پچھلے 51 روز سے کشمیر کا ہر دن کربلا اور شام، شام غریباں کا کربناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ برھان وانی کی شہادت کے فوراً بعد اس تحریک کی شدت اور عوام کے غم و غصہ کے اندازہ لگاتے ہوئے میں نے اپنے کالم میں جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا‘ مگر لگتا ہے کہ کئی ذی شعور افراد نے بھی ہوش کے دورازے بند کر دیے ہیں۔ دو معاملات قابل توجہ ہیں۔ پہلا‘ سرینگر میں حریت کانفرنس کے راہنمائوں کا بھارت کے سول سوسائٹی گروپ، جس میں منی شنکر آئیر، پریم شنکر جھائ، ونود شرما، ٹریک ٹو میں سرگرم ایئر مارشل کپل کاک وغیرہ شامل تھے، سے ملنے سے انکار اور دوسرا مظفر آباد میں موجود حریت قائدین کا لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بند کرنے کا مطالبہ۔ شاید مظفر آباد کے قائدین کے مطالبہ کی بھنک ابھی تک بھارتی حکومت کو نہیں پڑی، ورنہ وہ پہلی فرصت میں ہی یہ مطالبہ تسلیم کرکے اس کو کشمیریوں کے کھاتے میں ڈال دیتی۔ پاکستان میں مقیم حریت قائدین نے مظفر آباد میں دومیل چوک پر احتجاجی دھرنا دے کر مظفر آباد سرینگر تجارت بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی دلیل بھی عجیب تھی کہ چونکہ وادی کشمیر میں خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے، ادویات ناپید ہیں، اس لیے ایسے حالات میں آر پار تجارت قبول نہیں۔ لگتا ہے کہ جس طرح کشمیری پنڈتوں کے ایک مفاد پرست گروپ نے نئی دہلی کے پاور سٹرکچرمیں غلط اور ناکافی معلومات کی ایک طرح سے بمباری کروا کے، پچھلے 60 سالوں سے بھارتی حکام کو ایک ناکام، لاحاصل اور غلط کشمیر پالیسی اپنانے پر مجبور کر رکھا ہے‘ اسی طرح کا رول اب ایک گروپ اسلام آباد میں بھی ادا کر رہا ہے۔ وہ پاکستانی حکام کو زمینی حقائق کے بجائے عجیب و غریب مشوروں سے نواز رہا ہے۔ کہاں کشمیری عوام کا یہ جذبہ کہ ریاست میں کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل بڑھے، کہاں اسلام آباد اور مظفر آباد میں موجود کچھ قائدین آر پار تجارت اور راہداری کے سہارے زندہ موہوم سی امید کا چراغ بھی گل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس آر پار تجارت کے حوالے سے ایک نہایت ہی ایک اہم واقعہ پچھلے سال میرے علم میں آیا۔ دہلی میں میرے ایک ساتھی کے والد کشمیر کے ایک نامور تھوک تاجر ہیں۔ سرینگر کی پارمپورہ منڈی میں ان کا گودام ہے۔ ایک بار ان کے پاس مظفر آباد سے آر پار تجارت کے ذریعے پستوں کی کھیپ پہنچی۔ ڈبوں کو کھولنے پر معلوم ہوا کہ پستے سڑے ہوئے تھے اور ان میں کیڑے رینگ رہے تھے۔ ان سبھی پیٹیوں کو انہوں نے گودام کے پچھواڑے میں ڈالا تاکہ ان کو ٹھکانے لگایا جائے۔ اگلے روز کشمیری تاجروں کی ایک جمعیت ان کے پاس پہنچی اور پاکستانی پستے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے بتایا کہ پستوں کی کھیپ سڑی ہوئی ہے اور وہ اس کو پھینکنے جا رہے ہیں۔ تاجروں نے پستے دیکھنے کی خواہش ظار کی۔ تھوک تاجر اور ان کا ملازم جب گودام میں پستے دکھا رہا تھا تو ایک تاجر نے ان پستوں پر چمٹے ایک کیڑے کو اٹھا کر چوما اور کہا: ”یہ تو پاکستانی کیڑا ہے‘‘ اور پھر آڑھتی سے درخواست کی کہ وہ دام لگائیں‘ وہ سبھی پیٹیاں خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ کئی اور تاجر جمع ہو گئے اور ان پیٹیوں کی بولیاں لگا کر ان کا گودام خالی کر دیا۔ اس طرح کے ان گنت جذباتی واقعات اس آر پار تجارت اور راہداری سے جڑے ہوئے ہیں جن سے کسی بھی صورت میں صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس راہداری کو بند کرنے کا مطالبہ کرنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر یہ معمولی کھڑکی قربانیوں کے نتیجے میں کھلی ہے۔ 2008ء میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن اور جموں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے رد عمل میں کشمیری عوام اور تاجروں نے پارمپورہ اور سوپور کی منڈی سے ٹرکوں میں سوار ہو کر اوڑی کی
طرف مارچ کیا تھا۔ یہ راہداری حریت کے سینئر قائد شیخ عبدالعزیز اور 64 دیگر افراد کے لہو اور قربانیوں کی دین ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چکوٹھی کی طرف شیخ صاحب کی یاد میں کوئی پوانٹ موسوم کیا جاتا‘ کوئی کتبہ لگایا جاتا‘ جس میں شیخ صاحب اور اس لائن کو کھولنے کے مطالبے کو لے کر شہید ہونے والے افراد کے نام کندہ کروائے جاتے، تاکہ اگلی نسل تاریخ سے نابلد نہ رہے۔ مظفر آباد کے قائدیں تو لگتا ہے کہ شاید 8 سال بعد ہی یہ تاریخ بھول گئے ہیں۔ یہ
راہداری اور بغیر پاسپورٹ اور ویزا کا سفر بھارت کے ‘سٹیٹس کو‘ یعنی ‘جوں کا توں‘ موقف کی نفی کرتی ہے۔ اس پوزیشن (سٹیٹس کو) کی اعتماد سازی کے جس بھی قدم سے نفی ہو سکے کرنا چاہئے۔ ہر اس اقدام‘ جس سے کشمیر کے دونوں طرف سماجی روابط بحال ہو سکیں اور پاکستان کو رسائی مل سکے، کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے 8 سالوں سے یہ تجارت دونوں حکومتوں کی سرد مہری کا شکار ہے۔ یہ شاید دنیا بھر میں واحد تجارت ہو گی جہاں کرنسی کے بدلے اور بینکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زمانہ قدیم کا بارٹر سسٹم یعنی چیز کے بدلے چیز لاگو ہے۔ سیبوں کی پیٹی کے عوض پشاوری چپلیں اور پستوں کے بدلے کشمیری شالیں۔ اسی طرح
کے بارٹر سسٹم پر یہ تجارت سانس لے رہی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 8 سالوں میں 37 ارب روپے کی تجارت ہوئی۔ اوڑی سے مظفر آباد 31567 ٹرک آئے، جبکہ مظفر آباد سے 2881 ٹرک اس لائن کو کراس کرکے اوڑی پہنچے۔ اس ٹریڈ اور راہداری کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اوڑی میں بھارتی فوج کے جمائو کی وجہ سے اس تجارت میں کئی اڑچنیں حائل ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اس کا نظام اور سینٹر اوڑی سے سوپور منتقل کیا جاتا۔ سوپور ویسے بھی ریاست کا عموماً اور جنوبی کشمیر کا خصوصاً تجارتی مرکز رہا ہے۔ مگر پچھلے 25 سالوں میں تحریک سے وابستگی کی وجہ سے عتاب کا شکار ہے۔ شاید اسی بہانے سے اس علاقہ میں تجارتی سرگرمیا ں دوبارہ شروع ہو جائیں۔
فی الحال بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اسلام آباد کی بات چیت کی تازہ پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے مزید سخت موقف اختیار کیا اور آزاد کشمیر کو فوری طور خالی کرانے پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ وہ صرف اور صرف پاکستان کی سرزمین پر ”بھارت مخالف دہشت گردی‘‘ کے معاملے پر مذاکرات کرنے پر آمادہ ہے۔ بلوچستان اور دیگر غیر متعلقہ امور کو کشمیر کے ساتھ نتھی کرنے سے لگتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انتہائی کشیدگی (Total estalaction)کی حد تک لے جا کر ہی بعد میں معمول پر لانے کی کوشش کرے گا۔ 1998ء میں اٹل بہاری واجپائی نے بھی اسی طرح کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلے ایٹمی دھماکہ کرکے معاملات انتہائی کشیدگی تک لینے کے بعد ہی امن مساعی کی طرف پیش رفت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہاں ایک اہم ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان، کراچی کے حالیہ واقعات اور بیرون
ملک مقیم گلگت اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد کو غیر مقیم بھارتیوں کے سالانہ اجلاس میں علانیہ مدعو کرنے جیسے اقدامات اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اگلے ہفتے سرینگر جانے والا کل جماعتی وفد کسی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہا تو نئی دہلی مزید اقدامات کر سکتا ہے۔ کشمیر کی موجودہ حکومت اور بھارت نواز جماعتوں کی کوشش یہ رہے گی کہ اس آل پارٹی ڈیلیگشن کو قائل کیا جائے کہ کشمیر کو بھارتی سیاست میں فٹ بال نہ بنایا جائے۔ اور کشمیر پر حکومت کی کسی بھی لچک یا پاکستان کے ساتھ بات چیت کو موضوع سیاست نہ بنایا جائے‘ جس سے مودی اور ان کی پارٹی خاصی خائف ہے۔ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور کشمیر میں گڈگورننس ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا سیدھا اثر کشمیر کی سیاست اور زمینی صورتحال پر ہوتا ہے، اور گورننس و ترقی کے لئے بنیادی شرط امن و امان ہے۔ کشمیر نوجوانوں اور حریت کی آواز کو تو ممکن ہے بھارتی حکومت دشمنوں کی آواز سمجھتی ہو، مگر اس کو سرینگر میں بھارت نواز جماعتوں کی گزارشات بھی سننا گوارا نہیں۔ بھارت کو اگر ایک مہان دیش بننے کا خواب پورا کرنا ہے، تو اس کی ابتدا اور انتہا یہی ہے کہ کشمیر کا منصفانہ حل ڈھونڈنے میں اسے تاخیر نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں اسے جنوبی ایشیا کو غیر ضروری کشیدگی سے بچانے کے لئے مصالحانہ رول ادا کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل ہوا تو بھارت قوموں کی برادری میں ایک باوقار ملک کی صورت میں اپنی تعمیر و ترقی کا جھنڈا لہرا سکے گا۔ کشمیری عوام بھارت یا کسی مذہب کے دشمن اور حریف نہیں بلکہ وہ اپنی سیاسی تقدیر کو آزادانہ طور سنوارنے کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔