منتخب کردہ کالم

کوئل زنانہ اور مفت تعلیم ….حسنین جمال

کوئل اپنے پرانے کاموں سے توبہ تائب ہو کے ایک مزار پہ سبیل لگائے بیٹھی تھی۔ ایک بزرگ آئے ، اپنے مرشد کے عرس میں زیارت کو جاتے تھے ، راستے میں سبیل نظر آئی تو ٹھہر گئے ۔ پانی دیکھ کے ارادہ ہوا کہ وہیں تھوڑا آرام کر لیں اور پیاس بجھا لیں، پھر اس کے بعد سفر کریں گے ۔ ابھی انہوں نے پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ساتھ آنے والوں نے انہیں روک دیا۔
چھجو شاہ اگلے وقتوں میں دلی کے ایک مجذوب ہوتے تھے ۔ کوئل ان کے پاس بہت جایا کرتی تھی۔ کوئل خواجہ سرا تھی اور رنگ بہت گہرا تھا تو اس وجہ سے اس کا اصل نام سب کو بھول چکا تھا اور وہ کوئل زنانہ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ ایک دن چھجو شاہ بہت جذب کے عالم میں تھے ، بار بار کہے جا رہے تھے ، مانگ کیا چاہیے ، مانگ کیا چاہیے ، بادشاہ بنا دوں یا اپنا بنا لوں؟ مانگ کیا چاہیے ، بول کیا بننا ہے ؟ کوئل بے چاری ڈری سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ وہ جو ایک دم زمین پر اپنا عصا مار کے کھڑے ہوئے تو کوئل ڈر گئی۔ بھاگ کے دور جا کھڑی ہوئی اور کہا کہ سائیں‘ نہ بادشاہ بننا ہے نہ آپ جیسا بننا ہے ، دعا کر دیں کہ عمر بھر میاں کو رجھایا کروں (تصوف کی اصطلاح، مجازی مطلب اگر لیا جائے تو مرشد کی بات ہو رہی ہے )، میاں مان گئے تو بیڑا پار ہے ۔ چھجو شاہ ہنس پڑے ۔ بولے ، جا مناتی رہ، خدا نے چاہا تو کسی دن مان جائیں گے ۔
تو پہلے سین میں وہ جو بزرگ پانی سے ہاتھ روکے بیٹھے تھے انہیں مریدوں نے کہا کہ سرکار ایک زنانے کی سبیل ہے ۔ خدا جانے کیسے کام کرتا ہو گا، خدا معاف کرے آپ یہاں کا پانی پئیں گے ؟ اب انہوں نے غور کیا تو گانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ آگے جا کر دیکھا تو کوئل تالیاں بجا بجا کے گا رہی تھی۔ انہیں دیکھ کے رک گئی۔ بزرگ کی شکل مجسم کراہت بن چکی تھی۔ بغیر کچھ کہے کوئل سب کچھ سمجھ گئی۔ کہنے لگی ناراض مت ہوں سرکار میں تو اپنے میاں کو رجھا رہی تھی۔ پھر وہ اٹھی اور مٹی کے برتن میں پانی لا کے بزرگ کو پیش کر دیا۔ انہوں نے ہاتھ تک آگے نہیں بڑھایا۔ کوئل نے یقین دلایا کہ حضور نہا دھو کر پاک صاف ہو کے پانی بھرا ہے ، آپ بے شک نہ پئیں، ہاتھ ہی دھو لیجیے ۔ یہ کہنے کے بعد برتن آگے جو کیا ہے تو بزرگ نے چھڑی کی ٹھوکر سے اسے توڑ دیا۔
اب کوئل کی مایوس شکل دیکھتے ہیں تو بہت ترس آتا ہے ، مریدوں کے سامنے اپنی بات بھی رکھنی ہے ، کہا کہ بھئی اسے ایک روپیہ دے دو اور بس اب چلو کہ مرشد کی زیارت کو دیر ہوتی ہے ۔ کوئل نے جب سنا کہ وہاں جاتے ہیں تو کہنے لگی کہ یہ روپیہ میری طرف سے وہاں مزار پہ نذر کر دیجیے گا۔ بندی کو اور کچھ نہیں چاہیے ۔ وہ پھر سے غصے میں آ گئے ، بہت باتیں سنائیں، غلاظت کے طعنے دئیے ، لیکن جب کوئل نے کہا کہ سرکار میں نے تو اس روپے کو چھوا تک نہیں تو انہوں نے وہ روپیہ واپس رکھ لیا۔
اب جو مزار پہ پہنچے ہیں، جا کر بیٹھتے ہیں اور مراقبہ شروع کیا ہے تو مزار کے اندر سے ایک دودھیا سنگ مرمر کا سا ہاتھ نکلتا دکھائی دیتا ہے ، آواز آتی ہے لاؤ ہماری کوئل کی نذر لاؤ۔ عاشق بن کے آتے ہو اور سگ لیلیٰ سے اتنی نفرت؟ کانپ گئے ، نذر کا روپیہ دے کر الٹے قدموں واپس چلے جاتے ہیں۔ کوئل کے پاس پہنچتے ہیں، اسے سب کچھ ایسے کا ایسا بتا دیتے ہیں۔ کوئل نہیں مانتی۔ ہائے ، میاں نے میرا نام لیا سچ؟ ہاں، کوئل تمہارا نام۔ میرا، ایک زنانے کا نام؟ ہاں تمہارا۔ مجھ کتیا کا نام؟ اچھا کیا نام لیا؟ سگ لیلیٰ کہا تھا۔ یہ سننا تھا کہ اپنے پیا کی جوگن بنی کی ایک تان اٹھائی اور پھر کوئل لہرا کے گر گئی۔ اشرف صبوحی نے لکھا کہ کوئل پھر نہیں اٹھی۔
ہماری تاریخ میں زنانوں کے دو ہی کام تھے ، یا حرم سرا کی حفاظت کرنا یا پھر ناچ گانا کر کے ، لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہو کے خیرات مانگنا اور اس پہ زندگی گزار دینا۔ لیکن معاشرے میں ان کی ایکسیپٹنس موجود تھی۔ انہیں جنت کی چڑیاں بھی کہا جاتا تھا۔ لوگ ان کی بددعاؤں سے ڈرتے تھے ۔ ان سے ہمدردی بھی رکھتے تھے ۔ پھر دو کام ہوئے ۔ ایک تو یہ تھا کہ انگریزوں نے آ کر جو قانون بنایا اس میں انہیں وراثت سے محروم کر دیا اور زمین جائیداد کی ملکیت بھی ان سے چھین لی۔ پہلے بادشاہ لوگ خوش ہو کے جاگیریں دیتے تھے تو خواجہ سرا ان سے اپنا خرچہ نکال لیتے تھے یا خاندان کی وراثت میں سے کچھ مل جاتا تھا۔ اب یہ دونوں راستے بند ہوئے تو بھیک مانگنے اور در در بھٹکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ پھر بھٹو دور کے آخر اور ضیا دور کے شروع میں جب شدت پسندی بہت زیادہ بڑھی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ ایلینز ہیں۔ ماں باپ انہیں دیکھ کے نفرت سے بچوں کو چھپانے لگے ۔ آہستہ آہستہ حالت یہ ہو گئی کہ یہ لوگ ناچ گانے کے ساتھ جسم فروشی یا منشیات کے بزنس میں لگ گئے ۔ روٹی بہرحال کمانی تھی اور ٹرانس جینڈرز کو نوکری دینے کا سوچنا بھی حرام تھا۔
نوکری کے لیے ویسے بھی تعلیم چاہیے ہوتی ہے اور علم آج کل پیسوں سے ملتا ہے ۔ تو وہ بندہ جو کسی اندھیری کھولی میں رہتا ہے اور بھیک مانگ کے کھانا کھاتا ہے وہ یونیورسٹی کالج کے خرچے کیسے اٹھائے گا؟ جو کام رنگ رنگ کے فلاحی ادارے نہ کر سکے وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کر دکھایا۔ ابھی چند دن پہلے اعلان ہوا کہ میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک خواجہ سراؤں کے لیے تعلیم مفت ہو گی، یقین نہیں آیا۔ پھر ایک انگریزی اخبار میں تفصیل سے پڑھا، سکون ہو گیا۔ انگریزی اخبار کی خبر ویسے بھی ہمارے یہاں ایمان لانے کے لیے ہوتی ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انہیں کسی کالج میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی، کیوں کہ جائیں گے تو وہاں بھی انہی گھٹیا رویوں کا سامنا ہو گا جو ہر جگہ بھگتنا پڑتے ہیں۔ پھر یہ کہ انہیں کتابیں بھی مفت ملیں گی اور باقاعدہ ان کے گھر پہنچیں گی۔ اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے ؟ وائس چانسلر شاہد صدیقی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اگر ایک خواجہ سرا کی زندگی بھی اس تعلیم سے بن گئی تو یہ صدقہ جاریہ رجسٹر ہو جائے گا۔
ہم کبوتروں کی طرح ہوتے ہیں، پیدا کوئی کرتا ہے پالتا کوئی ہے ۔ میرے بس میں ہوتا تو کچھ بن کے گھر والوں کو دکھا دیتا، اپنے بھائیوں جیسا ہی بن جاتا۔ میرے ہاتھ میں یہ سب نہیں تھا، میں کچھ کر سکتا تو کتا بن کے ہی اپنی ماں کے ساتھ رہ جاتا، اس کے پیروں میں لوٹتا رہتا۔ خواجہ سراؤں پہ بنی ایک پرانی ڈاکومنٹری کا یہ ڈائیلاگ جو چاہت نے بولا تھا، دماغ پہ برسوں نقش رہا۔ آج جب اتنے عرصے بعد یہ خبر پڑھی تو پہلا خیال اسی کا آیا، دل سے دعا نکلی کہ کاش یہ لوگ پڑھ لکھ کر، اچھی نوکریاں حاصل کر کے واپس اپنے گھروں کو جا سکیں۔ شاید گھر والے پیسے کے لالچ میں ہی انہیں گلے لگا لیں۔ لیکن ایک ماں اپنے ٹرانس جینڈر بیٹے کو گھر سے نکال ہی کیسے سکتی ہے ؟ وہ تو مرا ہوا بچہ نہیں بھولتی اور یہ تو زندہ ہوتا ہے ، اور وہ جو بہتر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ، وہ دنیا میں اپنی مخلوق کے ساتھ یہ سارا ظلم کیسے برداشت کرتا ہے ؟ ماؤں کی مائیں جانیں، مولا یونیورسٹی کو بھاگ لگائے رکھے ! سب کا بھلا سب کی خیر!
پس نوشت: اوپن یونیورسٹی کے دو اور کام بہت زبردست ہیں۔ ایک تو یہ قیدیوں کو بھی مفت تعلیم دیتی ہے اور اس طے شدہ کنڈیشن پر کہ جیسے جیسے قیدی کوئی ڈگری مکمل کرتے ہیں ویسے ویسے ان کی سزا میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ دور دراز کے دیہات میں جو بیٹیاں گھر بٹھا دی جاتی ہیں، علامہ اقبال یونیورسٹی علم کی لالٹین اٹھائے وہاں بھی پہنچ جاتی ہے ۔ ان کی دہلیز تک سب کتابیں پہنچائی جاتی ہیں اور گھر بیٹھے پڑھائی میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔