منتخب کردہ کالم

کمان کی تبدیلی کی ایک اور کہانی: رئوف کلاسرا

سال پہلے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ”انتقالِ کمان‘‘ کی تقریب جنہوں نے دیکھی‘ انہیں یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ چھپائے نہ چھپتی تھی۔ ڈکٹیٹر فوجی وردی کو اپنی دوسری کھال(سکینڈ سکن) قرار دیتا۔ تب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی پہلی برطرفی (9مارچ2007ء) کے خلاف ملک گیر تحریک جاری تھی۔
تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار پر تو چیف جسٹس سمیت‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے 60کے لگ بھگ جج صاحبان کو گھروں میں بٹھا دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات کہ نظر بند ججوں نے اپنی برطرفی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آئینی طور پر وہی اصل جج ہیں‘ باقی تو ”ڈوگر کورٹس‘‘ ہیں۔)
12اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے خلاف ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر کو تین سال کی مدت دی تھی‘ جو اکتوبر 2002ء میں مکمل ہو جاتی۔ لیکن اقتدار کا اپنا نشہ ہوتا ہے(جنرل صاحب تو دوسرے نشے کے بغیر بھی نہ رہتے‘ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں) برادر بزرگ عبدالقادر حسن کے بقول‘ مارشل لاء ایک ایسی سواری ہے‘ جس پر چڑھنا آسان اور اترنابہت مشکل ہے۔ 2002ء کے بعد اگلے پانچ سال کے لیے اپنی صدارت کا ”جواز ‘‘ اس نے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے حاصل کر لیا‘ بعد میں پارلیمنٹ نے جس کی توثیق کر دی۔ قاف لیگ تو ڈکٹیٹر کی اپنی تخلیق تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے بھی دسمبر 2004ء میں وردی اتار دینے کے وعدۂ فردا پر 17ویں ترمیم کی حمایت کر دی تھی۔ ؎
متاعِ دینِ و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے تھے جو اس گناہ میں شریک نہ ہوئے۔ اس سے پہلے ڈکٹیٹر نے ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم منتخب کرانے کے لیے پیپلز پارٹی میں نقب لگا کرکوئی درجن بھر”پیٹر یاٹس‘‘ ڈھونڈ نکالے تھے (اس کے باوجود مرنجاں مرنج جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو پائے۔)
ریفرنڈم والی پانچ سالہ صدارت اکتوبر 2007ء میں مکمل ہو رہی تھی اور ڈکٹیٹر اگلے پانچ سال کے لیے بھی صدارت کا امیدوار تھا۔ وردی کے ساتھ صدارتی انتخاب کو قاضی صاحب(مرحوم) اور ڈاکٹر مبشر حسن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا لیکن ان کی پٹیشنز اس بنا پر مسترد کر دی گئیں کہ وہ اس میں متاثرہ فریق نہ تھے۔ اس پر وکلاء نے جسٹس وجیہہ الدین کو صدارتی امیدوار بنا کر‘ وردی میں انتخاب کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ کمانڈو کے خلاف یہ وکلاء کا کمانڈو ایکشن تھا۔
چیف جسٹس جولائی میں بحال ہو گئے تھے اور اب ”وردی اتارو‘‘ ‘ وکلاء تحریک کا نعرہ بن گیا تھا جس پر ڈکٹیٹر نے کہا‘ وردی کیسے اتار دوں‘ یہ تو میری ” سیکنڈ سکن‘‘ ہے۔ اگلے روز وکلاء کے جلوس میں بعض ستم ظریف چُھریاں لے آئے۔(سیکنڈ سکن کے نہلے پر وکلاء کا دہلا۔)
اب ڈکٹیٹر صدارتی انتخاب کے بعد وردی اتارنے کا وعدہ کر رہا تھا۔ عدالتی فیصلے سے بچنے کے لیے 3نومبر کا پی سی او(جس کے تحت آزاد منش میڈیا کا گلا بھی دبا دیا گیا) ایک الگ کہانی ہے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنا ڈکٹیٹر کی مجبوری بن گیا تھا۔ کہ اب فرار کی کوئی راہ نہ رہی تھی‘ چنانچہ 29نومبر 2007کو اس نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ کمان جنرل کیانی کے سپرد کر دی‘ 17ویں ترمیم کے باوجود اب وہ عملاً بے دست و پا ہو گیا تھا۔ بے نظیر واپس آئیں تو میاں صاحب کا راستہ بھی نہ روکا جا سکا۔ جنرل کیانی نے الیکشن میں ڈکٹیٹر کی پروردہ قاف لیگ کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ عام انتخابات کے بعد اب ڈکٹیٹر کی صدارت منتخب قیادت کے رحم و کرم پر تھی۔میاں صاحب کا دبائو بڑھتا گیا اور زرداری صاحب بھی ڈکٹیٹر سے نجات پر آمادہ ہو گئے۔ پارلیمنٹ کے ہاتھوں مواخذے کی رسوائی سے بچنے کے لیے اس نے 18اگست کو رضا کارانہ استعفیٰ دے دیا۔ نشری تقریر میں اس کی وہی کیفیت تھی جو 29نومبر 2007ء کو جنرل کیانی کو”کمانڈ سٹک ‘‘ پیش کرتے ہوئے تھی‘ کانپتے ہونٹ‘ ہاتھ لرزیدہ۔
باوردی ڈکٹیٹر کو اپنی ”توسیع‘‘ کے لیے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا‘ البتہ قواعد و ضوابط کے لحاظ سے یہ معاملہ خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ میر علی احمد تالپور‘ صدر ضیاء الحق کے وزیر دفاع تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی رسول بخش تالپور ‘ بھٹو صاحب کے دور میں سندھ کے گورنر رہے۔ ولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو علی احمد تالپور بھی زیر عتاب آ گئے۔ رسول بخش کا کہنا تھا کہ وہ اگلے روز”کوفہ‘‘ چھوڑ جائیں گے اور اگلے دن وہ گورنر ہائوس سے روانہ ہوگئے۔ دونوں بھائی نہایت عالم فاضل‘ کتابوں کے رسیا اور اس کے ساتھ بذلہ سنج بھی۔ ضیاء دور میں‘ علی احمد تالپور کہا کرتے‘ میں جنرل کا”باس‘‘ بھی ہوں اور Subordinateبھی۔”باس‘‘ اس طرح کہ آرمی چیف کے طور پر وہ وزارتِ دفاع کے ماتحت ہیں‘ ان کی ایکسٹینشن کی درخواست میرے پاس آتی ہے اور ”سبارڈینیٹ‘‘ اس طرح ہوں کہ وہ صدر ہیں اور میں ان کی کابینہ میں وزیر دفاع۔ مشرف کو تو حالات کے دبائو نے وردی اتارنے پر مجبور کر دیا تھا‘ ضیاء الحق نے 1985ء کے انتخابات کے دس ماہ بعد مارشل لاء تو اٹھا لیا تھا لیکن وردی زیبِ تن رکھی اور 17اگست 1988ء کو وردی کے ساتھ اگلے جہان روانہ ہو گئے۔
آرمی چیف بننے کے بعد جنرل کیانی کا فرمانِ امروز (Order of the day)سیاست کے گند سے فوج کو نکالنے کا تھا‘ انہوں نے سول محکموں سے فوجی افسروں کی واپسی کی حتمی تاریخ بھی دے دی۔ فوج کے وقار کی بحالی کے لیے 2008ء کو ”سپاہی کا سال‘‘ قرار دیا۔فروری2008ء کے عام انتخابات میں انہوں نے فوج اور اس کی ایجنسیوں کو غیر جانبدار رکھا(جس پر مشرف آج تک انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں) فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کا عہد انہوں نے کس حد تک نبھایا؟ کیری لوگر بل کی فوج کی طرف سے مخالفت‘ اور میمو گیٹ میں بھی انہوں نے حکومت کی لائن قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور پھر ایک شب‘ وزیر اعظم گیلانی اچانک ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئے‘ وہ آرمی چیف کی فل ٹرم ایکسٹینشن کا اعلان کر رہے تھے۔ جناب زرداری کے حالیہ بیان کے مطابق کیانی کو توسیع دے کر انہوں نے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو محفوظ کر لیا۔ یہ دہشت گردی کے عروج کا دور تھا اور کیانی نے سوات آپریشن کے علاوہ جنوبی وزیرستان کی 6ایجنسیوں کو بھی کلیئر کروایا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے متعلق ان کے اپنے تحفظات تھے۔
کیانی کے جانشین اپنی تین سالہ مُدت مکمل کر کے لاہور واپس آ گئے۔ اب ان کا عہد تجزیوں اور تبصروں کا موضوع ہو گا۔ اب دو سال انہیں خاموشی کے ساتھ گزارنے ہیں۔ کوئی انٹرویو دینا ہے‘ نہ کسی تقریب سے خطاب کرنا ہے۔ بے پناہ توانائی سے بھر پور ریٹائرڈ جنرل کے لیے نچلا بیٹھنا شاید آسان نہ ہو۔ وہ آئے روز ٹی وی سکرینوں اور اخباروں کے صفحہ‘ اول کی ”لیڈ‘‘ بنتے تھے۔ خاموشی کے ان دو برسوں کے بعد وہ ‘عملی زندگی‘‘ میں سیاست کا رخ کریں گے؟ امید ہے‘ وہ اس حوالے سے سابق جرنیلوں کے تجربے کو سامنے رکھیں گے۔