کچھ دنوں بعد….بابر اعوان
اعلیٰ عدالتوں کے بہت سے سابق جج حضرات اور سینئر وکلاء میرا جواب سن کر حیران رہ گئے۔ سوال یہ تھا: سپیکر کے الیکشن میں نوٹوں سے بھرے ہوئے بریف کیس چل گئے ہیں‘ اسد قیصر کو شکست ہو گی۔ تب سپریم کورٹ بار کے سینئرز روم میں ٹی وی سکرین پر قومی اسمبلی کی سپیکرشپ کے لیے کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔ میں نے کہا: جی ہاں‘ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ کچھ سینئرز نے حیران ہو کر کہا: آپ کا بھی یہی خیال ہے؟ عرض کیا 30/40 منٹ کے لیے دکھی دل والوں کا رانجھا راضی کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ خوشدلی سے سرشار لوگوں نے بھرپور قہقہے لگائے اور پھر نتیجہ آ گیا۔ ووٹ کو عزت دینے کا طریقہ بہت سادہ ہے‘ مقابلے کی دنیا کا اصول بھی۔ سادہ اصول ہے: مقابلہ‘ فیئر پلے۔
پھر ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
اسی روز شاہراہ دستور پر ایستادہ قومی پارلیمان میں چلیے۔ ووٹوں کی مار سے ہلکان‘ بے جان ضمیر والا‘ تازہ شکست کے صدمے میں یہ بھول ہی گیا کہ وہ بھارت کی لوک سبھا میں نہیں پاکستان کی مجلسِ شوریٰ میں کھڑا بول رہا ہے۔ اپنے آزاد وطن کے خود مختار عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر چلنے والے فلور پر کھڑے ہو کر اُسے مقبوضہ کشمیر سے تشبیہ دے ڈالی۔ کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘ مادرِ وطن کی کوئی عزت ہوتی ہے‘ اور ہر عہدے سے مشروط قومی غیرت بھی۔ اس کے بعد کسی مافیا کی نوکری یا چمچہ گیری کا نمبر آتا ہے۔ ہرزہ سرائی کرنے والا اپنا تازہ حلف ہی بھول گیا‘ جو اس نے صرف ایک روز پہلے اٹھایا تھا۔ مادرِ وطن کی حرمت اور پاسداری کا عہد نامہ‘ اللہ اور رسول ؐ کا پاک نام لے کر حلفاً پڑھا جانے والا۔
بات ہو رہی ہے حرمت کی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ملاحظہ فرما لیں‘ ووٹ کی حرمت پر مر مٹنے والوں نے ووٹ کو عزت کیسے دی۔ وہ تفصیل جاننا بہت ضروری ہے۔ ماسوائے ایک سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کے‘ باقی سب بڑی پارٹیوں نے اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر ووٹ کو تانگے بھر بھر کر عزت دی۔ پہلا تانگہ گھر سے باہر نکلتا ہے۔ ذرا سواریاں دیکھئے بھائی‘ بہن‘ بیٹا‘ بہنوئی اور درجن سے زائد رشتے دار۔ بھاٹی لوہاری والے تانگے میں بھائی‘ بھتیجے‘ میاں‘ بیوی‘ بیٹا‘ سالے‘ بہنوئی سوار ہیں۔ امید ہے منیر بلوچ صاحب پوری معلومات کا کھوج لگا کر ووٹ کو عزت دینے کی تفصیل ضرور لکھیں گے۔ ووٹ کی عزت والوں نے کرائے کے ٹٹو بھی پال رکھے ہیں۔ اس ہنر کی ایک معروف مخلوق سیتا وائٹ کے غم میں ہلکان ہے۔ ایسا غم جو 26 سال سے زائد عمر کی خاتون کو نہیں‘ عمران خان کے مخالفین سے چمٹا ہوا ہے۔ اس سلسلے کی آخری کوشش وزارتِ عظمیٰ کے آخری آٹھ دنوں میں دو جگہ پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔ پہلے پشاور کی عدالتِ عالیہ اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں‘ جہاں جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت سے انکار کردیا۔
گزشتہ رات گئے متوقع وزیر اعظم عمران خان اور میں نے حکمت عملی طے کی‘ ساتھ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کی کاز لِسٹ آ گئی۔ بینچ نمبر1 میں ایک مقدمہ اور بینچ نمبر3 میں دوسرا کیس فکس تھا۔ عدالتی آداب میں اصول یہ ہے اگر سپریم کورٹ میں مقدمہ لگ جائے تو پھر وکیل کو ہائیکورٹ‘ شریعت کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت نہیں۔ پہلا حق عدالتِ عظمیٰ کا ہے؛ چنانچہ میں یہ دو مقدمات چلانے سپریم کورٹ چلا گیا۔ ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا تو عمران خان کے چاہنے والے بلاگرز‘ اینکرز‘ رپورٹرز اور سیتاوائٹ کے سپورٹرز کا لشکر سامنے تھا۔ لشکریوں کے اترے ہوئے اجتماعی چہرے دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے حلف کو رکوانے والے کس حال میں ہیں۔ میرے جونیئر وکلاء نے مختصر ترین عدالتی کارروائی کی تفصیل بتائی۔ پچھلے تقریباً سو دن عمران خان کو نااہل قرار دلوانے کے لیے جاری جنگ میں بہت سے دلچسپ کردار سامنے آئے۔ ہر کسی کے پاس میرے لیے مقدمے جیتنے کا نایاب نسخہ تھا۔ ان کرداروں کی محنت کا حق بنتا ہے ان پر علیحدہ کالم لکھا جائے۔ لیکن ایک بات آپ سے ابھی شیئر کر لیتا ہوں۔ یہ سب پہلے پانچ منٹ میں ہی پہچانے جاتے رہے۔ جو بھی 2/3 منٹ سے زیادہ بولا فوراً پتہ چل گیا کہ وہ کس کا مشورہ بردار ”ہاتو‘‘ ہے۔ اگر آپ کا محلے دار کوئی اہم سیاسی آدمی ہے اور اس کی گلی کے کونے پر ایک موٹر سائیکل کے پاس دو سفید پوش وی گلے کی کالی جیکٹیں پہنے مونچھوں اور بھنوئوں پر تازہ ہیئر کلر لگائے چھوٹی سی دستی ڈائری اور بال پوائنٹ پکڑے کھڑے ہوں‘ تو یہ جان لیجئے وہ سپیشل برانچ کے بندے ہیں‘ اور مشہورِ زمانہ ڈی ایس آر یعنی ڈیلی سیکرٹ رپورٹ تیار کرنے کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ جی ہاں خفیہ ڈیوٹی سو فیصد خفیہ والی۔
وطنِ عزیز کس قدر گمبھیر حالات اور مسائل رکھتا ہے۔ ان دنوں بریفنگ کے کچھ سیشن ایسے تھے جہاں ڈرا دینے والے حقائق سامنے رکھے گئے۔ شاید ان کی تفصیل میں جانا قومی مورال کے لیے درست نہیں‘ ورنہ پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں کے بھی منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں۔ بالکل ویسے ہی‘ جیسے نجومیوں‘ جوتشیوں‘ ٹیروکارڈ والیوں اور عمران خان کے ہاتھوں میں اقتدار کی لکیر کی غیر موجودگی کا اعلان کرنے والوں کے کھلے ہوئے منہ۔ ابھی چند ہفتے پہلے 8/10 فنکار پرسنیلٹی ریڈنگ‘ فلکیات‘ علم الاعداد‘ جوگ اور دست شناسی کے ماہر بن کر ٹی وی پر بیٹھے تھے۔ درحقیقت یہ بندگانِ شکم کا ٹولہ تھا جن کی پیشین گوئیاں وزارتِ عظمیٰ کے لیے مریم صفدر سے شروع ہو کر پنجاب کے فنکارِ اعلیٰ پر ختم ہو جاتیں۔
آج کا وکالت نامہ اور اکیسویں وزیر اعظم کے انتخاب کا نتیجہ ایک ہی دن سامنے آئے گا۔ اس وقت تک ووٹ کو عزت دو کے جنرل آرڈر سپلائرز شہباز شریف شریف کی کامیابی کے دعوے کرتے جا رہے ہیں۔ اس الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد ان کے ساتھ ”دھاندلی‘‘ ہو جائے گی۔ پوری قوم کے سامنے ڈویژن آف ہائوس کے ذریعے الیکشن ہو گا‘ جس کے پیچھے وہ انتہائی قابلیت سے خفیہ ہاتھ ڈھونڈ نکالیں گے‘ جو ووٹ ان کو نہیں پڑے گا‘ وہ ہارس ٹریدنگ والا ہو گا۔ کسی زمانے میں ووٹ کو عزت دینے والا ایسا ہی ایک اور کردار یہ نعرے لگواتا تھا ”جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے۔‘‘
آج نہ قائد نہ موت‘ دونوں ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘ یا پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں سے اغوا ہو کر گوشت کی دکانوں پر پہنچنے والے گدھے کھانے کی ڈشوں میں ”غائب‘‘ ہو جاتے ہیں۔
آج خلاف معمول کالم لکھنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ آنے والے دنوں کے روڈ میپ پر اہم ترین میٹنگ تھی۔ بنی گالا میں آخری غیر سرکاری میٹنگ‘ جس میں آنے والے دنوں کے خدوخال طے ہوئے۔ کے پی‘ کے نامزد گورنر شاہ فرمان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ انہوں نے علیحدگی میں فاٹا پر گفتگو کی۔ میرا اِن پُٹ مانگا۔ ایک مرحلے پر میں نے فاٹا کی روایتی مہمان نوازی جاری رکھنے کا کہا۔ شاہ فرمان بولے: مگر جناب میں بیٹھوں گا کہاں۔ گورنر ہائوس تو گئے۔ اسی طرح کے کئی ناقابلِ یقین اور روایتی طرزِ حکمرانی میں ناقابلِ تصور اقدامات کے فیصلے ہوئے‘ جن کا اعلان عمران خان قوم کے نام اپنے خطاب میں کریں گے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں اور قوم نے کدھر جانا ہے‘ آنے والے دنوں میں دونوں باتیں کھل کھلا جائیں گی۔ زخم مٹی میں دبانے سے مزید خراب ہوتے ہیں۔ انہیں کھولے بغیر طبیب مریض کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں پختہ ارادے خدا کی غیبی مدد کا یقین‘ آنے والے دنوں کو بدل دے گا۔
کچھ دنوں بعد زمانے کی ہوا بدلے گی
وقت کے ساتھ رہ و رسمِ وفا بدلے گی
شاخساروں سے نئے پھول نکل آئیں گے
لالہ زاروں میں شگوفوں کی ردا بدلے گی
بجلیاں سوئیں گی مٹی کے گھروں میں کب تک
ابر کڑکے گا‘ قضا رنگِ وفا بدلے گی
اے مرے خامۂ گل ریز کی بے لَوث اڑان
اپنی رفتار بہ اندازِ صَبا بدلے گی