منتخب کردہ کالم

کنٹینروں کی ’’ کامیاب سیاست‘‘…؟؟ الیاس شاکر

کسی کے پاس شکاری کتا تھاجو ساتھ والے گائوں کے کچھ مخالفین اٹھا کر لے گئے حالات کافی کشیدہ ہوگئے۔ کتے کے مالک نے دوست احباب اور اسلحہ اکھٹا کیا اور ساتھ والے گائوں پر دھاوا بول دیا۔ مخالفین کو جب یہ لگا کہ اب ان کے پاس کتا واپس کئے بنا کوئی چارہ نہیں رہا توانہوں نے اسے مار کر لاش باہر پھینک دی۔ کتے کا مالک اور اس کے ساتھی کتے کی لاش لے کر فاتحانہ طور پر گائوں واپس آگئے اور فتح کاجشن منانے لگے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا کتا واپس لے آئے ہیں چاہے مردہ ہی سہی، وہاں دوسراگروپ بھی جیت کی خوشیاں مناتا رہا کہ کچھ بھی ہو ہم نے زندہ تو واپس نہیں کیا۔جیت کا جشن دونوں جانب منایا جاتا رہا اور کسی کی شکست نہیں ہوئی، ایسا ہی کچھ ہمیں 2نومبر کوتحریک انصاف اور نواز حکومت کے درمیان بھی نظر آیادونوں جانب سے خوشیاں منائی جارہی ہیں اور کوئی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اگر کنٹینر نہ ہوتے تو آج پاکستان کی سیاست ہی کچھ اور ہوتی نہ ”ڈیڈ اینڈ‘‘ہوتا اور نہ ہی یوٹرن۔ تحریک انصاف کے مخالفین عمران خان کو ”یوٹرن‘‘لینے والا سیاستدان قرار دے رہے ہیں،جبکہ بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوٹرن وہی لیتا ہے جو راستہ طے کررہا ہو، کسی جانب چل رہا ہو ،اگر کوئی اپنی جگہ سے ہی نہ ہلے تو وہ یوٹرن لینے والی جگہ تک ہی نہیں پہنچ سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی تبدیلی آئی ہے،جتنی بڑی تعداد میں کنٹینرز لگائے گئے، اس کے بعد تو سامنے اگر کسی ملک کی فوج بھی ہوتی تو تھوڑی بہت مزاحمت کا سامنا اسے بھی کرنا پڑتا جبکہ یہاں تو تحریک انصاف کے نہتے کارکن تھے جنہیں کنٹینروں کے ساتھ ”ایکسپائرڈشیلز‘‘کا سامنا تھا ”ایکسپائرڈ ادویات‘‘ میں تو پاکستان آگے ہے ہی اب ”خالص شیلنگ‘‘بھی اس ملک میں میسر نہیں ہے۔ ایک دانشور نے تبصرہ کیا کہ اگراتنے کنٹینرز ذوالفقار علی بھٹو کو میسر ہوتے تو ان کی حکومت آج تک موجود ہوتی۔
عمران خان پر قسمت کی دیوی کی مہربانی تو دیکھئے،ایک دن بھی بنی گالا سے نیچے نہیں اترے۔ شیخ رشید شکوے کرتے رہ گئے۔ دوصوبوں کا تصادم بھی ہوتے ہوتے رہ گیا، دھرنے سے انکار کردیا،لاک ڈائون سے بھی پیچھے ہٹ گئے ،سپریم کورٹ کے بلاوے پر ہی یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا۔ چند ٹی وی چینلز بھی سوگ میں ڈوب گئے،ہزاروں کارکن بھی مایوس ہوگئے۔ حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن عوام کے ٹھاٹھے مارتے سمند ر نے اسلام آباد پہنچ کر ایک بار پھر عمران خان کوسرخرو کردیا۔اس کی دوبڑی وجوہ سمجھ میں آتی ہیںیا تو عمران خان کی شخصیت کرشمہ ساز ہے یا پھر عوام کے پاس عمران خان کی صورت میں آخری امید ہے جو اس ملک کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلاسکے ۔
سینئر سیاسی ورکروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پلاننگ درست نہیں تھی۔ حکمت عملی کا فقدان واضح نظر آیا،رائے ونڈ جلسے میں عوام کا سمندر دیکھ کر کپتان جذباتی ہوگئے اور ”لاک ڈائون‘‘کا اعلان کردیااور پھر اس کی تیاریاں بھی زور وشور سے شروع کردی گئیں،حالانکہ یہ کوئی جلسہ نہیں تھا،اس لئے حکومت کو بھر پور موقع اوروقت ملا اوراس عرصے میں انہوں نے کنٹینروں کی بھرپورپکڑ دھکڑ کی اور ایک کے بعد دوسری سڑک بند کرتے چلے گئے۔ہڑتال کرنے والے بھی ایک دن پہلے اعلان کرتے ہیں اور”غائب‘‘ ہوجاتے ہیں۔ دکانیں بند رکھنے کا پیغام بھی خفیہ طریقے سے پہنچایا جاتا ہے۔ عمران خان کھلم کھلا اسلام آباد بند کرنے کا اعلان مسلسل کرتے رہے،جس سے آئینی و قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں اور عدالت کو مداخلت کا موقع بھی ملاجتنے لوگ یوم تشکر پر اسلام آبادآئے وہ دھرنے کے لئے بھی پہنچ سکتے تھے اور اتنی بڑی تعدا د میں لوگوں کا پہنچنا ہی اسلام آباد کا ”آٹومیٹک لاک ڈائون‘‘ کرسکتا تھالیکن غلط حکمت عملی کا حکومت کومکمل فائدہ اور عمران خان کو نقصان ہوا۔کپتان کو دوسرا بڑا نقصان بنی گالا سے نیچے نہ اترنے پر ہوا جس وقت ہر سڑک ‘ گلی‘محلے اورموٹر وے پر شیلنگ اور پکڑ دھکڑ کی مہم جاری تھی اس وقت عمران خان اپنی پوری قیادت کے ساتھ بنی گالا میں بیٹھ کرٹی وی چینلز پر یہ مناظر دیکھتے رہے۔ عمران خان سے عمر میں چار سال بڑے اور نواز شریف کے ہم عمر 66سالہ پرویز خٹک جب پولیس کی شیلنگ کا مقابلہ کررہے تھے اس وقت 64سالہ کپتان کو باہر نکلنا چاہیے تھا۔ جب شیخ رشید ”مین آف میچ ‘‘کا اعزا ز اپنے نام کرچکے تھے اس وقت بھی عمران خان کے پاس اچھا موقع تھا کہ بنی گالا سے باہر آجاتے انہیںکم از کم ”اسٹریٹ ایجی ٹیشن‘‘ کا تجربہ تو ہوجاتا لیکن وہ اس باریہ موقع گنوا بیٹھے ۔
عمران خان کے دھرنے سے ہر بار کسی نہ کسی کا فائدہ ضرور ہوتا ہے،اس بارایف سی اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھ گئیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ں میں اضافہ نہیں کیاگیا ، 1992ء کے آنسو گیس شیل ”کام‘‘ میں آگئے، اسلام آباد پولیس کو نئے جوتے‘ نئے ڈنڈے اور ہیلمٹ مل گئے۔ٹی وی چینلز کو کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات نصیب ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی وی چینلز کاپیٹ بھرنے کیلئے مفت نشریات اور اخبارات کو سرکولیشن بھی عمران خان کی بدولت ہی مل سکی۔
سمجھ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقدمے بازی کی ابتدا پہلی فتح ہے۔ یہ مقدمہ دستاویزی شہادتوں کا مقدمہ ہے۔ ایسے مقدموں میں ہار جیت بہت جلد ہوجاتی ہے،اگر نواز شریف کے وکیل ابتدائی ایام میںسپریم کورٹ سے استثنیٰ مانگ لیتے تو پہلے دن ہی عمران خان کی شکست ہوجاتی لیکن ایک معمولی غلطی پورے مقدمے کا رُخ بدل دیتی ہے اور کوئی بھی شخص جیتی ہوئی بازی ہارجاتا ہے۔سپریم کورٹ کی ( جس کو عمران خان نے حکمرانوں کی تلاشی قرار دیا ہے)میں بہرحال ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جب مخالفین کو واضح ثبوت پیش کرنا ہوں گے ۔اگر مخالفین نے پہلے سے تیاری کررکھی ہے تو فیصلہ مثبت آئے گااور اگر تیاری مکمل نہ ہوئی توبہت سوں کو ماتم کرنا پڑے گا۔بہر حال اس مقدمہ بازی کانتیجہ ملکی سیاست کو ہلاکر رکھ دے گا۔اب فریقین کو ”بچائو اور پھنسائو‘‘کے پینترے آزمانے پڑیں گے۔