منتخب کردہ کالم

کچھی کینال ….محمد بلال غوری

کچھی کینال ….محمد بلال غوری

ہمیشہ یہی سنا اور دیکھا ہے کہ پانی نشیب کی طرف جاتا ہے مگر ہمارے ہاں عجب دستور ہے، یہاں پانی بھی دیگر وسائل کی طرح بالادست طبقے کے بالائی علاقوں کی طرف بہتا ہے اور پسماندہ علاقوں تک پہنچتے پہنچتے سوکھ جاتا ہے۔ اب دیکھیں ناں سوئی کے علاقے سے نکلنے والی قدرتی گیس تو دیکھتے ہی دیکھتے چند برس میں کراچی اور لاہور تک پہنچ گئی‘ مگر دریائے سندھ کا پانی پیاسے بلوچستان تک پہنچانے میں کئی عشرے لگ گئے۔ چند روز قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سوئی میں کچھی کینال کے پہلے فیز کا افتتاح کرتے ہوئے یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ بہت جلد بلوچستان ملک کا امیر ترین صوبہ بن جائے گا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ تکلف برطرف، بلوچستان وسائل کے اعتبار سے تو پہلے ہی پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے البتہ ہمارے خود ساختہ ”کاتبین تقدیر‘‘ نے اس کے مقدر میں غریبی لکھ دی۔ میڈیا نے وزیر اعظم کی تقریر تو براہ راست نشر کی مگر کچھی کینال منصوبے‘ جس سے بلوچستان کے ایک ڈویژن کے مکینوں کی تقدیر بدل سکتی ہے، کی افادیت و اہمیت پر کسی نے بات کرنا گوارہ نہیں کیونکہ NA120 کے بڑے انتخابی دنگل اور قذافی سٹیڈیم میں آزادی کپ کی ر نگا رنگ تقریبات کے برعکس دور افتادہ علاقے کے ترقیاتی منصوبوں کی کوریج سے ٹی آر پی نہیں آتی۔ گاہے خیال آتا ہے دور افتادہ مکینوں کا تعلق فاٹا سے ہو، جنوبی پنجاب سے یا پھر بلوچستان سے، ان بیچاروں سے تو قربانی کے بکرے اچھے جنہیں پرائم ٹائم میں خوب کوریج ملتی ہے۔
لاہور کے انتہائی پرتعیش واش رومز میں شاور کے مزے لیتے ہوئے کسی بے آب و گیاہ علاقے کا تصور کرنا ہے تو بڑا مشکل مگر کسی روز امکان کی حد تک یہ سوچیں کہ اگر آپ کے گائوں میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ وہ بادل ہوں‘ جو قسمت سے برستے ہیں‘ اور اس بارش کے پانی کے گرد ریت کی منڈیر بنا کر وہاں سے پانی پینا پڑے‘ جہاں سے آپ کے جانور پیاس بجھاتے ہیں یا پھر کئی میل دور کسی کنویں سے پانی بھر کا لانا پڑے‘ تو آپ کی حالت کیا ہو گی؟ پنجاب اور سندھ میں زراعت کے لئے پانی کی دستیابی کے باوجود ایک دوسرے پر پانی چُرانے کے الزامات لگتے ہیں مگر جہاں پانی کو زندگی کا درجہ حاصل ہو وہاں آبپاشی کا منصوبہ کیا اہمیت رکھتا ہے، یہ بات وہی جانتا ہے جو پیاسا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ سے کچھی کینال منصوبے کی تفصیلات جاننا چاہیں تو مُسکرا کو کہنے لگے ”لکھنا ہے تو پورا سچ لکھیں، یہ منصوبہ پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے کو لپیٹ دیا‘‘ میں نے ٹیلی فون پر انہیں بتایا اور ریکارڈ کی درستی کے لئے عرض ہے کہ یہ بھی ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ کچھی کینال کا منصوبہ واقعی جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سندھ سے ایک نہر نکال کر بلوچستان پہنچائی جائے تاکہ وہاں بھی کاشتکاری پنپ سکے۔ پہلے تو سندھ حکومت نے روڑے اٹکائے اور یوں اس نہر کو گدو بیراج سے نکالنے کا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ اس اڑچن کا حل یہ نکالا گیا کہ کچھی کینال کو تونسہ بیراج سے نکالا جائے تاکہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔ منصوبے کی تفصیل یہ تھی کہ پانچ سو کلو میٹر لمبی یہ نہر تونسہ بیراج سے نکلے گی اور مظفر گڑھ، ڈی جی خان، راجن پور، ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد، بولان، جھل مگسی کے اضلاع اس سے مستفید ہوں گے۔ کچھی کینال کا تین سو کلومیٹر پر محیط حصہ جنوبی پنجاب سے گزرے گا اور دو سو کلومیٹر حصہ بلوچستان
میں آئے گا۔ 4 اکتوبر 2002ء کو مظفر گڑھ میں اس منصوبے کی افتتاحی تقریب ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے فیتہ کاٹا۔ بعد ازاں کئی وزرائے اعظم نے اس منصوبے کے فیتے تو کاٹے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ کچھی کینال منصوبہ 2007ء میں مکمل ہونا تھا مگر 2008ء میں عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس منصوبے کو لپیٹ دیئے جانے کی وجہ پرویز مشرف کے گرد جمع ہونے والے بلوچستان کے وہ قبائلی سردار تھے جو کسی قیمت پر اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ ان سرداروں اور بڑے کاشتکاروں کو یقین تھا کہ کچھی کینال کا منصوبہ مکمل ہو گیا تو چھوٹے کاشتکار ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور سرداری نظام کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس سے پہلے ربیع کینال، کیرتھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کو بھی ان بڑے جاگیرداروں نے ایسے ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کی‘ جیسے ہمارے ہاں جمہوریت کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیرتھر کینال سکھر بیراج سے نکلتی ہے اور جعفر آباد کے علاقے کو سیراب کرتی ہے، پٹ فیڈر کینال گدو بیراج سے نکلتی ہے اور نصیر آباد کے علاقے کو پانی فراہم کرتی ہے، ربیع کینال سیزنل ہے۔ پنجاب اور سندھ میں تو نہروں کا جال بچھا ہے مگر بلوچستان کی متاعِ کل یہی تین نہریں ہیں۔ ان نہروں پر جگہ جگہ بااثر اور بڑے زمینداروں نے مشینیں لگا رکھی ہیں‘ جن کی مدد سے پانی کھینچ کر ذاتی ذخیروں میں ڈالا جاتا ہے۔ جب پانی ٹیل کے علاقے میں نہیں پہنچ پاتا تو یہی نہری پانی ان چھوٹے کسانوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ان جاگیرداروں کو یہ بات معلوم تھی کہ کچھی کینال کی صورت میں ایک اور منصوبہ مکمل ہو گیا تو ان کی اجارہ داری خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے ان سرداروں کے دبائو میں آ کر اس منصوبے کو گلا گھونٹ دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے ذریعے صوبے کی محرومیاں دور کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس عظیم منصوبے پر خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ پیپلز پارٹی دو وجوہات کی بنیاد پر اس منصوبے کو آگے نہ بڑھا سکی۔ اول یہ کہ برسہا برس کی تاخیر کے نتیجے میں اس منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی تھی‘ دوئم: اگر پیپلز پارٹی کی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر لیتی تو اسے اپنے ہوم گرائونڈ سندھ میں یہ کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا کہ پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ کا پانی بلوچستان کو دے کر علاقائی مفادات بیچ ڈالے۔ جب مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تو میاں نواز شریف نے تمام تر رکاوٹیں دور کرکے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا حکم دیا۔ بڑھتی ہوئی لاگت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس منصوبے کو دو حصوں میں مکمل کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ اور اس منصوبے کا پہلا حصہ چند روز قبل مکمل ہو گیا جس کا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افتتاح کیا۔ فیز ون مکمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تین سو تریسٹھ کلومیٹر نہر تعمیر ہو چکی ہے اور اب ایک تہائی کام باقی رہ گیا ہے۔
مقامِ شکر ہے کہ ہمارے ہاں بھی پانی نشیب کی طرف جانا شروع ہوا وگرنہ اب تک تو یہی ریت رہی ہے کہ پانی بھی بالادست طبقوں کے زرخیز زمینوں کو ہی سیراب کرتا رہا ہے ہاں البتہ جب سیلاب آتا ہے تو تب وافر اور غیر ضروری پانی پسماندہ علاقوں کا رُخ کرتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے۔کچھی کینال جیسا اہم منصوبہ میڈیا کے روایتی اغماض کے باعث نظروں سے اوجھل ہو گیا، کوئی تو ان سے کہے، اے خانہ بر انداز چمن اِدھر بھی۔

مقامِ شکر ہے کہ ہمارے ہاں بھی پانی نشیب کی طرف جانا شروع ہوا وگرنہ اب تک تو یہی ریت رہی ہے کہ پانی بھی بالادست طبقوں کے زرخیز زمینوں کو ہی سیراب کرتا رہا ہے ہاں البتہ جب سیلاب آتا ہے تو تب وافر اور غیر ضروری پانی پسماندہ علاقوں کا رُخ کرتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے۔کچھی کینال جیسا اہم منصوبہ میڈیا کے روایتی اغماض کے باعث نظروں سے اوجھل ہو گیا، کوئی تو ان سے کہے، اے خانہ بر انداز چمن اِدھر بھی۔