کلثوم نواز کی بیماری اور عیادت….امیر حمزہ
اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ”اَلْمُعِیْد‘‘ہے۔ امام شہابُ الدین زہری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے زندگی کا آغاز فرمایا پھر وہ انہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر وہ پہلی حالت پر لا کر انہیں زندگی عطا فرمائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کا نام ”اَلْمُعِیْد‘‘بھی ہے ‘ یعنی پہلی حالت پر واپس لانے والا وہی ہے‘‘۔ قارئین کرام! اسی سے عربی میں ”اَلْعِیَادَۃ‘‘ کا لفظ ہے جس کا معنی انگریزی میں کلینک ہے۔ اردو میں اس کا معنی نیکی اور نرمی ہے۔ یعنی ایسی جگہ مراد ہے جہاں کسی مریض کے ساتھ نرمی اور نیکی کا سلوک کیا جائے کہ وہ پہلی حالت پر آ جائے۔ بیماری سے صحت کی حالت میں واپس آ جائے۔ اسی سے ”عیادت‘‘ کا لفظ ہے یعنی جو شخص کسی بیمار کے پاس جائے تو اس کے ساتھ نرمی اور نیکی یہ ہے کہ بیماری میں اس کے ساتھ تعاون کرے۔ وہ مستحق ہے تو مالی مدد کرے۔ خون کی ضرورت ہے تو خون کا بندوبست کر دے۔ دیگر ضروریات پوری کر دے۔ کچھ نہیں کر سکتا تو دعائیں دے دے۔ حوصلے اور صبر کی تلقین کر دے۔ بیماری پر اجروثواب کی نوید سنا دے۔ اسی کا نام عیادت اور بیمار پرسی ہے۔ امام جمال الدین اپنی شہرئہ آفاق عربی ڈکشنری میں ”طِب‘‘ کا معنی جسمانی اور روحانی علاج بتاتے ہیں۔ یعنی ڈاکٹر وہ ہے جو دوا کے ساتھ ساتھ مریض کی روح کو بھی سکون پہنچائے کیونکہ ڈاکٹری یعنی ”طِب‘‘ کا معنی نرمی ہے اور ڈاکٹر یعنی طبیب کا معنی امام جمال الدین ”رفیق‘‘ بیان کرتے ہیں اور حضرت محمد کریمﷺ کی حدیث میں ”رِفْق‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ”رِفْق‘‘ یعنی نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ یوں ”مَطَبْ‘‘ یعنی کلینک وہ جگہ ہے جہاں مریض کے ساتھ نرمی اور محبت کی جائے۔ چنانچہ مریض کی صحت یابی کے لئے ڈاکٹر یعنی طبیب کا بھی ایک اہم کردار ہے اور بیمار پرسی کرنے والے کا بھی ایک کردار ہے۔ آج کے اپنے کالم میں میں بیمار پرسی یعنی عیادت کرنے والے کے اسلامی کردار کو نمایاں کرنے جا رہا ہوں اور محترم میاں نوازشریف صاحب کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے لئے اپنے اس کالم کے ذریعہ عیادت کرنے جا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت اور تندرستی سے نوازے۔ میرا یہ کالم ہر بیمار مرد اور عورت کی عیادت کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بیمار کو تندرستی عطا فرمائے۔ (آمین)
حضرت ابوہریرہؓ آگاہ کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایاجو شخص کسی بیمار کی بیمار پرسی کرتا ہے تو اس کے لئے آسمان سے آواز دینے والا (ایک فرشتہ) آواز دے کر تیماردار کو مخاطب کر کے کہتا ہے‘ عمدہ انسان ہو‘ تمہارا مریض کے پاس چل کر آنا بھی بہت عمدہ عمل ہے۔ اے تیمارداری کرنے والے! تمہیں کیا بتلائوں‘ تم نے جنت میں ایک محل حاصل کر لیا ہے۔ (ابن ماجہ، 1443 حسن) کیا بات ہے تیمار دار کے اجر و ثواب کی کہ آسمان سے فرشتہ جنت کے محل کی خوش خبری سناتا ہے تو زمین پر جو فرشتے ہیں ان کا منظر حضرت علیؓ بتلاتے ہیں‘ حضرت حسنؓ بیمار ہوگئے تو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ عیادت کو آئے‘ اس موقع پر حضرت علیؓ نے اللہ کے رسولؐ کا فرمان سناتے ہوئے کہا کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا:”جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے چلتا ہے تو وہ مریض کے پاس بیٹھنے تک جنت کے باغ میںچلتا رہتا ہے‘ جب بیٹھ جاتا ہے تو ”غَمَرَتْہُ الرَّحَمْۃُ‘‘ اسے اللہ کی رحمت اپنے سائے میں لے لیتی ہے۔ اگر وہ صبح کو عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے شام تک مغفرت و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ شام کو عیادت کے لیے نکلتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں‘‘۔ [ أبو داوٗد : ۳۰۹۹]
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :”جو شخص بیمار کی بیمار پرسی کے لیے چلتاہے تو جوں جوں آگے بڑھتا ہے بیٹھنے تک اللہ کی رحمت میں گھستا چلا جاتا ہے اور جب بیمار کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو پھر تو اللہ کی رحمت میں غوطے لگانا شروع کر دیتا ہے‘‘۔ [مسند أحمد ۱۴۳۱۰]
اللہ کے رسولؐ حضرت سعد بن معاذؓ‘ جو انصار کے سردار تھے اور غزوۂ خندق کے غازی تھے اور زخمی تھے‘ میرے حضورؐ ان کی عیادت کو بار بار تشریف لے جاتے تھے۔ [بخاري : ۴۶۳] قارئین کرام! تیمارداری جسے بیمار پرسی اور عیادت کہا جاتا ہے‘ اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ حکم دیتے ہیں :” بیمار کی عیادت کرتے رہا کرو‘‘
جی ہاں! میرے حضورؐکا حکم کیوں ہے‘ اس کا سبب بھی میرے حضورؐنے بتلا دیا‘ فرمایا:
”(عیادت کرنا) تم لوگوں کو آخرت یاد دلائے گا‘‘[ بخاري : ۵۱۸ ]
اے تندرست لوگو! بیمار کی عیادت سے آخرت یاد آگئی تو جنت مل گئی‘ ذرا ملاحظہ کرو فرمان میرے حضورؐ کا‘ ارشاد فرمایا : ”پانچ اعمال ایسے ہیںکہ جس شخص نے ان پانچ اعمال کو ایک دن میں کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جنت والوں میں لکھ دیا‘‘۔پہلا عمل:بیمار کی عیادت۔دوسرا عمل: جنازے میں حاضری۔تیسرا عمل: اس دن کا روزہ۔ چوتھا عمل: جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلنا۔ پانچواں عمل: ایک غلام آزاد کرنا۔ [الصحیحۃ : ۱۰۲۳ ]
جی ہاں! ایک ہی دن میںمذکورہ پانچ اعمال کرنے کا خوبصورت اتفاق ہوجائے تو ایسے شخص کا نام اللہ تعالیٰ جنت کے باسیوں میں لکھ دیں گے۔ یاد رہے! ان نیک اعمال میںپہلا عمل بیمار کی عیادت ہے۔حضرت سہل بن حنیفؒ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بتلاتے ہیں:” اللہ کے رسولؐ کمزور ( یعنی مسکین) مسلمانوں کے پاس جاتے‘ ان سے ملتے‘ ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے اور ان کے جنازوں میں شامل ہوتے‘‘۔ [الصحیحۃ : ۲۱۱۲ ] اللہ اللہ! ہمارے حضورؐ مدینے کے عام کمزور مسلمانوںکے گھروں میں تشریف لے جاتے اور غریب مسلمانوں کی عیادت فرماتے۔ حضرت سائبؓ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیںکہ میری خالہ جان مجھے اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کرنے لگیں: ”اے اللہ کے رسولﷺ! یہ میری بہن کا بیٹا (بھانجا) ہے اور بیمار ہو گیا ہے‘‘۔ اب اللہ کے رسولؐ نے میرے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور میرے لیے برکتوں بھری دعا کی۔ [بخاري : ۵۶۷۰ ]
قارئین کرام! اس سے معلوم ہوا کہ بچے کو کسی نیک آدمی اور کتاب و سنت کے عالم کے پاس لے جانا سنت ہے، وہ سر پر شفقت کا ہاتھ بھی پھیر دے‘ دعا بھی کر دے‘ شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ حضورؐ بچوں سے بے حد شفقت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ بتلاتی ہیں کہ گھر میں جب کوئی بیمار ہوتا تو اللہ کے رسولؐ اس پر قرآن کی آخری دونوں سورتیں پڑھ کر دم کیا کرتے۔ مزید بتلاتی ہیںکہ اللہ کے رسولؐ خود بھی بیمار ہوئے تو یہی دونوں سورتیں پڑھتے اور اپنے آپ پر پھونک مار کر دم کرتے۔ پھر جب آپؐ زیادہ ہی بیمار ہوئے تو میں سورتیں پڑھتی اور آپؐ ہی کا ہاتھ مبارک آپؐ پر پھیر دیتی: ”کیونکہ آپؐ کا ہاتھ مبارک میرے ہاتھ کی نسبت برکت کے اعتبار سے کہیںبڑھ کر تھا‘‘۔ [مسلم : ۲۱۹۲ ]
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکیے اور وہ ہاتھ مریض پر پھیر دیجیے۔ خود بیمار ہو جائیں تو اپنے آپ پر دم بھی کیجیے اور ہاتھ بھی پھیر لیجیے۔ قرآن کی برکت تو واضح ہے مگر دم کرنے والا مخلص‘ اللہ کا نیک بندہ ہو تو اللہ تعالیٰ برکت کو دو چند کر دیتے ہیں۔ برکتیں تو اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ برکتوں کا نزول اللہ ہی کی طرف سے آسمانوں سے ہوتا ہے ؛لہٰذا برکتوں کے حصول کے لیے دم کرتے اور ہاتھ پھیرتے وقت اللہ کی طرف ہی دھیان رکھیں اور توجہ مرکوز رکھیں۔ جس قدر اللہ کی طرف توجہ اور اس پر توکل ہوگا اسی قدر برکت میں اضافہ ہو گا۔ حضرت عائشہؓ بتلاتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی انسان بیمار ہوتا تو اللہ کے رسولؐ اس پر اپنا دایاں ہاتھ مبارک پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے:
أَذْہِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ
وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ ، لَا شِفَائَ
إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا [ مسلم : ۲۱۹۱ ]
”لوگوں کے پالنہار مولا! تکلیف اور بیماری کو اڑا لے جا۔ تندرستی عطا فرما دے کہ آپ ہی تو شفا دینے والے ہیں۔ آپ رب کریم کے درسے ہی شفا ملے گی‘ کہیں اور سے شفا دستیاب نہیں۔ مولا جی! ایسی شفا عطا فرمائیے کہ وہ شفا بیماری کا نام و نشان مٹا دے‘‘۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا : ”جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جانب دو فرشتے بھیج دیتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں کہ دیکھنا یہ جو مریض ہے‘ جب لوگ اس کی عیادت کو آتے ہیں تو یہ ان سے کیا کہتا ہے۔ جب وہ تیمار دار اس سے پوچھنا شروع کریں‘ تو اگر تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی‘ شکر کیا اور اس کی شان بیان کر دی تو یہ فرشتے مریض کے منہ سے نکلے جملوں کو لے کر اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں‘باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں مگر وہ فرشتوں سے سن کر فرماتے ہیں: ”میرے بندے کا مجھ پر حق ہوگیا کہ اگر میں نے اسے فوت کر لیا تو اسے جنت میں داخل کر دوں گا اور اگر میں نے اسے شفایاب کر دیا تو میں اس کے گوشت کو بہتر گوشت سے بدل دوں گا‘ اس کے خون کو اچھے خون کے ساتھ تبدیل کردوں گا اوراس کی برائیاں اس سے دور ہٹا دوں گا‘‘۔ [ الصحیحۃ: ۲۷۲] قارئین کرام! امام حاکمؒ اپنی کتاب ”مستدرک ‘‘ میں یہ الفاظ لائے ہیں کہ بیمار بندے نے اپنی عیادت کرنے والوں کے سامنے میرا شکوہ نہیں کیا۔ سبحان اللہ! صبر کرنے والے کی کس قدر بلند شان ہے‘ کس قدر بلند مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
میڈیکل سائنس نے آج بتلایا کہ گوشت کے خلیات نئے اور صحت مند خلیات سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہی معاملہ خون کا ہے۔ جی ہاں! ہمارے حضورنبی کریم ؐ نے اللہ کے حکم سے چودہ سو سال قبل بتلا دیا کہ گوشت اچھے گوشت سے تبدیل ہوتا ہے اور خون بھی تبدیل ہوتا ہے۔ آخر پر محترمہ کلثوم نواز اور وطن عزیز کے تمام بیماروں کے لئے اللہ کے حضور دعا ہے کہ مولا کریم سب کو تندرستی عطا فرمائیں۔ اور وہ لوگ جو بیماروں کے پاس ہیں‘ عیادت کے لئے جاتے ہیں‘ نیک جذبے سے ڈاکٹر اور نرسیں خدمت کرتے ہیں‘ ان کے لئے بیمار انسانیت کی خدمت بہت بڑا اجر ہے۔ رشتہ داروں کی ملاقات سے مریض جلد صحت یاب ہوتا ہے۔ اسی لئے عیادت بہت بڑی نیکی ہے۔
محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کو جو لوگ سیاسی تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ انہیں اپنی کم ظرفی اور سخت دلی پرغور کرنا چاہئے۔
(نوٹ: 22جون 2018ء کے کالم میں ایک جملہ اس طرح پڑھا جائے ”ننھے حسین نواسے ہونے کی وجہ سے بھی حضورؐ کے جسم مبارک کا حصہ تھے‘‘)