منتخب کردہ کالم

کوڑھ تو ابھی باقی ہے .. بلال غوری

کوڑھ

کوڑھ تو ابھی باقی ہے .. بلال غوری

طاعون کے خوفناک مرض نے 14ویں صدی میں یورپ کے دروازے پر دستک دی تو اخلاقی و فکری انحطاط آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ چرچ کے زیر اثر یہ تاثر عام تھا کہ وبائی امراض خدا کا عذاب ہوا کرتے ہیں اور گناہوں کی سزا کے طور پر مسلط ہوتے ہیں۔ جب طاعون نے اطالوی شہر فلوریسینس کو ہڑپ کر لیا تو انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ سوئم نے اگست 1348ء میں کینٹربری کے آرچ بشپ سے درخواست کی کہ اس ناگہانی اور مہلک موت سے بچائو کا اہتمام کیا جائے۔ بادشاہ کی درخواست پر پادری نے انگلستان بھر میں اپنے معتقدین کو خط لکھا جو بتاتا ہے کہ تب یورپ کو بھی دعائوں کا ہی سہارا ہوا کرتا تھا۔ اس نے لکھا ”خدائے بزرگ و برتر اپنے بندوں کے گناہ جھاڑنے کے لئے طوفان، آسمانی بجلی، وبائی امراض اور اس طرح کے دیگر عذاب نازل کرتا ہے۔ اسی نوعیت کا عذاب ہمارے ہمسایہ ممالک پر مسلط ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر ہم نے گڑگڑا کر اللہ کے عذاب سے پناہ نہ مانگی تو اس مرض کا زہر ہمارے ملک تک آن پہنچے اور سب کو ہڑپ کرلے۔چنانچہ سب لوگ زبور کی تلاوت کرتے ہوئے خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور معافی کے طلبگار ہوں‘‘ لیکن یہ سب دعائیں بے اثر اور تمام تدبیریں بیکار ثابت ہوئیں۔ طاعون نے بہت جلد انگلستان میں داخل ہو کر تباہی مچا دی۔ جب بھی کوئی اس مرض کا شکار ہوتا، اسے آبادی سے بہت دور بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا۔ ہمارے ہاں بھی قیام پاکستان کے بعد جذام کے مریضوں کو کوڑھی کہہ کر اچھوتوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا تھا۔ چونکہ علما کوڑھ کو عذاب الٰہی قرار دے چکے تھے اس لئے یہ تصور عام تھا کہ نہ صرف کوڑھ لاعلاج مرض ہے بلکہ یہ پروردگار کی نظر میں معتوب اور راندہ درگاہ قرار پانے والے افراد کو لاحق ہوتا ہے۔ شہروں سے باہر ”کوڑھی احاطے‘‘ قائم تھے جہاں ایسے بدقسمت افراد کو پھینک دیا جاتا اور وہ وہاں خودکشی کر لیتے یا پھر سسک سسک کر مر جاتے۔ یہ خبریں جب دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی ایک جرمن دوشیزہ ڈاکٹر رُتھ فائو تک پہنچیں تو وہ 1960ء میں پاکستان آئیں اور پھر اپنی ساری زندگی کوڑھیوں کا علاج کرنے کے لئے وقف کر دی۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر رُتھ فائو پاکستان آئیں تو 31 برس کی الہڑ مٹیار تھیں۔ ان کی آنکھوں میں بھی اپنے خوابوں کا شہزادہ ڈھونڈنے اور گھر بسانے کے سہانے سپنے تھے۔ سپنوں کا راج کمار مل گیا۔ اس نے شادی کی پیشکش بھی کر دی مگر ڈاکٹر رُتھ فائو نے اس سے شادی کرنے کے بجائے پاکستان سے رشتہ جوڑ لیا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو کو آپ پاکستان کی مدر ٹریسا کہ سکتے ہیں جن کی انتھک کاوشوں کی بدولت پاکستان سے کوڑھ کا مرض مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ یقینا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن میرے خیال میں ان کا ہمارے معاشرے پر احسان عظیم یہ ہے کہ انہوں نے جسمانی کوڑھ کے ساتھ ساتھ ذہنی و فکری کوڑھ پر بھی ضرب لگائی اور اس سوچ کو ختم کیا کہ بیماری اللہ کا عذاب اور گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب لوگ ان سے پوچھتے کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی میں گھرے پاکستانی معاشرے میں آپ نے بہت دشوار زندگی گزاری ہو گی تو یہ پاکستانی قوم کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کا تذکرہ کرتیں‘ اور سننے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی ہیرو ڈاکٹر رُتھ فائو چند روز قبل اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور سب نے یک زبان ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا تو مجھے ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی کتاب یاد آئی۔ کتاب انگریزی میں لکھی گئی مگر 2013ء میں اس کا اردو ترجمہ ”خدمت ہو مقصد حیات میرا‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈاکٹر رُتھ فائو پاکستانی شہری تھیں، پاکستانیت ان کی رگوں میں رچ بس گئی، انہوں نے ہر فورم پر پاکستان کا مقدمہ لڑا لیکن جب ان سے پاکستانیوں کی بری عادات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سب سے پہلے انتہا پسندی کا ذکر کیا۔ کہنے لگیں، کراچی ہسپتال میں سٹاف قابلیت کی بنیاد پر رکھا جاتا تھا مگر اقلیتی برادری کو فوقیت دی جاتی۔ ہمارے پاس ایک ہندو وارڈ بوائے تھا جو مریضوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کوڑھ کے ایک مریض نے یہ کہتے ہوئے حقارت کے ساتھ اس کا ہاتھ جھٹک دیا کہ میں ہندو کے ہاتھ سے کھانا نہیںکھائوں گا۔ ڈاکٹر نے کہا، ٹھیک ہے تو پھر بازار جائو اور اپنے خرچ پر جو مرضی کھائو۔ اس نے پولیس بلا لی اور خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ دوسری بری عادت‘ جس کا انہوں نے ذکر کیا‘ کا تعلق سماجی رویوں سے ہے۔ ڈاکٹر رُتھ کہتی ہیں جرمنی میں جب ہم کسی شخص کو کام کہتے ہیں تو وہ سوچ سمجھ کر جواب دیتا ہے کہ یہ کام اس سے ہو پائے گا یا نہیں۔ اگر وہ شخص کام کرنے کی ہامی بھر لیتا ہے تو ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کام ہو جائے گا‘ مگر پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں جو شخص اقرار کر لے اور پورے وثوق سے کہے کہ بے فکر ہو جائیں آپ کا کام ہو جائے گا، وہ کام کبھی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر رُتھ فائو کا شمار پاکستان کے محسنوں میں ہوتا ہے۔ ان کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہم سب اپنے رویوں پر غور کریں تو بات سو فیصد سچ اور حق پر مبنی ہے۔ جب بھی ہمیں کوئی شخص شادی پر بلاتا ہے اور ہم کمال سنجیدگی کے ساتھ اسے اطمینان دلاتے ہیں کہ ضرور حاضر ہوں گے تو اس کا مطلب ہوتا ہے نیت میں کھوٹ ہے، ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ جانا ہے یا نہیں۔ بعد میں جب کوئی شکایت کرتا ہے کہ آپ وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آئے تو ہم ڈھٹائی سے جواب دیتے ہیں، میں نے کہا تھا، انشاء اللہ۔ اگر اللہ نے چاہا تو۔ ایفائے عہد کے معاملے میں ہم دنیا کی بدترین قوم ہیں۔ پلمبر ہو، الیکٹریشن، اے سی ٹیکنیشن یا گھر میںکام کرنے والے ملازمین، جس وقت آنے کا کہیں گے، آپ کو یقین ہو گا کہ اس وقت نہیں آئیں گے۔ درزی وقت پر کپڑے سلائی کرکے نہیں دے گا، دھوبی نے کہا: تین دن بعد آ کر کپڑے لے جائیں، آپ عقلمند ہیں تو چوتھے دن جائیں گے اور تب بھی ہو سکتا ہے کپڑے تیار نہ ہوئے ہوں اور وہ کہے، آپ شام کو آ جائیں۔ محلے یا دفتر میں کسی بزرگ نے کہا، بیٹا بجلی کا بل جمع کروانا ہے آخری تاریخ ہے اگر وقت ہو تو پیسے اور بل لے لو‘ کروا دینا۔ سوچے سمجھے بغیر ہامی بھر لی جائے گی۔ بل جمع نہیں ہو گا، جرمانہ پڑ جائے گا۔ بعد میں اگر اس شخص نے ناراضگی کا اظہار کیا تو جواب ملے گا‘ میں نے تو آپ کی مجبوری دیکھتے ہوئے بل جمع کروانے کی ہامی بھری‘ اب میں خود کام میں پھنس گیا‘ نہیںکروا سکا تو بھائو کھانے کی کیا ضرورت۔ ہامی اس لئے بھر لی جاتی ہے کہ ہم مروت کے مارے اور وضعداری میں گندھے لوگ ہیں، انکار نہیں ہوتا۔ جو شخص جھوٹا نہ ہو، دوٹوک بات کرتا ہو، اسے ہم بے دید اور بد لحاظ سمجھتے ہیں اور یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ دیکھو تو سہی فلاں نے کورا جواب دیدیا۔ یہ نری منافقت، سراسر جھوٹ اور صریحاً دھوکہ ہے جسے ہم نے مروت، وضعداری اور لحاظ کا نام دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر رُتھ فائو کی موت پر بعض انتہا پسندوں کو سوشل میڈیا پر یہ بحث کرتے پایا کہ وہ جنت میں جائیں گی یا نہیں تو خیال آیا ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان سے جسمانی کوڑھ کا بھلے خاتمہ کر دیا لیکن ذہنی و فکری کوڑھ کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں۔ اس اخلاقی، سماجی اور روحانی کوڑھ کا کیا ہو جو دن بدن کسی موذی مرض کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ جب تک ہم اپنے کوڑھ زدہ چہرے پر مشرقیت، مروت، وضعداری، لحاظ اور اس نوع کے دیگر بانجھ الفاظ کی ملمع کاری کرتے رہیں گے، یہ کوڑھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جائے گا۔ اس کوڑھ زدہ چہرے پر میک اپ کرنے کے بجائے کھرچنے اور اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔

اگلا کالم .. یاد ماضی عذاب ہے یا رب