئے ہوئے دوستوں کو کرکٹ میچ دکھانا چاہتے تھے۔
نو عمر مہمان کمرے میں آیا اور بااخلاق انداز میں مصافحہ کر کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ اسٹیڈیم میں داخلے کے پاس چند منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ اُس نے خوش دلی سے میرا شکریہ ادا کیا۔ اُس کے لڑکپن میں خود اعتمادی تھی اور آنکھوں میں معصومانہ تجسّس۔ اُس کی متبسم نگاہیں بڑی دلچسپی سے گردوپیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ وہ ڈویژنل پبلک اسکول ماڈل ٹائون، لاہور میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ وہ دیوار پر لٹکے اُن چوبی تختوں کو غور سے پڑھنے
لگا جن پر گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے تمام ڈپٹی کمشنرز کا نام اور عرصۂ تعیناتی تحریر تھا۔ وہ مجھے سرکاری ذمہ داریوں کے بارے میں سوال پوچھنے لگا۔ کئی دفعہ نوجوان طالب علموں سے واسطہ پڑتا تھا جو سرکاری نوکری کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر سوال پوچھتے تھے۔ اُن کی خواہش ہوتی کہ مقابلے کے امتحان میں حصہ لیں۔ اُس کے پُرشوق انداز کو دیکھتے ہوئے، میں بڑے تحمل اور آسودگی سے جواب دیتا رہا۔ اُس نے پوچھا کہ سیالکوٹ سے پہلے میں کن شہروں میں، کن عہدوں پر تعینات رہا ہوں۔ اُس وقت میری ملازمت کو چودہ سال گزر چکے تھے۔ میں نے اِس سوال کا جواب بھی خوش دلی سے دیا۔ اِس کے بعد اُس نے جو سوال پوچھا، میں اُس کے لئے تیار نہ تھا۔ سُن کر سناٹے میں آگیا۔ کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔ بولنے کے لئے لب کھولے تو آواز نہ نکلی۔ اُس نے انتہائی روانی میں سادگی سے پوچھا تھا ’’انکل! پیسے بنانے کے لئے کونسا شہر اور عہدہ سب سے اچھا تھا؟‘‘ میری نظریں اُس کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ غصہ، دماغ پر حاوی ہونے لگا۔ ممکن تھا میں اُسے ایک زناٹے دار تھپڑ مار کر گھر سے نکال دیتا، مگر اُس کے چہرے پر نہ کوئی شیطانیت نظر آئی اور نہ کوئی ایسا تاثر کہ منفی جذبات مجھ پر حاوی ہوتے۔ وہاں صرف معصومانہ تجسّس نظر آ رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اُسے احساس بھی نہیں تھا کہ اس نے مجھے راشی ہونے کی گالی دی ہے۔ شاید اُسے میری اندرونی کیفیت کا احساس بھی نہیں تھا۔
لڑکے کو واپس بھیج کر اُس کے والد کو فون کیا۔ وہ فوراً آئے۔ بڑے خلوص سے اپنے بیٹے کی حرکت پر معافی مانگی۔ جاتے وقت وعدہ لیا کہ میں اِس واقعے کا ذکر اُن کے حوالے سے نہیں کروں گا۔ وہ تو چلے گئے مگر وقت گزارنا مشکل ہو گیا۔ خیالات کی شورش نے پریشان کئے رکھا۔ بار بار خیال آتا کہ سرکاری ملازمت کے بارے میں ایک نوجوان طالب علم کیوں ایسے خیالات رکھتا ہے۔ جی چاہا سارا واقعہ درج کرکے، اپنے مہربان چیف سیکرٹری، جناب انور زاہد کو استعفیٰ لکھ بھیجوں۔ اِسی ذہنی کشمکش کے دوران مجھے ایک کتاب یاد آئی، جسے میں کئی سال پہلے پڑھ چکا تھا۔ تین جلدوں پر مشتمل اِس ضخیم کتاب میں ایک باب کا تعلق آج کے واقعہ سے تھا۔
مزید کچھ لکھنے سے پہلے اِس کتاب اور اُس کے مصنف کا قارئین سے تعارف کروا دوں۔ Gunnar Myrdal (گنار میورڈل) اِس کتاب کے مصنف کا تعلق سویڈن سے تھا۔ وہ ماہرِ معاشیات ہونے کے علاوہ ماہرِ عمرانیات بھی تھے۔ اُنہوں نے امریکہ میں نسلی امتیاز کے معاشی پہلو پر تحقیق کی اور معاشیات کے کتابی علم کو مختلف ملکوں کے سماجی ڈھانچے سے منسلک کر کے پرکھا۔ اُن کا جائزہ بہت منفرد تھا۔ معاشیات کے نصابی اصولوں کو، معاشرتی رویوں کی بھٹی میں پگھلایا گیا تو اچھوتے نتائج برآمد ہوئے۔ اِسی بنیاد پر وہ معاشی ترقی کے لئے مختلف ممالک کو ایک نیا اور مخصوص لائحہ عمل ترتیب دینے کی ترغیب دیتے رہے۔ اِس میدان میں اُنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں وہ جنوبی ایشیائی ملکوں کی معاشی بدحالی کا جائزہ لینے کے لئے بہت سال دہلی میں مقیم رہے۔ ذیلی دفتر پاکستان میں بھی تھا۔ کمال اظفر اُن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے معاشیات کر چکے تھے، اِس تحقیق میں معاونت کرتے رہے۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد تین جلدوں پر مشتمل، کتاب (Asian Drama) ’’ایشین ڈراما‘‘ منظر عام پر آئی۔ کتاب کا ذیلی عنوان اُنہوں نے (An Inquiry into the Poverty of Nations) ’’ملکوں کی معاشی پسماندگی کا کھوج‘‘، رکھا۔ اِس کھوج میں اُنہوں نے جائزہ لیا کہ معاشی ترقی پر سماجی رویے کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔
اُس رات اِس کتاب کا وہ باب دوبارہ پڑھا جس سے آج کے واقعہ کی وضاحت ہوتی تھی۔ اُس نوجوان طالب علم کا سادگی سے پوچھا ہوا سوال، ہمارے معاشرے کے اُس پہلو کا عکاس تھا جسے گنار میورڈل نے (Folklore of Corruption) ’’رشوت کی لوک داستان‘‘ کا عنوان دیا تھا۔ Folklore یا لوک داستان کا مطلب لغت میں کچھ یوں درج ہے۔(The traditional beliefs, customs, and stories of a community, passed through the generations by word of mouth.)’’روایتی اعتقاد کی حامل داستانیں جو سینہ بہ سینہ آئندہ نسلوں کو منتقل ہوں‘‘۔ گنار میورڈل کے مطابق رشوت اور بدعنوانی سے متعلق کہانیاں ہمارے معاشرے میں بہت آسانی سے لوک داستان کی حیثیت حاصل کر لیتی ہیں۔ مصنف نے اپنی تحقیق میں، اسی سماجی رحجان پر خاص توجہ دی۔ لوک داستان میں ضروری نہیں ہوتا کہ انار کلی، ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کی کہانی درست ہو۔
اہم ہے کہ لوگ اُن پر یقین کرتے ہوں۔ لوک داستانیں عوام میں مقبول ہو کر اُن کے اجتماعی شعور میں مستقل جگہ بنا لیتی ہیں۔ گنار میورڈل نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
Folklore of corruption leads people to think that anybody in a position of power is likely to exploit it in the interest of himself, his family or any other social group to which he has a feeling of loyality.
’’ان لوک داستانوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی سوچ یہ تسلیم کرتی ہے کہ ہر صاحب اقتدار، اختیار کو اپنی ذات، خاندان یا اُس گروہ کے مفاد میں استعمال کرتا ہے جس کے ساتھ اُس کی ذہنی وابستگی ہو۔‘‘
یہ باب دوبارہ پڑھا تو دُکھ ہوا کہ آٹھویں جماعت کا نو عمر طالب علم جسے عملی زندگی کا تجربہ نہیں، کیوں رشوت کی لوک داستانوں کو اپنے ذہن میں مستقل جگہ دے چکا ہے۔ یہ لوک داستانیں کیسے جنم لیتی ہیں، فروغ پاتی ہیں اور کس طرح، معاشی ترقی کا راستہ روکتی ہیں؟ اِس کا ذکر آئندہ کالم میں کیا جائے گا۔