منتخب کردہ کالم

کمال اور انیس کی باتیں (سچ یہ ہے) الیاس چاکر

مصطفی کمال‘ کمال کی شخصیت ہیں۔ اُن سے مل کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ آپ ایک ایسے شخص سے مل رہے ہیں جس نے ایک ایسی پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچا دی جو نظم و ضبط میں انتہائی مقبول ترین پاکستان کی واحد جماعت تھی۔ انہوں نے اُس پارٹی کو للکارا جس کے کارکن ایک‘ دو‘ تین کی گنتی سنتے ہی خاموش ہو جاتے تھے۔ انہوں نے اُس پارٹی میں دراڑ ڈالی جس کی دیواریں تین دہائیوں تک ”بم پروف‘‘ تصور کی جاتی تھیں۔ جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا‘ وہاں مصطفی کمال نے پنجہ مار دیا۔ اور انہوں نے ایسی بالنگ کی کہ ایم کیو ایم کی ایک ایک کرکے کئی وکٹیں گرتی چلی گئیں۔ اب انہوں نے ایم کیو ایم حقیقی کی وکٹوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
مصطفی کمال نے انیس قائم خانی کی طاقت کو ساتھ ملا کر خود کو ”ملٹی پاور‘‘ بنایا اور ایک ایسا قلعہ تعمیر کیا کہ ”دشمن کیمپ‘‘ کا جو بھی ”باغی‘‘ اس کے اندر آیا محفوظ ہو گیا۔ مصطفی کمال وہ واحد شخصیت تھی جس نے ساکت پانی میں پہلا پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کیا تھا۔ بارش کی پہلی بوند سب سے اہم ہوتی ہے اس کے بعد تو لوگوں نے سیلاب بھی آتے دیکھے اور خود کو بچانے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہوتی۔
مصطفی کمال خود آئے یا انہیں ”لانچ‘‘ کیا گیا یہ ایک ”ملین ڈالر راز‘‘ ہے جسے کھلنے میں شاید کافی وقت لگ جائے‘ لیکن وہ ”ہوم ورک‘‘ کرکے آئے تھے۔ ہر کاروباری ہفتے کے پہلے روز (پیر کو) ان کی پریس کانفرنس نے ایک نیا ٹرینڈ قائم کیا اور پورے ہفتے وکٹ گرنے کی خبر ٹاک شوز کی زینت بنی رہتی تھی۔ ماضی کے دیگر ”باغیوں‘‘ جیسی غلطی نہ کرنے کا عزم بھی تھا۔ اور مقابلہ کرنے کا پلان بھی تیار تھا‘ لیکن ہاتھ میں کوئی گن نہیں تھی اور نہ ہی ”مسلح جتھوں کا پروٹوکول‘‘۔ ایک ہی شخص تھا جو جواں ہمت اور نہتّا تھا لیکن اس نے 22 اگست سے بہت پہلے ہی نہ صرف بازی پلٹ دی تھی‘ بلکہ کراچی کی سیاست کو ایک رُخ اور حوصلہ بھی دیا۔ بغیر اسلحہ مسلح افراد سے مقابلہ کرنے کا عزم پورے شہر کو تقریباً غیر مسلح کر گیا۔ ایک سال ہو گیا۔ اب نہ کسی گلی سے کوئی حملہ آور نکل رہا ہے اور نہ ہی کوئی مسخ شدہ لاش۔ بوریاں بھی اب انہی کاموں کے لئے استعمال ہو رہی ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی ہیں۔
چند روز قبل مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے اخباری ایڈیٹروں کو اپنی ”سیاسی بیٹھک‘‘ ”پاکستان ہائوس‘‘ مدعو کیا۔ خوبصورت صوفوں پر بیٹھ کر شاندار میز پر کھانا کھانے کی تیاری تھی۔ کھانا انواع و اقسام کا تو نہیں تھا لیکن ایک خوبی ضرور تھی کہ کھانے کو ٹیبلوں تک پہنچانے کا انتظام کرائے کے ویٹرز نہیں بلکہ اسمبلیوں کے سابق ارکان اور اعلیٰ عہدیداران محبت اور اپنائیت کے ساتھ انجام دے رہے تھے۔ یہ محبت کا بے پناہ اظہار تھا جس نے ان دنوں کی یاد دلا دی جب تحریک کے بانی کی دعوتوں میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔
مختصر تحریر میں مصطفی کمال کی تمام باتوں اور پہلوئوں کا احاطہ ممکن نہیں لیکن بہرحال ایک بڑی تبدیلی کو تنہائی میں سمجھنے کے موقع نے ہمارے دماغ کی ”ٹنکی‘‘ کو سوالات سے بھر دیا۔ گفتگو مختلف حصوں میں ہوئی اور ہر حصہ صحافت کی زبان میں ”ایکسکلیوسو‘‘ EXCLUSIVE اور بریکنگ نیوز تھا۔ کچھ باتیں ”آف دی ریکارڈ‘‘ بھی تھیں۔ جب انیس قائم خانی (صدر پی ایس پی) سے پوچھا گیا کہ آپ میدان میں اترے تو کیا آپ کو جان کا خطرہ نہیں تھا؟ تو انیس قائم خانی نے مسکراتے ہوئے کہا ”جب ہم واپس لوٹ کر آئے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ ہم تمام لوگوں کو جانتے تھے اس لئے ہم نے اُن کے سوئچ ”آف‘‘ کر دیئے تھے۔ اور آج کل وہ خود بھی اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ ہم نے بہت سوچ سمجھ کر اس کوچے میں قدم رکھا تھا‘‘۔
انیس قائم خانی‘ جو پی ایس پی کے ”تھنکر‘‘ سمجھے جاتے ہیں‘ ایم کیو ایم کی تنظیم کو بنانے اور کنٹرول کرنے کے سب سے بڑے ”ایکسپرٹ‘‘ تھے اور انہوں نے بغاوت کا اعلان پریس کانفرنس میں کرنے کے بعد جس کو بھی فون کیا وہ ان کے ساتھ آن ملا یا پھر فون آف کرکے زیر زمین چلا گیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آخر آپ سے ایسا کون سا خوف تھا تو جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ سننے کو ملا کہ ”کراچی سے سکھر تک پوری تنظیم میں نے بنائی۔ پردے کے پیچھے رہ کر تمام امور میں ہی انجام دے رہا تھا۔ ہر شخص ہم سے رابطے میں تھا۔ اس لئے ہمیں لوگوں کو گلے لگانے اور اپنے ساتھ ملانے میں بہت آسانی ہوئی۔ ہم نے ابتدائی میٹنگز میں طے کیا کہ اگر ہم طاقت کو طاقت سے مٹانے آتے تو ہم میں اور ”اُن‘‘ میں کیا فرق رہ جاتا۔ ہم نے پیار سے بات کی اور انہیں اپنا پیارا بنا لیا۔ جب ہم پہلی بار میرپور خاص پہنچے تو ہم پر خواتین سے حملہ کروایا گیا۔ ٹماٹر‘ گندے انڈے اور پتھر پھینکے گئے۔ اور اس کی بڑی بڑی خبریں شائع کروائی گئیں تاکہ پورے ملک میں یہ تاثر دیا جائے کہ لوگوں نے ہمیں مسترد کر دیا ہے‘ لیکن ہم نے اُن کے بزرگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے شکوہ کرنے کے بجائے انہیں ساتھ آنے کی دعوت دی۔ لوگ حیران رہ گئے کہ یہ کون سے لوگ ہیں جو گالی اور انڈے کے جواب میں دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ہمارے اس خلوص کا بہت اچھا نتیجہ نکلا۔ اور جب ہم دوسری بار میرپورخاص گئے تو منظر ہی کچھ اور تھا‘ اتنا شاندار استقبال کیا گیا کہ ایک کلومیٹر کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اور گندے انڈے برسانے والے ہاتھ پھول برسا رہے تھے۔ حیدر آباد میں ہمارا جلسہ ایسا تھا کہ ایم کیو ایم کے ابتدائی جلسوں کی یاد تازہ ہو گئی اور حال ہی میں ایک ”پاکستانی تنظیم‘‘ کا جلسہ بھی سب نے دیکھا وہ تو پکا قلعہ گرائونڈ تک بھرنے میں ناکام رہے۔ انیس قائم خانی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کارکنوں کی 60 سے 70 فیصد تعداد ہمارے ساتھ ہے ”اُن‘‘ کے پاس پارلیمانی طاقت‘ دو میئر‘ دو ڈپٹی میئرز اور بلدیاتی کونسلر ضرور ہیں لیکن ہتھیار وہی چلانے میں اچھا ہوتا ہے جو آپ کو چلانا آتا ہو ورنہ وہ وزن کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
مصطفی کمال نے اس موقع پر جس طرح بات کی اس سے لگتا تھا کہ وہ ”انڈر کنسٹرکشن لیڈر‘‘ ہیں، ان میں بُردباری اور عاجزی آ گئی ہے۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک ایسا تیر چلایا جو کراچی کی ضرورت بھی ہے اور اس کے بغیر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی پارٹی طاقت حاصل نہیں کر سکتی۔ ہم نے مصطفی کمال کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کی تمام پارٹیوں میں لیڈرشپ کی ”پوجا‘‘ کی جاتی ہے۔ نمبر ون لیڈر کی ”مِتھ‘‘ بنائی جاتی ہے۔ لیڈر کو ”بھگوان‘‘ کا درجہ دے دیا جاتا ہے‘ وہ کہتا ہے دن تو دن اور رات تو رات ہوتی ہے‘ سندھ میں جب جئے سندھ کا نعرہ لگتا تھا تو مہاجر خود کو خالی ہاتھ محسوس کرتا تھا‘ پھر جب جئے بھٹو کا نعرہ لگا اور بھٹو کے پاس حکومت بھی آ گئی‘ تو مہاجر خوف زدہ اور احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ بالآخر 1970ء کا انتظار 1986ء میں ختم ہوا‘ جب جئے مہاجر اور جئے الطاف کا نعرہ بلند ہوا۔ ”مظلوموں کا ساتھی‘‘ کا پارٹی ترانہ بنایا گیا اور اس گانے کی دھن پر چھوٹے‘ بڑے‘ بچے اور بوڑھے سبھی مہاجر ناچنے اور جھومنے لگے۔ اس نعرے اور نسخے نے مہاجروں کو اتنا متحد کیا کہ کراچی سے باہر کا کوئی شخص اس نعرے کے ”نشے‘‘ اور نغمے کے ”خمار‘‘ کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔
ہماری اس بات پر انیس قائم خانی نے مصطفی کمال سے مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے مصطفی کمال کی لیڈرشپ اسی طرح بنائی تو وہ 1986ء کی غلطی دہرانے والی بات ہو گی۔ لیڈر کو اونچائی پر لے جانا آسان ہے لیکن بعد میں وہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ 1992ء تک بانی تحریک ہماری سنتے تھے، اس کے بعد ہمیں لگا کہ اب وہ بات نہیں رہی۔ ہمارے مشورے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال کر ”ڈسٹ بن‘‘ میں ڈال دیئے جاتے تھے۔ اب ہمیں صرف احکامات ملتے تھے‘ ہر شخص اس جال سے نکلنا چاہتا تھا‘ لیکن کوئی اجتماعی فورس نہ بن سکی‘ ہم لوگ گروپ کی شکل میں لندن بھی گئے اور لیڈرشپ کو سمجھایا۔ تین مہینے حالات بہتر رہے اور پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہمیں صرف احکامات دیئے جاتے تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ پھر وہی معاملات سامنے آ گئے ہیں اور پھر ہمیں صرف حکم آتا تھا کہ ”یہ کرو اور یہ نہ کرو‘‘۔ اس طرح ہمارے اور ان کے راستے جدا ہو گئے، ہمیں دودھ نے بہت جلایا ہے اس لئے اب چھاچھ بھی سوچ کی پھونکوں سے پی رہے ہیں اور ایسی لیڈرشپ کبھی نہیں بنائیں گے جو ”ون مین شو‘‘ بن جائے اور بعد میں”مائنس‘‘ کا فارمولا ہی اس بیماری کا حل تجویز کیا جائے۔