کچھ اصل ہے‘ کچھ خواب ہے‘ کچھ حسنِ بیاں ہے……ھارون الرشید
اشرافیہ میں سے کچھ گر پڑتے ہیں‘ کچھ نئے اگ آتے ہیں۔ باقی داستان آرائی ہے‘ فقط داستان آرائی۔
سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی
کچھ اصل ہے‘ کچھ خواب ہے ‘کچھ حسنِ بیاں ہے
بلدیاتی الیکشن برپا ہو چکے تو پنجاب کے ڈپٹی چیف منسٹر حمزہ شہبازشریف مدظلہ العالی نے بہاولپور ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سیاستدان طاہر بشیر چیمہ کو لاہور مدعو کیا۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا پیغام انہیں دیا کہ فلاں ابن فلاں کو بہاولنگر کا ضلع ناظم بنا دیا جائے۔ چیمہ صاحب پرانی طرز کے سیاستدان ہیں۔ ہوا کا رخ پہچانتے ہیں مگر موم کا گڈّا نہیں۔ اپنے بل پہ سیاست کرتے ہیں۔ 2008 ء کے الیکشن میں جیتے وہ قاف لیگ کے ٹکٹ سے تھے۔ 2012ء میں نون لیگ میں شامل کرنے کے لیے‘ شہبازشریف کو دس‘ بارہ ملاقاتیں ان سے کرنا پڑیں۔ ایک ہی نکتے پہ جہاں دیدہ لیڈر بحث کرتا رہا: اپنے ساتھیوں کی آپ عزت نہیں کرتے۔ شہبازشریف انہیں یقین دلاتے رہے… اور اس میں لگتا ہی کیا ہے۔ تھوڑی سی اداکاری‘ دل پہ جبر کرکے چند لمحوں کی شیریں سخنی‘ زیادہ تر خاموشی اور سرکاری مال پہ تھوڑی سی مہمان نوازی۔حلوائی کی دکان پہ ناناجی کی فاتحہ۔ روایتی دکان داروں کی طرح‘ بار بار ایک روایتی فقرہ بھی ” آپ کو شکایت نہیں ہوگی‘‘ ۔
سیاست اب ایک کاروبار ہے۔مستثنیات کے سوا‘ اخلاق اور اصول کا اتنا ہی تعلق اس سے ہوتا ہے جتنا فلمی سکرین پر تیمور کا کردا ر ادا کرنے والے اداکار کا دلاوری سے ۔جیسا کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے‘ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے: میدانِ جنگ کی پہلی مقتول سچائی ہوتی ہے۔ پھر اخلاقی‘ علمی اور نفسیاتی طور پر یہ محتاج معاشرہ۔ کہنے کو یہاں ایک اشرافیہ بھی ہے۔ دوسرا کوئی موزوں لفظ نہیں جو برتا جا سکے‘ وگرنہ شرفا نہیں یہ کچھ اور ہیں۔ کسی ایک آدھ شخص‘ ایک آدھ زمانے کی بات نہیں۔ سب زمانے‘ سب زمانوں کے حکمران اور سب درباری۔ خال خال کہیں کہیں کوئی استثنیٰ بھی ہوتا ہے مگر خال خال کہیں کہیں۔
رنجیت سنگھ سے لے کر محمود غزنوی کے گورنر ایاز تک‘ عصر حاضر کے اصلی شیرشاہ سوری سے لے کر سو لہویں صدی کے نقلی شیرشاہ تک۔ چند ایک قلعے ‘بنگال سے پشاور تک ایک شاہراہ اور چند ایک سول ادارے تعمیر کرنے کے سوا 5 برس میں جو کچھ نہ کر سکا ۔کاروبارِ حکومت چلانے والے بیشترلوگ طلال چوہدری‘ پرویز رشید‘ دانیال عزیز اور مریم اورنگزیب ہی تھے۔ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم ہی تھے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اورنذر گوندل ہی۔ تاریخ نے جینیس ٹوڈرمل کو یاد رکھا ۔ اکبرِ اعظم کے نو رتنوں یعنی نو ہیروںکو‘ ابوالفضل اور فیضی کو‘ عبدالرحیم خانِ خاناں اور شاہ عبدالرحیم کوبھی۔ہمارے زمانے میں کوئی ٹوڈرمل یا فیضی کیوں نہیں؟ اس لئے کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ۔ جیسے بادشاہ‘ ویسے درباری۔معاشرے اخلاقی طور پہ بلند ہوتے ہیں اور پست بھی۔ عہدِ اکبری کے بعد دنیا نے دوسرا کوئی عبدالرحیم خانِ خاناں نہیں دیکھا۔سلطنت سنبھال رکھی ۔ بارہ برس کا اکبر کاروبارِ حکومت کو سمجھنے لگاتو اس کے حوالے کردی ۔ یہ الگ بات پھر اس کے نصیب میں جلا وطنی لکھی گئی۔ اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتا ہے۔بادشاہ مجبور نہ ہوں تو شریکِ اختیار کسی کو نہیں کرتے۔
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
اکبرِ اعظم کے درباری شاعر نے کہا تھا۔
وا دریغا نیست محبوبِ سزا وارِ غزل
وا دریغا نیست ممدوحِ سزا وار مدح
ہائے افسوس کوئی محبوب نہیں ‘ جس کے لیے غزل لکھی جائے۔ وائے افسوس کوئی اس قابل نہیں کہ اس کا قصیدہ کہا جائے۔
بہادر شاہ ظفر کے استادِ مکرّم ابراہیم ذوق یہ بھی نہ کہہ سکے۔ بادشاہ نے پرلے درجے کی بدذوقی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا : اس خیال سے قلق ہوتا ہے کہ ہمارے بعد‘ دوسروں کی آپ مدح کریں گے۔ نوٹنکی سلطان سے تو شاعر نے یہ کہا: خیمے سے پہلے طنابیں گر جایا کرتی ہیں‘جہاں پناہ !شام ڈھلی تو اپنے شاگرد‘ اردو کے پہلے بڑے نثر نگار اور ادبی مورخ اور نقاد محمد حسین آزاد سے بولے: ایک ایک پہر بادشاہ کی عافیت کے لیے دعا کرتا ہوں اور یہ ہے اس کا اجر ”یہ لوگ کسی کے نہیں ہوتے‘‘۔
بس اتنی سی بات ہے کہ جس کا ایک الٰہ نہ ہو‘ اس کے ہزار ہوتے ہیں۔
مارپیٹ کرتے‘ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے‘ قریش کے سردار تھک گئے۔ اب انہوں نے اسے کوڑوں سے پٹوانے کا ارادہ کیا۔اس کے لیے‘ امیّہ کے غلام بلال کا انتخاب کیا گیا۔ بلال عجیب آدمی نکلے‘ کوڑا تھامے عمارؓ کی برہنہ زخمی پیٹھ کو دیکھتے رہے۔ ایک لفظ بھی نہ بولے… اور پھر ہاتھ سے کوڑا گرا دیا۔ تب انہوں نے کلمہ پڑھا۔ پھر یہ کوڑا ان پہ برسا اور برستا ہی رہا‘ حتیٰ کہ بے ہوش ہوگئے۔ عرب سرداروں کے خیال میں چند سانسیں ہی باقی تھیں‘ سیدنا ابوبکر صدیقؓ جب نمودار ہوئے۔ انہوں نے بلال کے دام چکانے کی پیش کش کی۔ دوگنا دام امیّہ نے لگائے۔ ابوبکرؓ ایک کامیاب تاجر تھے۔ غلام نہیں وہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی خوشنودی خرید رہے تھے۔ جاں بلب آدمی کے مقابلے میں‘ دو سو دینار انہیں حقیر لگے‘ کوڑے کھاتے ہوئے جو”احد‘ احد‘‘ پکاررہا تھا۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ کوئی سو دینار ہی ادا کرتا۔مگر اس ایک دن کی اذّیت نے بلالؓ کو ایسا امتیاز بخشا کہ عظمت آج تک ٹوٹ ٹوٹ کے برس رہی ہے۔
تیرہ سو برس بیت چکے تھے جب تاریخ کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک نے کہا
اقبالؔ کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا‘ حبشی کو دوام ہے
رومی سے مراد سکندر یونانی ہے۔ مشرق و مغرب کے مورخ اسے Alexander the great کہتے ہیں۔ مگر اس کی سوانح پڑھیں تو گاہے گھن آتی ہے۔ کبھی اس پہ ترس بھی آتا ہے۔ ملتان کے ایک کھوکھر نے‘ نیزے کے ایک بھرپور وار سے فاتح کو زخمی کردیا تھا۔ یونان کے راستے میں اسی زخم نے مصر کی سرزمین پر اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اردو زبان کو اس کی کہانی نے ایک ضرب المثل عطا کی ”سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے‘‘ چند محاورے اور چند نظمیں۔ ہمارے عہد کے سب سے بڑے مزاحیہ اداکار امان اللہ خاں نے ایک بار کہا تھا… ”اور کیا ان ہاتھوں سے وہ تاش تھامتا‘‘
طاہر بشیر چیمہ نے شہزادے سے کہا:وزیراعظم کا فرمان سر آنکھوں پر۔ ٹیلی فون آپ کے ہاتھ میں ہے‘ ان سے بات کرا دیجئے۔ لیکن اگر یہ فیصلہ آپ نے کیا ہے تو میں اسے قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ جن صاحب کا نام آپ تجویز کر رہے ہیں‘ اپنے بل پر وہ صرف ایک ووٹ لے سکتا ہے‘ صرف اپنا ووٹ۔ حمزہ کہاں مانتے۔ اسی کو امیدوار کیا۔ طاہر بشیر چیمہ کے بقول‘ خطرہ مول لینے کا انہوں نے فیصلہ کیاکہ 128 میں سے 58 کونسلر صرف ان کے گروپ میں شامل تھے۔ اپوزیشن والے ان کے علاوہ۔آزاد گروپ کے طور پہ انہوں نے الیکشن لڑا۔ اس کے باوجود کہ بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب ایک برس کے بعد ہوا‘ اس کے باوجود۔ اس اثنا میں سرکاری وسائل اور درباری قوت بے دریغ برتی گئی‘ طاہر بشیر چیمہ جیت گئے۔
کراچی پہلے ہی الگ تھا۔ بلوچستان کے بعد جنوبی پنجاب تقریباً مکمل طور پر شریف خاندان کے ہاتھ سے نکل چکا۔ وسطی اور شمالی پنجاب برف میں رکھی دھوپ کی طرح پگھل ر ہے ہیں۔ نون لیگی شجر سے کچھ ثمر ہر روز کم ہو جاتے ہیں۔ طاہر بشیر چیمہ کی کہانی پہ کوئی غور کرے تو بات کو پا لے۔ ووٹ کے لیے شریف خاندان عزت چاہتا ہے‘ ووٹر کے لیے نہیں۔ اپنے ساتھیوں کے لیے بالکل نہیں‘ رتی برابر بھی نہیں۔
اس خطّہ ارض میں‘ 1937ء سے آج تک الیکشن ایک ہی اسلوب میں ہوتے چلے آئے ہیں۔ قیام پاکستان کے لیے 1946ء کے الیکشن ایک استثنیٰ تھے؛ اگرچہ ٹکٹ جیتنے والے بارسوخ امیدواروں کو ہی دیئے گئے۔ بھٹو صاحب نے بھی بارہ پندرہ نئے امیدوار ہی آزمائے تھے۔ باقی افسانہ نگاری ہے۔
اب بھی وہی ہوگا‘ جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ اشرافیہ میں سے کچھ گر پڑتے ہیں‘ کچھ نئے اگ آتے ہیں۔ باقی داستان آرائی ہے‘ فقط داستان آرائی۔
سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی
کچھ اصل ہے‘ کچھ خواب ہے‘ کچھ حسنِ بیاں ہے