منتخب کردہ کالم

کپتان کا میچ .. ابراہیم راجا

کپتان ہار گیا، صرف اس کے حریفوں کا نہیں، بہت سے حلیفوں کا بھی یہی خیال ہے۔ غیر ہی نہیں، بہت سے اپنے بھی کپتان پر برس رہے ہیں۔ ہوش نہیں، جوش ان پر غالب ہے۔ بجا کہ کپتان کی حکمت عملی ناقص تھی لیکن میچ ابھی باقی ہے، بہت کچھ اس نے کھویا لیکن بہت کچھ پایا بھی ہے۔ بس ذرا سا انتظار، وقت اس پر فیصلہ صادر کرے گا۔
اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ کون ہے جو کپتان کو بند گلی میں دھکیل دیتا ہے؟ کچے پکے اشاروں پر کپتان کو بہلانے اور بھٹکانے والے کون ہیں؟ یہ شعبدہ باز کہیں پیچھے نہیں، تحریک انصاف کی اگلی صفوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہی 2014ء کے غیرمقبول اور پراسرار دھرنے کے منصوبہ ساز تھے، انہی نے دوبارہ اسلام آباد کو تالے لگانے کا عجیب و غریب منصوبہ بنایا۔ ایسا منصوبہ جسے عوامی حمایت مل ہی نہیں سکتی تھی، عدالتوں میں بھی اس اقدام کا دفاع ناممکن تھا، پھر ایسی جنگ کیوں چھیڑی گئی جس میں ناکامی یقینی تھی؟ کیا کسی غیبی مدد کی آس تھی؟ ناقص منصوبہ، ناقص منصوبہ بندی۔ دس لاکھ افراد کو اُڑن طشتریوں سے اسلام آباد میں اتارنے کا منصوبہ تھا؟ پوری قیادت نے تو بنی گالہ میں پناہ لے رکھی تھی، لوگوں کو کس نے جمع کرنا تھا؟ ملتان کے سیاسی شہسوار شاہ محمود کتنے لوگ لے کر اسلام آباد پہنچے؟ لودھراں سے کپتان کے نام پر سوا لاکھ ووٹ لینے والے جہانگیر ترین سوا سو افراد بھی لے کر نہ آئے، ایک دو درجن لوگ کم سے کم اپنے جہاز میں ہی بھر لیتے۔ صرف کپتان کے نام پر راولپنڈی اسلام آباد سے پانچ لاکھ سے زائد ووٹ لینے والے پی ٹی آئی کے رہنما، پانچ سو لوگ بھی بنی گالہ نہ لا سکے۔ سب چوری کھانے والے میاں مٹھو ثابت ہوئے‘ قینچی کی طرح جن کی زبانیں چلتی ہیں‘ لیکن عملی جدوجہد نہ ہونے کے برابر۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی چند ہزار افراد ہی اکٹھے کر سکے‘ ان کی کارکردگی اگرچہ دوسرے رہنمائوں سے قدرے بہتر رہی، شاید اس لیے کہ ایک صوبے کی حکومت ان کے پاس ہے۔ اسلام آباد پہنچنے میں ناکامی پر خطرناک کھیل انہوں نے کھیلا، سیاسی محاذ آرائی کو پختونوں اور پنجابیوں کی لڑائی بنانے کی کوشش وہ کرتے رہے۔ دانستہ یا نادانستہ تعصب کے بیج بونے کی کوشش انہوں نے کی‘ جو ہرگز کپتان کی پالیسی نہیں۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات کے حوالے سے پرویز خٹک کا کوئی ثانی نہیں، بولتے پہلے، سوچتے بعد میں ہیں۔
عمران خان کو دس لاکھ افراد لانے کا لارا لگایا گیا، جب دس ہزار افراد بھی جمع نہ ہو سکے تو کپتان کے پاس آپشن کیا تھا؟ خاص طور پر سپریم کورٹ میں یکم نومبر کی سماعت کے بعد؟ وہ سماعت جس میں کپتان کو کم، حکومت کو زیادہ پسپا ہونا پڑا۔ سات ماہ میں جو ٹی او آرز نہ بن سکے، اب ہفتوں میں ان کا بننا یقینی ہے، ٹی او آرز بھی وہ جو حکومت نے نہیں، سپریم کورٹ نے خود بنانے ہیں۔ اس سے پہلے حکومت اپنے ٹی او آرز پر بضد تھی‘ اور اپوزیشن اپنے ٹی او آرز پر۔ اب کپتان کیا کرتا؟ سپریم کورٹ کی یقین دہانی کے بعد معاملہ عدالت پر چھوڑتا یا چند سو افراد کے ساتھ اسلام آباد بند کرنے کی ضد پر اڑا رہتا؟ پرویز خٹک کو پنجاب پولیس پر ہر صورت یلغار کا حکم دیتا یا مصلحت سے کوئی راستہ نکالتا؟ جب کپتان ہر صورت محاذ آرائی پر تُلا تھا، تب بھی اس پر بے رحم تنقید ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔ بجا کہ اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ غلط تھا لیکن غلطی پر ڈٹ جانا بہتر ہے یا اسے سدھار لینا؟ بہت سے اسے یُوٹرن قرار دے رہے ہیں۔ یُوٹرن ہی سہی، غلطیوں پر یُوٹرن لینے میں مضائقہ کیا ہے؟ گاڑیاں چلانے والے جانتے ہیں، یُوٹرن بنتے ہی اس لیے ہیں کہ غلط راستے پر اگر کوئی چلا جائے تو واپس آ سکے۔ یہ بھی مان لیا کہ حالات نے کپتان کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا، وجہ کچھ بھی ہو، بڑی محاذ آرائی اور خون ریزی سے تو بہرحال ملک بچ گیا۔ کپتان کو یُوٹرن کے طعنے دینے والے شاید ہر صورت محاذ آرائی دیکھنا چاہتے تھے، انہیں دراصل اپنی افلاطونی دانشوری کی دکانیں بند ہو جانے کا افسوس ہے۔ حد سے بڑھتی سیاسی محاذ آرائی کو خونریزی میں بدلتے دیر نہیں لگتی، دیکھنے والے اس کی جھلک اس وقت بھی دیکھ چکے‘ جب برہان انٹرچینج پر جنگ کا سماں تھا۔ معاملہ آگے بڑھتا تو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا تھا۔ کینیڈا کے ایک علامہ بھی کپتان پر بھڑاس نکال رہے ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کا خواب پورا نہ ہونے پر وہ زِچ ہیں۔ کوئی غیر آئینی پُتلی تماشا نہ ہونے پر وہ غمزدہ ہیں۔ خود کو وہ کپتان سے زیادہ قدآور سمجھنے لگے ہیں۔ وہ کپتان چھہتر لاکھ ووٹ جسے عام انتخابات میں ملے۔ کینیڈین علامہ اگر الیکشن لڑیں تو بمشکل کونسلر ہی بن سکتے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر کے کھلاڑی بھی اپنے ہی کپتان کو کوس رہے ہیں، خود تو وہ سوشل میڈیا کے محفوظ قلعہ سے باہر نہیں نکلے، کپتان کو پسپائی کے طعنے دے رہے ہیں۔
پاناما لیکس کے معاملے کو منطقی انجام کی جانب بڑھانے کا سہرا کپتان کے سر ہی ہے، ورنہ پیپلز پارٹی تو حکومت سے سودا بازی کے لیے کب سے بے چین ہے۔ مولانا فضل الرحمان اگر حکومت کے صدقے واری جا رہے ہیں تو اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی۔ کرپشن پر ”Easy Load‘‘ کا خطاب پانے والی اے این پی پاناما کیس پر اتنی ”ایزی‘‘ کیوں ہے؟ کپتان کے لگاتار جلسوں کے باعث ہی اداروں پر پاناما سکینڈل کی تحقیقات کے لیے دبائو بڑھا۔ سپریم کورٹ نے خود ٹی او آرز بنانے کا فیصلہ ملک کو محاذ آرائی سے بچانے کے لیے کیا۔ وزیر اعظم پہلے ہی سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کر چکے تھے، عدالت عظمیٰ کا دائرہ اختیار چیلنج نہ کرنا ایک مثبت پیغام تھا۔ سپریم کورٹ کے ٹی او آرز بنانے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں، عدالتی فیصلے کا سامنا کرنے کو وہ تیار ہیں، وہ فیصلہ جو سڑکوں پر نہیں، عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم اگر قصوروار نہیں تو سرخرو ہوں گے‘ ورنہ انہیں گھر جانا ہو گا۔ میچ ابھی ختم نہیں، شروع ہوا ہے، کسی کی ہار ہوئی ہے نہ جیت۔ فی الحال یہ پاکستان کی فتح ہے، وہ پاکستان جو بڑی محاذ آرائی سے بچ گیا،وہ پاکستان جو صرف تحریک انصاف یا مسلم لیگ کا نہیں، ہم سب کا پاکستان ہے۔