منتخب کردہ کالم

کورٹ روم نمبر1سے چکوال ضمنی انتخاب تک (جمہور نامہ) رئوف طاہر

جی ہاں! فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ اندرون و بیرونِ ملک کروڑوں آنکھیں اور کان سپریم کورٹ کے روم نمبر ایک کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ یہ عالی مرتبت چیف جسٹس کا کمرہ ہے۔ ماضی میں یہاں سے بڑے بڑے تاریخی فیصلے صادر ہوئے‘ جنہوں نے ملک کی سیاست پر گہرے (مثبت بھی اور منفی بھی) اثرات مرتب کئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں تو آئے روز یہاں سے الیکٹرانک میڈیا کے لیے ”بریکنگ نیوز‘‘ اور پرنٹ میڈیا کے لیے ”لیڈ‘‘ اور ”سپر لیڈ‘‘ نکلتی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی کی نااہلی کا تاریخی فیصلہ بھی یہیں سے صادر ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور سول بیورو کریسی کے لیے بھی وہ عذابِ جان بنے رہے۔ پبلک انٹریسٹ میں ان کے ”سوئو موٹو‘‘ روز کا معمول تھے۔ تنی ہوئی گردنوں والے بڑے بڑے طرم خاں بھی خوف زدہ رہتے۔ ایک بار انہوں نے ایک بڑے ”تگڑے‘‘ افسر کو طلب کیا ہوا تھا۔ افسر موصوف گاڑی سے نکلے تو ان کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی ۔ کورٹ روم نمبر ایک میں داخل ہونے سے پہلے پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ لمبی سانس کے ساتھ آدھی بوتل خالی کی اور باقی آدھی بوتل کوٹ کی جیب میں رکھ لی کہ شاید کمرۂ عدالت میں دوبارہ اس کی ضرورت پڑ جائے۔
مسنگ پرسنز کیس میں خاکی والوں کو طلب کرنے میں بھی چیف جسٹس کو عار نہ ہوتی۔ ان کی بحالی میں یوں تو ساری پولیٹیکل لیڈر شپ‘ وکلاء برادری اور سول سوسائٹی کا کردار تھا(زیادہ صحیح الفاظ میں‘ یہ ساری قوم کی تحریک تھی) لیکن آخری اور فیصلہ کن عنصر‘ میاں نواز شریف کا لانگ مارچ تھا۔ گیارہ مئی2013ء کے انتخابات کے بعد5جون کو انہوں نے (تیسری بار) وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا ۔ تب چیف جسٹس کے آخری چھ ماہ باقی تھے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف (اور ان کی حکومت) کے ساتھ بھی ان کا سلوک یکساں تھا‘ مثلاً پی آئی اے کے سربراہ کے طور پر شجاعت عظیم کے تقرر کے خلاف فیصلہ ۔11دسمبر 2013ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ تھی۔ ان دنوں ایک لطیفہ مشہور ہوا۔ وزیر اعظم نے پوچھا‘ ان کی ریٹائرمنٹ کب ہے؟ جواب ملا ”گیارہ‘ بارہ‘ تیرہ‘‘(11-12-13) وزیر اعظم کی روایتی حسِ مزاح پھڑکی‘ ”تو یہ جاتے جاتے بھی تین دن لے جائیں گے‘‘۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ ان کے جانشین جنابِ ثاقب نثار نے پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کی سربراہی خود لینے کی بجائے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سپرد کی۔ جمالی صاحب کے بعد وہ اس بنچ میں سینئر موسٹ تھے۔ جناب جسٹس امیر ہانی مسلم کو مارچ میں ریٹائر ہونا تھا۔ اس امکان کے پیشِ نظر کہ یہ کیس مارچ کے بعد تک جاری رہ سکتا ہے، انہیں نئے بنچ میں شامل نہ کیا گیا(کہ ان کی ریٹائرمنٹ پر یہ بنچ پھر ٹوٹ جاتا) عالی مرتبت کھوسہ صاحب کی سربراہی میں پانامہ کیس کی سماعت ان کی عدالت(روم نمبر2) میں ہوتی رہی۔ مین پٹیشنر جناب عمران خان اپنے لائو لشکر کے ساتھ روزانہ موجود ہوتے۔ ایک پٹیشن شیخ رشید کی طرف سے تھی (کہ شامل باجا ہونے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے) ان کے بقول‘ وہ اتنی باقاعدگی سے سکول نہیں جاتے تھے جتنی باقاعدگی سے یہاں حاضر ہوتے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی طرف سے بھی ایک پٹیشن تھی۔ وہ بھی اسد اللہ بھٹو صاحب کے ساتھ کوئی پیشی مس نہ کرتے۔ ادھر مدعا علیہان کی بھی معقول نمائندگی ہوتی۔
ایک عدالت کور ٹ روم نمبر 2میں لگتی تھی تو دوسری عدالت باہر ٹی وی کیمروں کے روبرو ہوتی۔ تیسری عدالت شام کے ٹاک شوز ہوتے۔ عدالتِ عظمی نے ایک سے زائد بار اس صورتِ حال پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ایک فاضل جج کا کہنا تھا‘ گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں تو پاناما کیس کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔ ایک اور جج صاحب حیران تھے کہ باہر ٹی وی کیمروں کے سامنے‘ عدالت کی کارروائی کے حوالے سے وہ باتیں بھی کہہ دی جاتی ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ نے لیکن اس ناخوشگوار صورتِ حال پر اظہار ناپسندیدگی ہی کو کافی سمجھا۔ عدالتِ عظمیٰ کی اس وضاحت کے باوجود کہ دورانِ سماعت کسی فاضل جج کے ریمارکس معاملے کی تہہ تک پہنچنے‘ کسی پہلو کو کریدنے کی کوشش ہوتے ہیں‘ ان کی بنیاد پر حتمی فیصلے کے سلسلے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی‘ یہ ریمارکس بریکنگ نیوز‘ لیڈ اور سپر لیڈ بننے کے علاوہ تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بھی بنتے رہے۔
بات لندن کے چار فلیٹس سے شروع ہوئی تھی اور انیس سو ساٹھ اور ستّر کے عشروں کے اثاثوں تک جا پہنچی( مریم نواز صاحبہ کے بقول‘ میاں صاحب نے تو اپنی تین نسلوں کو حساب کے لیے پیش کر دیا تھا)23فروری کو سماعت مکمل ہو گئی اور عدالت نے مختصر حکم کی بجائے تمام دلائل و شواہد کے ساتھ مفصل فیصلہ سنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک فاضل تبصر ہ نگار اور تجزیہ کار نے اس کے قلابے‘ اسی صبح ڈیفنس لاہور میں ہونے والے بم دھماکے سے ملا دیے تھے۔
فاضل ججوں کو تئیس‘ چوبیس ہزار دستاویزات کو کھنگالنا تھا اور ظاہر ہے اس کے لیے وقت درکار تھا(خود ان کے بقول وہ ایک ایسا فیصلہ جاری کرنے جا رہے تھے جسے آئندہ کئی عشروں تک یاد رہنا تھا) یہ الگ بات کہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے بقول‘ یہ سادا سا معاملہ تھا جس کا فیصلہ پانچویں دن آ جانا چاہیے تھا۔
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے، فقط زیبِ داستان کے لیے
یاد آیا‘ بیرسٹر موصوف وزیر اعظم گیلانی کے کیس میں ان کے وکیل تھے۔ وکیل بننے سے پہلے ان کا موقف تھا‘ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے تو وزیر اعظم (گیلانی) کو سوئس حکومت کو خط تو لکھنا پڑے گا۔ کچھ دنوں بعد ان کی رائے تھی‘خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ وکالت نامے پر دستخط کرنے کے بعد ان کا اصرار تھا‘ خط کیوں لکھیں؟ کیونکہ اس کی کوئی آئینی و قانونی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے‘ سزا ہو گئی تو گیلانی صاحب اڈیالہ جیل سے بھی حکومت چلاتے رہیں گے۔
پانامہ فیصلے کے حوالے سے برسر اقتدار مسلم لیگ اپنی حکمت عملی وضع کر چکی۔ وزیر اعظم کی ڈس کوالیفکیشن کی انہونی ہو گئی تو کیا ہو گا؟ وہ فوری انتخابات کی طرف جائیں گے یا نئے وزیر اعظم کے ساتھ مسلم لیگ اپنی باقی ماندہ آئینی مدت پورا کرے گی؟ (ظاہر ہے‘ اس کے لیے میاں صاحب کے جانشین کا فیصلہ بھی ہو چکا ہو گا)1997ء کے عدالتی بحران میں‘ جب صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ(مرحوم)‘ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے، مسلم لیگ نے قائم مقام وزیر اعظم کا نام بھی طے کر لیا تھا۔ تب قرعہ فال سید غوث علی شاہ کے نام نکلا تھا۔
ایک فیصلہ آج کورٹ نمبر ایک سے صادر ہونا ہے۔ ایک فیصلہ گزشتہ روز چکوال کے عوام نے دیدیا‘ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں نواز شریف کے امیدوار نے عمران خاں کے امیدوار کو بائیس ہزار ووٹوں سے شکست دیدی‘ جسے قاف لیگ‘ جماعت اسلامی اور طاہر القادری کی عوامی تحریک کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پانامہ کے طوفان میں ‘ گزشتہ ایک سال کے دوران جتنے بھی الیکشن ہوئے نواز شریف کے امیدوار سرخرو ٹھہرے‘ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن نے کلین سویپ کیا(41جنرل سیٹوں میں سے 32پر شاندار کامیابی)۔عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ سر آنکھوں پر‘ لیکن ایک فیصلہ عوام کا بھی تو ہے‘ نوازشریف پر بھرپور اعتماد کا فیصلہ۔