منتخب کردہ کالم

کچھ فتنے اٹھے حسن سے‘ کچھ حسنِ نظر سے!…رئوف طاہر

کچھ فتنے اٹھے حسن سے‘ کچھ حسنِ نظر سے!…رئوف طاہر

بدھ کی شام پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی پریس بریفنگ اس ہفتے ہونے والے دو اہم واقعات کے حوالے سے تھی۔ کراچی میں پی ایس ایل فائنل کا انعقاد اور 23 مارچ کو فوجی پریڈ لیکن بہت سا وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی 9 مارچ کو میڈیا پرسنز سے گفتگو کی وضاحت اور تشریحات کی نذر ہوگیا۔ تیس سے زائد میڈیا پرسنز کے ساتھ یہ نشست ساڑھے تین گھنٹے سے زائد وقت پر محیط تھی، جس میں آرمی چیف نے ہر اُس مسئلے پر بات کی‘ جس سے میڈیا والوں کو دلچسپی ہو سکتی تھی۔ اس میں قومی سلامتی کے معاملات بھی تھے، ملک کی سیاسی و اقتصادی صورتحال بھی، نواز شریف خاندان کے خلاف نیب مقدمات، 28 جولائی کے (نااہلی والے) فیصلے کے خلاف معزول وزیراعظم (اور ان کی صاحبزادی) کی رابطۂ عوام مہم، آئندہ عام انتخابات کے علاوہ 18ویں ترمیم کے اثرات پر گفتگو بھی تھی۔ آرمی چیف نے امریکہ کیلئے نامزد نوجوان پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی کے تقرر پر بھی بات کی۔
بدھ کی شام پریس بریفنگ میں آئی ایس پی آر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے (9 مارچ والی) ملاقات کیلئے خود کئی صحافیوں نے درخواست کی تھی۔ اس حوالے سے ہمارے شامی صاحب کے ساتھ دلچسپ معاملہ ہوا، آرمی چیف تشریف لائے اور حاضرین پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: شامی صاحب نظر نہیں آ رہے۔ ادھر شامی صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے لیے دعوت ہی نہیں ملی تھی۔ یہ مہمانوں کی فہرست مرتب کرنے والوں کی بھول تھی یا قاصد سے چوک ہو گئی‘ شامی صاحب کو بہرحال اس پر کوئی ”احساسِ محرومی‘‘ نہیں۔ وہ جاتے تو کچھ ان کی سنتے، کچھ اپنی سنا آتے۔ شامی صاحب جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ ایڈیٹروں میں سے تھے۔ تب آتش جواں تھا اور شامی صاحب ان میں شمار ہوتے… جنرل ضیاء کے بقول‘ جن کے ذہنوں میں جمہوریت کا کیڑا کلبلاتا رہتا۔ چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ شامی صاحب نے بھری محفل میں کھری کھری سنا دیں۔ جنرل صاحب جناب مجید نظامی کو مذاقاً کہا کرتے تھے: اب آپ کا واسطہ ”جابر سلطان‘‘ سے نہیں ”صابر سلطان‘‘ سے ہے۔ شامی صاحب کی جلی کٹی پر بھی وہ صبر سے کام لیتے۔ لیکن تابکے‘ آخر وہ وقت بھی آیا کہ دونوں کی مہینوں ‘کٹی‘ رہی۔ اس دوران شامی صاحب کے والد محترم کے انتقال پر بھی جنرل کا کوئی تعزیتی پیغام نہ آیا۔ وہ تو تجدیدِ تعلقات کے بعد پہلی ملاقات تھی، جس میں جنرل نے فرمایا کہ شامی صاحب پر گزر جانے والے اس صدمے کی انہیں کسی نے اطلاع ہی نہ دی تھی۔
جنرل مشرف کا دور بھی شامی صاحب کیلئے خوشگوار نہ تھا۔ اس میں ان کی اصول پسندی کا معاملہ بھی تھا اور کچھ حریفوں کی لگائی بجھائی کا دخل بھی۔ مجید نظامی صاحب کا پاکستان کے چوتھے ڈکٹیٹر کے ساتھ بھی وہی سلوک رہا‘ جو پہلے ڈکٹیٹر کے ساتھ تھا۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ تک وہ ڈکٹیٹر کی بریفنگز کیلئے ناپسندیدہ قرار پائے۔ شامی صاحب اس فہرستِ ناپسندیدگان میں شامل نہ تھے‘ وہ بلائے جاتے رہے۔ ”لبرل مشرف‘‘ بھی ”مولوی ضیاء الحق‘‘ کی طرح ”صابر سلطان ‘‘ تھا۔
بات کسی اور طرف نکل گئی۔
پاک فوج کے ترجمان کو گلہ تھا کہ آرمی چیف کی نہایت خوشگوار ماحول میں ہونے والی آف دی ریکارڈ گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر میڈیا میں شائع کیا گیا۔ یہ تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنی اور اس ”کارِ خیر‘‘ میں وہ لوگ بھی شامل تھے‘ جو اس ملاقات میں موجود ہی نہ تھے۔ نوابزادہ صاحب زندہ ہوتے تو اس پر عرض کرتے ع
کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے‘ کچھ حسنِ نظر سے
اور وضاحت (یا تشریح) میں کچھ تاخیر خود ہمارے فوجی ترجمان سے بھی ہو گئی۔ ان تین ہفتوں میں بعض حساس معاملات پر خوب حاشیہ آرائی ہوئی‘ مثلاً پارلیمنٹ کے کامل اتفاق رائے کے ساتھ منظور ہونے والی 18ویں ترمیم‘ جس کے حوالے سے چھوٹے صوبے بطور خاص حساس ہیں۔ فوجی ترجمان کے بقول آرمی چیف نے اسے مسترد نہیں کیا تھا اور نہ فوج اس کے خلاف ہے۔ (البتہ اس پر عملدرآمد کے حوالے سے بعض مسائل کا ذکر ضرور ہوا) لیکن میڈیا میں آرمی چیف سے جو بات منسوب کی گئی‘ اس میں اسے شیخ مجیب کے 6 نکات سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا گیا۔ جنرل آصف غفور کی بریفنگ شام 4 بجے تھی اور اس سے قبل (اُسی روز) کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر حیدر امام رضوی نے ایک پریس کانفرنس میں جن نکات پر بات کی، ان میں سے جناب آرمی چیف کے 18ویں ترمیم کے حوالے سے مبینہ ریمارکس بھی تھے۔ انہوں نے اسے 7 اپریل کو آل پاکستان لائرز کانفرنس کے ایجنڈے کا حصہ بنانے کا بھی اعلان کیا۔
فوجی ترجمان نے 18ویں ترمیم کے علاوہ کسی مبینہ این آر او سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا‘ بعض سینئر تجزیہ کار اور تبصرہ نگار‘ صبح و شام جس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ اس کے لیے شہباز شریف کی 72 گھنٹوں میں آرمی چیف سے دو خفیہ ملاقاتوں کی ”خبر‘‘ بھی تھی۔ فوجی ترجمان کے بقول طورخم سرحد پر باڑ لگا نے کی بات ہوئی تو وزیراعلیٰ پنجاب نے آرمی چیف سے رابطہ کیا اور انہیں پیشکش کی کہ نیشنل سکیورٹی کے اس اہم منصوبے میں پنجاب حکومت بھی مالی حصہ ڈالنے کو تیار ہے۔ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ بنا دیا گیا لیکن کہنے والوں کی زبان اور لکھنے والوں کا قلم کون روک سکتا ہے؟ چودھری نثار علی خاں کے نواز شریف کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ڈھکی چھپی نہیں، مہینوں سے دونوں میں فون پر بھی رابطہ نہیں لیکن اس کے باوجود ”باخبروں‘‘ کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف فیملی کو ریلیف دلوانے کیلئے چودھری صاحب دو بار عسکری قیادت سے بات کر چکے ہیں۔ ان کی خبر کے مطابق شہباز شریف قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ لیکن خود آرمی چیف بارہا یہ اعلان (اور وعدہ) کر چکے کہ ان کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں‘ اس میں ان کی کوئی پسند‘ ناپسند نہیں۔ فوجی ترجمان کا بھی کہنا ہے کہ الیکشن کروانا یا اس کا ٹائم فریم دینا فوج کا کام نہیں۔ اس حوالے سے فوج کا جو بھی کردار ہوگا، آئین کے مطابق ہوگا۔ (مثلاً انتخابات کے روز امن و امان کے حوالے سے اگر اسے طلب کیا جائے یا الیکشن کمیشن اسے پولنگ سٹیشنز کی نگرانی کیلئے کہے)آئین میں کسی لیڈر کے قبول (یا ناقابل قبول) ہونے کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔
منیر نیاری کی معروف نظم ہے ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ اور یہ دیر عموماً بڑے مسائل پیدا کرتی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی گزشتہ دنوں امریکہ کے نجی دورے پر گئے (ہمشیرہ محترمہ کی عیادت کیلئے) یہ سرکاری پروٹوکول کے بغیر دورہ تھا، چنانچہ انہیں ایئر پورٹ پر دوسرے مسافروں کی طرح امیگریشن اور سکیورٹی چیک کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ بش (جونیئر) کے بڈی پرویز مشرف کے ساتھ تو سرکاری دورے پر جانے والوں کو بھی سکیورٹی چیک کے ان مراحل سے گزرنا پڑتا تھا، بزرگ شریف الدین پیرزادہ بھی مستثنیٰ نہ ہوتے۔ یہاں جس معاملہ کو نیشنل سکیورٹی کا اہم ترین مسئلہ بنا دیا گیا وہ امریکی نائب صدر کے ساتھ وزیراعظم عباسی کی ون آن ون ملاقات تھی۔ جسے اتنا ”خفیہ‘‘ کہا گیا کہ اس میں وزیراعظم کے ساتھ کوئی Note Taker بھی نہ تھا۔ الحمدللہ دس روز بعد ہمارے فارن آفس کی طرف سے وضاحت آئی کہ اس ملاقات میں‘ واشنگٹن میں ہمارے سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے۔ یہ وضاحت بھی ایک اخبار نویس کے سوال کا نتیجہ تھی۔