منتخب کردہ کالم

کچھ تلہ گنگ کی سیاست کے بارے میں ….ایاز امیر

عشق

ٹیکسٹ

کچھ تلہ گنگ کی سیاست کے بارے میں

تضحیک تو دور کی بات ہے، میں اعوانوں کی دل آزاری بھی کیوں کروں۔ میں نے تو تلہ گنگ سے ووٹ لئے ہوئے ہیں اور 1997ء میں وہاں کے لوگوں کی مہربانی نہ ہوتی تو میں ایم پی اے نہ بن سکتا۔ اُس الیکشن میںکُودا تو تلہ گنگ کے راستے بھی معلوم نہ تھے‘ لیکن پھر شناسائی ہوئی اور بہت ساری دوستیاں بن گئیں۔ پھر بھی میرے کسی کہے پہ کسی کی‘ بالخصوص اعوانوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو بغیر الفاظ چبائے میری معذرت قبول ہو۔
میں تلہ گنگ کے عوام کی بات نہیں کر رہا تھا۔ ذِکر تو اُن نامور جعلی ڈگری ہولڈروں کا ہو رہا تھا‘ جن کا نعرہ ہی 2002 ء سے‘ جب وہ پہلی بار چوہدری پرویز الٰہی کے مدِ مقابل آئے‘ یہ رہا ہے کہ تلہ گنگ کی پَگ کہاں جا رہی ہے۔ 2002ء میں یہی نعرہ لگایا‘ جب اپنے ماموں سردار ممتاز ٹمن اور میرے دوست الحاج غلام عباس کی مدد سے پہلی بار ایم این اے منتخب ہوئے۔ اُس الیکشن میں اِس پَگ کے نعرے کی بدولت ہی چوہدری پرویز الٰہی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ جیتنے والے سنہری ڈگر ی ہولڈر کامیابی کے فوراً بعد اپنے ماموں اور الحاج کو چھوڑ کے پیٹریاٹ میں شامل ہو گئے تھے۔ 2008ء میں کچھ ہماری مدد سے موصوف کو نون لیگ کا ٹکٹ ملا۔ دوسری طرف پھر چوہدری پرویز الٰہی تھے اور ڈگر ی ہولڈروں کا نعرہ وہی پرانا تلہ گنگ کی پَگ والا تھا۔ پھر کامیاب ہوئے لیکن بیچ منجدھار جب جعلی ڈگریوں کا مسئلہ گرم ہوا اور کئی عدد ممبران اسمبلی اِس بنا پہ نا اہل ٹھہرے تو تلہ گنگ کے موصوف نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ اسمبلی کی ممبری سے مستعفی ہو جائیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کی ہمت کو داد دینی چاہیے۔ بطور وزیر اعلیٰ اُنہوں نے تلہ گنگ اور چکوال کیلئے بہت فنڈز فراہم کیے اور بہت کام کروائے۔ ہمارے الحاج تب ضلع ناظم چکوال تھے اور وہ جنر ل پرویز مشرف اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے چہیتے ناظموں میں سے تھے۔ اُنہیں فنڈز کی کمی کبھی نہ ہوئی؛ البتہ اُن فنڈز سے ترقی کی کون سی داستانیں رقم ہوئیں، یہ الگ بات ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ چوہدری پرویز الٰہی چلا تو صوبہ رہے تھے لیکن اُن کی ایک نظر ہمیشہ چکوال پہ رہی۔ اِس کے باوجود دو مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن تلہ گنگ سے ہارے۔ ووٹ اُنہوں نے بہت لئے لیکن ہار، ہار ہوتی ہے۔ کوئی اور ہوتا تو تلہ گنگ پہ تبرے کستے ہوئے مڑ کے ادھر نہ دیکھتا‘ لیکن ہمت ہے چوہدری پرویز الٰہی کی کہ تیسری بار حالیہ الیکشن میں پھر وہاں سے کھڑے ہوئے اور اِس بار بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ مدِ مقابل نون لیگ کا ٹکٹ تھامے ہمارے پرانے ڈگری ہولڈر تھے اور اِس بار بھی اُن کا نعرہ وہی تلہ گنگ کی پَگ والا تھا۔
ایک اور بات کا ذِکر ضروری ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کا تلہ گنگ میں نمائندہ حافظ عمار یاسر ہے جو اِس بار ایم پی اے منتخب ہو کے صوبائی وزیر کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ عمار یاسر نے چوہدریوں کو نہیں چھوڑا اور چوہدریوں نے اُس پہ ہاتھ رکھے رکھا۔ عمار یاسر نہ فیوڈل‘ نہ تعلق کسی پرانے سیاسی گھرانے سے ہے‘ لیکن اپنی محنت کے بَل بوتے پر اور کچھ چوہدریوں کی سرپرستی سے اُس نے اپنا مقام تلہ گنگ میں بنایا۔ کریڈٹ دونوں اطراف جاتا ہے، چوہدریوں کو اعتماد کرنے پر اور عمار یاسر کو وفاداری نبھانے پر۔ نتیجہ اِس جوڑ کا یہ نکلا ہے کہ تلہ گنگ کے روایتی سیاستدان‘ جنہوں نے علاقے کو اپنی نا اہلی کی جاگیر بنایا ہوا تھا‘ پیچھے رہ گئے ہیں اور نئی سیاسی حقیقتیں جنم لے چکی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی نے گجرات میں صوبائی سیٹ رکھتے ہوئے تلہ گنگ کی سیٹ چھوڑ دی‘ جس کی وجہ سے وہاں ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ کی طرف سے کاغذات چوہدری شجاعت حسین اور بطور کورنگ امیدوار اُن کے فرزند چوہدری سالک حسین نے داخل کرائے۔ نون کا ٹکٹ پھر ڈگری ہولڈر صاحب کے پاس گیا‘ لیکن سب کو حیران کرتے ہوئے عین آخری دن جب کاغذاتِ نامزدگی واپس ہو سکتے تھے‘ ڈگری ہولڈر صاحب نے اپنے کاغذات واپس لے لیے اور انتخابات سے دستبردار ہو گئے۔ اُسی شام ہمارا ٹی وی پروگرام تھا۔ جب ہم بیٹھے تو موضوعِ سُخن کچھ اور تھا لیکن میں کہے بغیر نہ رہ سکا کہ میں اپنے بھتیجے چوہدری سالک حسین کو مبارک دینا چاہتا ہوں کہ اُن کی کامیابی یقینی ہو گئی ہے کیونکہ تلہ گنگ کی پَگ کا نعرہ لگانے والے اُس پَگ کو گجرات کی خدمت میں پیش کر آئے ہیں ۔
یہ باتیں میں ہنس ہنس کے کہہ رہا تھا‘ کیونکہ مجھے وہ ساری پَگ والی ڈرامہ بازی یاد تھی۔ مجھے یقین ہے کہ سمجھنے والے میری بات سمجھ گئے ہوں گے‘ کیونکہ جہاں بہت ساروں نے مجھ سے شکایت کی ہے تلہ گنگ کے بہت سارے دوستوں نے ہنس ہنس کے میری بات سے اتفاق کیا ہے۔
ایک بات اور ہوئی۔ جب میں کاغذات واپس لینے کی بات کر رہا تھا تو ہارون الرشید صاحب نے پوچھا کہ بھائی یہ تو بتائیں کہ معاملات کیا ہوئے؟ جواب میں، میں نے کہا کہ حضرت، رات گئے اندھیروں میں مال لاہور پہ اگر کسی نے سرخی پاؤڈر لگایا ہو اور آپ اُسے اپنی گاڑی میں بٹھائیں تو معاملات وہاں بھی طے کرنے پڑتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایسی چیزوں میں ایسا تو ہوتا ہے یعنی معاملات تو طے کیے جاتے ہیں۔ اُن کے بغیر تو کوئی اپنا ٹکٹ اپنے مدِ مقابلوں کے قدموں میں نہیں جا رکھتا۔ ہارون صاحب مال پہ کھڑے لوگوں کی پوری بات سمجھ نہ سکے‘ لیکن ہماری اینکر عائشہ ناز یکدم بات سمجھ گئیں اور ہنسی روکنے کی پوری کوشش کرتی رہیں۔
زیبِ داستان کیلئے میں کچھ عجائب گھروں کا ذکر کر گیا اور یہ بھی کہا کہ اہل تلہ گنگ ضلع بنائے جانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ میری مؤدبانہ التماس ہے کہ فی الحال اِسی پہ گزارا کریں جو موجود ہے۔ روانیٔ گفتار میں سب تحصیل کا بھی ذکر کر ڈالا۔ ظاہر ہے یہ سب ہلکے پھلکے انداز میں تھا۔ میرا گاؤں بھگوال تحصیل تلہ گنگ کے عین بارڈر پہ واقع ہے۔ میری گہری دوستیاں تلہ گنگ میں ہیں۔ ہمارا صوبائی حلقہ ایک ہے۔ میں پورے علاقے کی تضحیک کیسے کر سکتا ہوں‘ لیکن خود ساختہ لیڈروں پہ، خاص طور پہ جو ڈگر ی ہولڈر بھی ہوں، ضرور حیرانی ہوتی ہے۔
ایک عذر ٹکٹ واپس کرنے کا یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ موصوف کے پاس ضمنی الیکشن کیلئے مطلوبہ فنڈ نہیں تھے۔ فیکٹریاں ہمارے پاس بھی نہیں لیکن اوکھے سوکھے الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ کسی پارٹی ہائی کمان کی طرف کبھی نہیں دیکھا۔ 2002ء کا الیکشن نِرا گھاٹے کا سودا تھا۔ میں نے مرحوم ارشاد احمد حقانی صاحب سے پوچھا تھا: الیکشن آ رہے ہیں، شاید لڑنا پڑے۔ اُنہوں نے کہا: الیکشن کا شوق ہے تو ضرور پورا کرو لیکن نون لیگ کے ٹکٹ پہ نہیں کیونکہ اُس جماعت کو کوئی جیتنے نہیں دے گا۔ وہ الیکشن میں نے 82 کرولا پہ لڑا۔ کسی بڑی گاڑی کیلئے پیسے نہ تھے۔ ہار تو ہم گئے لیکن صرف پندرہ سو ووٹوں سے۔ لیکن اِس سے زیادہ کی بھی ہار ہوتی تو اُس سے کیا فرق پڑتا۔ مقابلہ مقابلہ ہوتا ہے اور ہار جیت اُس کا حصہ ہوتی ہے۔ ہاں اُس 2002ء کے الیکشن کی ایک اور بات قابلِ ذکر ہے ۔ ہم نے چکوال تحصیل میں نون لیگ کا مضبوط پینل بنا لیا‘ لیکن نون لیگ تلہ گنگ کا یہ اعزاز رہے گا کہ تلہ گنگ سے ایک آدمی نون کے ٹکٹ پہ کھڑا نہ ہو سکا‘ حالانکہ اُس سے پہلے تلہ گنگ میں نون لیگ کے بڑے بڑے چھماندرو تھے۔ امتحان کا وقت آیا‘ ملنے کو نہ ملے۔ بُرے وقت چھٹ گئے اور موسم میں آسودگی آئی تو پھر نون لیگ کا جھنڈا تھامے کھڑے ہو گئے۔
اِدھر جانا اُدھر پھسلنا ہماری سیاست کا حصہ ہے۔ ایسے کرتب ہمارے چھوٹے بڑے سیاستدان دِکھاتے رہتے ہیں۔ لیکن جب پھسلنا ہی وتیرہ ہو تو کم از کم عزت، غیرت اور پَگ کی حُرمت کے نعرے تو کم لگنے چاہئیں۔ کرنا وہ ہو جو کیا ہے‘ اور سولہ سال سے پَگ کی حفاظت کا نعرہ، میں اُس پہ ہنس رہا تھا۔