کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری…ھارون الرشید
بنی اسرائیل کو جہاد کا حکم ہوا ، تو انہوں نے کہا :”موسیٰ ؑ لڑے اور اس کا رب‘‘۔ ہم کہتے ہیں ، فوج جانے اور عدلیہ ، ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، ہمیں تو بس من و سلویٰ چاہئے ۔ وہ بھی با افراط !
ہیجان ہے اور پیہم بڑھتا ہوا ہیجان ۔ الزام تراشی ہے اور مسلسل الزام تراشی۔ گالم گلوچ ہے اور بے دریغ گالم گلوچ ۔ کذب وریا کا ایک طوفان ہے اور ہمہ جہت ہے۔ مشہور و معروف لوگوں میں سے کوئی اگر بہتان سے بچ نکلا ہے‘ تو غنیمت ہے۔ اللہ کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔دو نفل ہر روز اسے پڑھنے چاہئیں۔
یہ سب اپنی جگہ ۔بہت سے لوگوں کو لیکن جمہوریت لاحق ہوگئی ہے اور اس طرح لاحق کہ کوئی طبیب ان کا علاج نہیں کر سکتا۔ دو چار دس نہیں، ہزاروں اور لاکھوں نہیں ، کروڑوں انسان اس بیماری میں مبتلا ہیں، ” جمہوریت ، جمہوریت ، جمہوریت ‘‘ ۔ وہ چیختے ہیں ” الیکشن ، الیکشن ، الیکشن ‘‘ ۔ ہر حال میں 25 جولائی کو ۔ الیکشن کے بغیر 26 جولائی کا سورج اگر طلوع ہوا توگویا بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ دریا سوکھ جائیں گے۔ سارے کا سارا پانی زہریلا ہو جائے گا۔ 1940 ء کے عشرے والے بنگال کی طرح قحط کی سی حالت ہو جائے گی۔ ”ہٹو بچو ، دوڑو ، بھاگو ، ا لیکشن ، الیکشن ، الیکشن ‘‘۔ یہ پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے۔ ایک دن کی مہلت بھی نون لیگ دینے کو تیار نہیں ۔امیدوں کے اس طوفان میں ، جو قوم نے ان سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے اعلان کیا ہے کہ چند دن کے التوا کی بھی اجازت نہ دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ قوم کو سب سے زیادہ ا عتماد انہی پر ہے ۔ظاہر ہے کہ ہر حال میں اس اعتماد پر انہیں پورا اترنا ہے۔ فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور کیوں پیچھے رہتے۔ ڈنکے کی چوٹ ، انہوں نے کہا کہ زبانِ طعن عساکر کے خلاف دراز نہ کی جائے۔ ہم التوا کے حق میں نہیں۔
کبھی کبھی ایک پوری قوم کسی اچھی یا بری وبا کا شکار ہو جاتی ہے ۔ تب بہترین دماغ بھی، اسی رخ پہ بہنے لگتے ہیں۔ وہ درد مند شاعر احمد مشتاق کہاں ہیں ؟ وہی بتا سکتے ہیں کہ کس کیفیت میں یہ شعر انہوں نے کہا تھا۔
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
عجیب الیکشن ہے صاحب، قومی خزانہ جس میں برباد ہے، اور پارٹیوں کی حالت غیر ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو ، استحکام ہر گز نہیں آئے گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔الیکشن کے بعد بھی کئی ماہ تک یہی ہنگامی حالت رہے گی۔
25 جولائی میں کتنے دن باقی ہیں ؟ رمضان المبارک میں انتخابی مہم نہیں چل سکتی۔ سورج سوا نیز ے پہ ہے۔ لاہور کی ٹونٹیوں میں پانی اتنا ہی گرم ہے ، جتنا کہ حجاز میں ہوا کرتا ہے۔ دوسروں کی طرح ، سیاسی کارکن بھی روزے سے ہوتے ہیں ۔ ہلکی پھلکی مصروفیت الگ ۔ جلسے ، جلوس کا اہتمام وہ نہیں کرسکتے۔ شیخ رشید کبھی نہ تھکنے والے آدمی ہیں۔ کبھی تیس افطاریوں کا انتظام کرتے اور اخبار میں اس کا اشتہار دیا کرتے تھے ۔ ”تیس روزے ، تیس افطاریاں ‘‘۔
اب کسی امیدوار کو یہ مشورہ دیں وہ تو حیرت سے تکتا ہے۔ اس کے چہرے پہ یہ لکھا ہوتا ہے ۔ ”حواس سلامت ہیں ، جناب کے ‘‘۔ کل لاہور میں افطار کا وقت سات بج کر پانچ منٹ پہ تھا۔ کتنا ہی کوئی چوکس اور مستعد ہو افطاری اور پھر کھانے سے نمٹتے آٹھ بج جاتے ہیں بلکہ ساڑھے آٹھ۔ تراویح کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ مجتہد حضرات کچھ ہی کہیں ، دلائل کا خواہ پہاڑ کھڑا کر دیں۔ تراویح پڑھنے کے عادی تراویح پڑھیں گے۔ اس وقت ان سے بات کرنے کی کوشش ، اہلِ ایمان کے غیظ و عضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ روزہ خور کم ہیں، مگر اتنے گئے گزرے وہ بھی نہیں کہ افطار کے ثواب سے محروم رہیں۔
عامی تو کیا اچھے بھلے لیڈروں کی حالت خراب ہے۔ کل پرسوں کسی نے بتایا کہ اصولی طور پر نون اور قاف لیگ میں اتحاد کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ جاتی امرا میں چوہدری شجاعت حسین اور میاں نوازشریف کی ملاقات طے تھی۔ راوی کے بقول چوہدری پرویز الٰہی اور دوسری طرف خواجہ آصف وغیرہ رکاوٹ ہوگئے ۔ ریحام خان کی کتاب کا وگرنہ ذکر تک نہ ہوتا۔اس اتحاد کی حمایت یا مخالفت میں اہل اسلام شمشیر بکف ہوتے۔
2013 ء والے تجربے کی بنا پر ، جب کوئی حلیف نہ مل سکا تھا ،جماعت اسلامی توشتابی سے فارغ ہوئی، جوپہلا رشتہ ملا ، اس نے قبول کر لیا۔ نتیجہ کچھ بھی ہو مگر وقت ضائع ہونے سے بچ گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے جناب فاروق ستار الیکشن کے بائیکاٹ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ الاّ یہ کہ الطاف بھائی یا اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو پہنچے۔ ساری عمر بیساکھیوں پہ جس نے بسر کی ہو، اس سے لمبی دوڑ میں شرکت کا مطالبہ کیا بے دردی اور سفاکی نہیں ؟
رمضان المبارک کے بعد عید الفطر ۔ تیس دن کی مشقت کے بعد یہ آرام کے دن ہیں، کم از کم پانچ سات ایّام۔ اکثریت ان دنوں اسی قدر ہاتھ پائوں ہلاتی ہے ، جتنی کہ مجبوری ہو ۔سرکاری کیا ، غیر سرکاری دفاتر میں بھی حاضری کم ہو جاتی ہے۔ عید کے ایام میں ٹائون اور گردو نواح کی آبادیوں میں اخبار بھی گا ہے میسر نہیں ہوتا۔ انتخابی مہم کے لئے کتنے دن باقی بچے؟ زیادہ سے زیادہ پانچ ہفتے۔ 35 ، 36 دن ۔ اس اثناء میں سورج آگ برساتا رہے گا یا مینہ برستا رہے گا۔ شدید حبس یا مون سون کی طوفانی بارش۔ ایسے میں اس آرام پسند معاشرے میں انتخابی مہم کیا خاک چلے گی؟
نتیجہ ، ہیجان اور منفی حربے۔ فائدہ اگر کچھ ہوگا تو کچی آبادیوں کے ووٹ بیچنے والوں کو ۔ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز۔ یوں بھی الیکشن کون سے منصفانہ ہوتے ہیں۔ دیہات میں کم از کم دو تین کروڑ اور شہروں میں بیس پچیس کروڑ روپے صرف ہوتے ہیں ۔ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ٹک ٹک الیکشن کمیشن دیکھتا رہتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک گھٹیا حربہ سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں۔ کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔ کسی کو شرم نہیں آتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اہلِ حکم ان دنوں میں آئینہ تک نہیں دیکھتے۔ اب کی بار تو وہ تماشا ہوگا کہ پچھلے انتخاب سہانے لگیں گے۔
حقائق ابھی چند دن تک سامنے آئیں گے۔ اپنے حلقے کو سوئی گیس فراہم کرنے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزارتِ خزانہ سے سات ارب روپے مانگتے رہے۔ ڈیڑھ دو ماہ ہوتا ہے، اویس لغاری نے بجلی کے بارے میں صورتحال واضح کرنے کی کوشش کی تو ڈانٹ پڑی۔ انہیں بتایا گیا کہ پٹرول جلائو ، جتنا چاہئے جلائو، کچھ بھی کرو، لوڈشیڈنگ کم از کم ہونی چاہئے، برائے نام۔ 45 دن میں زائد پٹرول پہ پینتالیس ارب روپے اٹھ گئے۔ خادم پنجاب نے ا علان کیا اور بار بار کہا کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں بجلی مہیا رہے گی، پھر وہ ذمہ دار نہ ہوں گے۔ یہی اس کا پس منظر تھا ۔ اس ملک میں کوئی بھی کسی چیز کا ذمہ دار نہیں۔ کوئی صوبائی نہ مرکزی حکومت ، کوئی سیاسی پارٹی اور نہ کوئی رہنما۔بنی اسرائیل کو جہاد کا حکم ہوا ، تو انہوں نے کہا :”موسیٰ ؑ لڑے اور اس کا رب ‘‘ ۔ہم کہتے ہیں ، فوج جانے اور عدلیہ ، ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، ہمیں تو بس من و سلویٰ چاہئے ۔ وہ بھی با افراط !