گزشتہ کئی عشروں پر پھیلی ہوئی صحافتی زندگی میں لاتعداد کانفرنسوں، سیمیناروں، جلسوں اور اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا، لیکن بلوچستان یونیورسٹی اور ”ڈیووٹ‘‘نامی ایک این جی او کے زیرِ انتظام جو دو روزہ قومی سیمینار کوئٹہ میں منعقد ہوا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور کمانڈر سدرن کمان لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کی بھرپور سرپرستی میں اس کا انعقاد ممکن ہوا تھا۔ ہر روز اس کے تین سیشن ہوئے، جن میں یونیورسٹی اساتذہ ، میڈیا اور اہل سیاست کے نمائندوں نے ”بلوچستان میں امن اور خوش حالی کے امکانات‘‘ پر متعین سوالوں کے جوابات دیئے۔ سامعین سینکڑوں میں تھے اور ان سب کا تعلق بھی انہی شعبوں سے تھا، جن سے مقررین کا انتخاب کیا گیا تھا۔ مقررین اور سامعین نے جس انہماک کا مظاہرہ کیا، وہ بھی دیدنی تھا، لیکن وزیراعلیٰ اور کمانڈر سدرن کمان جس طرح جم کر بیٹھے رہے، وہ ایک ایسی بات تھی جس کا مشاہدہ اس سے پہلے کسی سیمینار میں نہیںہوا۔
لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض تو دوسرے دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آمد کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے غیر حاضر ہوئے لیکن نواب زہری اس طرح بیٹھے رہے، جیسے انہیں گوند سے چپکا دیا گیا ہو۔ انہوں نے ایک ایک لفظ سنا اور جہاں مناسب سمجھا وہاں دخل بھی دیا۔ سامعین کو بھی مقررین سے سوالات کرنے کے لئے وقت دیا گیا، باتیں کھل کر ہوئیں اور ہر ایک نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ کسی رو رعایت کے بغیر ہر شخص، ہر شخص کے بارے میں بات کر سکتا تھا لیکن شخصی حوالوں سے نہیں، قومی کردار کے حوالے سے۔ شاید ہی کوئی شخص یہاں سے خالی ہاتھ اٹھا ہو، ہر ایک کی معلومات میں اضافہ ہوا تھا اور ہر ایک کو سوچنے اور غور کرنے کے لئے کئی نکات میسر آ گئے تھے۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ،لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ، جام کمال خان اور تحریک انصاف کے صوبائی سربراہ سردار یار محمد رند، قائد حزب اختلاف مولانا واسع اور وزیر منصوبہ بندی ڈاکٹر حامد اچکزئی رونق افروز رہے۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگتی اور صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ تو جانِ جانان تھے کہ انہوں نے اس یادگار اجتماع کے لئے دن رات ایک کر دیئے تھے۔یہ دونوں بلوچستانی سیاست میں اپنے چراغ جلا رہے ہیں اور بندوق اٹھانے والوں کے خلاف ہر محاذ پر لڑ رہے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال، خضدار یونیورسٹی کے بریگیڈیئر محمد امین، بیوٹم کے احمد فاروق بازنی، لاء کالج کوئٹہ کے پرنسپل امان اللہ اچکزئی نے تعلیمی اداروں کی تصویر کشی کی اور دامن امید سے بھر دیئے۔ ہر جگہ تعلیم و تدریس کا سلسلہ بحال ہو چکا ہے اور ہزاروں طلبہ پُرامن ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی نے تو یہ کمال کر دکھایا کہ ان تمام طلبہ کو داخلے دے دیئے جنہوں نے فارم داخلہ جمع کرائے تھے، یوں دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں کے ہاتھ میں کتابیں تھما دی گئیں۔ یہ یونیورسٹی جو ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرح پاکستان مخالف عناصر کا گڑھ بن چکی تھی، جہاں کے متعدد پروفیسر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا ڈالے گئے تھے، اب اس کی فضائوں میں قومی ترانہ گونجتا اور پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ لسبیلہ اور تربت تک کے تعلیمی اداروں میں ملی نغمے گائے جاتے اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ہر تعلیمی ادارے کے سربراہ کی خواہش تھی کہ کوئی تقریب اس کے ہاں بھی منعقد ہو اور پورے پاکستان سے اہلِ نظرآکر اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھیں جو دیکھنا کچھ عرصہ پہلے تک ممکن نہیں تھا۔ یہ ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے کہ ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد پوری شدت کے ساتھ سیمینار میں موجود رہے اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے ساتھ ان کے فراخ دلانہ سلوک کی تفصیل بھی سامنے آئی۔ مستقبل پر بھی ان کی گہری نظر تھی اور اس کی صورت گری میں وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ و تیار تھے۔
آخری نشست میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے بھی کئی گھنٹے یہاں گزارے اور اپنے پُرمغز خطاب سے دل اور دماغ کو مسخر کیا۔ انہوں نے جب یہ بتایا کہ وہ کوئٹہ میں پیدا ہوئے ، خضدار سے اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا اور آٹھ نو سال یہاں گزارے تو ہال میں اپنائیت کی تالیاں گونج اُٹھیں۔باتیں بہت ہوئیں،ماضی، حال اور مستقبل سب سامنے تھے۔ غلطیوں کا احساس بھی تھا اور سازشوں کا حساب بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان بدل چکا ہے۔ دہشت گردوں اور جنگجوئوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے ساتھ مل کر اعتماد کے جس رشتے کو قائم کیا تھا ، وہ نواب زہری اور جنرل عامر ریاض کے درمیان مضبوط تر ہے۔ جنرل جنجوعہ کی معاملہ فہمی نے جنرل عامر ریاض کے پا س آ کر ایک دوٹوک لہجہ حاصل کر لیا ہے۔جنرل عامر نے جب پورے تیقن کے ساتھ یہ بات کہی کہ ریاست کو جس طرح یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی شخص کو غائب کرے، اسی طرح وہ اس بات کی اجازت بھی نہیں دے سکتی کہ کوئی اس کا گریبان پکڑے، تو ہاتھ بے اختیار ایک دوسرے کے ساتھ مل کر فلک شگاف تالیاں بجانے لگے۔
ڈیووٹ کی سربراہ سلمیٰ محمد حسنی ایک ایسی بلوچ خاتون ہیں جن کے والد اور بھائی کو جنگجوئوں نے پاکستان سے محبت کے الزام میں تاک کر قتل کر دیا۔ انہوں نے اس تنظیم کی بنیاد ہی ان افراد کی بحالی کے لئے ڈالی ہے، جو انتہا پسندوں کے خلاف سینہ سپر تھے اور پاکستان سے اپنی وفاداری تج دینے کو تیار نہیں تھے۔ سیمینار میں ان شہداء کے کئی پسماندگان نے اپنی روداد بیان کی اور یہ سوال بار بار اٹھایا کہ (کئی نام نہاد) مسنگ پرسنز کا تو پاکستانی میڈیا بہت تذکرہ کرتا ہے لیکن ان شہیدوں کا نام کیوں نہیں لیتا جو دہشت گردی کا نشانہ بنے؟میڈیا کے بھاری بھر کم حضرات و خواتین سامعین میں موجود تھے۔ سید ارشاد عارف، زاہد حسین، غریدہ فاروقی، حفیظ اللہ نیازی، فریحہ ادریس، حبیب اکرم، نجم الحسن عارف… میڈیا کو خیرباد کہہ کر سیاست میں نام پیدا کرنے والے سید مشاہد حسین اور شفقت محمود بھی اپنی تمام تر ذہانت اور فطانت کے ساتھ رونق محفل تھے،لیکن اس سوال کا ترت جواب کسی کے پاس نہیں تھا کہ بلوچ جنگجوئوں کے خلاف اپنے خون کی دیوار بنانے والے بلوچ نوجوان توجہ سے کیوں محروم رہے؟ یک طرفہ رپورٹنگ ہمارے قومی میڈیا کا امتیاز کیوں بن گئی؟
یہ سوال بھی پورے سیمینار میں زیر بحث رہا کہ بیرون ملک بیٹھے ہوئے وہ افراد جو بلوچستان میں قتل و غارت کے ذمہ دار ہیں، ان سے مفاہمت کی جانی چاہیے یا نہیں؟ ان کو سیاسی کارکن سمجھ کر گلے سے لگایا جانا چاہیے یا نہیں؟ بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی جا چکی ہے جس میں بندوق برداروں کو ”ناراض بلوچ‘‘ نہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔سرفراز بگتی اور انوارالحق کاکڑ پُرزور تھے کہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والا دہشت گرد ہے، خواہ بلوچستان سے تعلق رکھتا ہویا فاٹا سے۔ ان کا بڑا سوال تھا کہ بلوچ انتہا پسندوں کے خلاف طالبان سے مختلف سلوک کیوں روا رکھا جائے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہ بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والی مایہ ناز دانشور اور استاد ہیں، پاکستان میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں پر روشنی ڈالی تو سننے والے مبہوت ہو گئے۔ یہ ایجنسیاں جس طرح معاشرے کو تقسیم کرنے میں لگی ہیں اور میڈیا کے کئی فنکار جس طرح دانستہ یا نادانستہ ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں لگے ہیں، وہ ایک ایسا موضوع ہے جس میں بہت نازک مقام آتے ہیں۔ کیا قومی اداروں کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے اور ان کو نشانہ بنانے والوں کو بلا سوچے سمجھے بہادری کا تمغہ دے دینا چاہیے۔ یہ ایک اور سوال تھا جو ڈاکٹر ماریہ کی گفتگو سے ابھر کر سامنے آیا۔
پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی غور ہوا۔ مقررین اور سامعین کی بھاری اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ یہ اس خطے میں ”گیم چینجر‘‘ ہے۔ اس کے فوائد بلوچستان کے حصے میں بھی آئیں گے اور گوادر پورٹ ایک نئی دنیا کا خواب نہیں، اس کی تعبیر ہے۔ اقتصادی راہ داری اور گوادر کے حوالے سے طرح طرح کے نکتے اٹھانے والوں کو بے نقط سنانے والے سیمینار میں کم نہیں تھے۔ اس حوالے سے انتہائی اہم اور بنیادی سوال وزیراعلیٰ زہری نے اٹھایا کہ ان کے والد نواب دودا خان تحریک پاکستان اور تحفظ پاکستان کے نمایاں علمبردار رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی نمائندگی وہ کریں گے جنہیں اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے جو عوام کے منتخب نمائندے ہیں یا وہ کریں گے جن کے پاس ایک دو نشستیں ہیں یا کوئی بھی نہیں۔ ہائوس کا پُرزور جواب تھا کہ آپ کریں گے؟ تو پھر غیر نمائندہ افراد کے شور و غوغا کو بلوچستان کی آواز کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ اسلام آباد اور لاہور کے میڈیا کے ذمے اس کا جواب بھی ڈال دیا گیا ہے:
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرّر لب ساقی پہ صلا میرے بعد