منتخب کردہ کالم

کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کیخلاف ہیں،تجزیہ، قدرت اللہ چودھری

جہانگیر

کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کیخلاف ہیں،تجزیہ، قدرت اللہ چودھری

آئینی طریق کار کے عین مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نئے چیئرمین نیب کے لئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے نام پر اتفاق کرلیا ہے، اور حکومت نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے جس کے بعد تقرر کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ مروجہ کلچر کے مطابق کسی کا دل چاہے تو اسے حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے مک مکا کا نام بھی دے لے۔ لیکن جو ہوا، درست ہوا، جسٹس (ر) جاوید اقبال سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، اس سے پہلے وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے، بطور جج ان کی خدمات تو ریکارڈ پر ہیں، جو فیصلے انہوں نے کئے وہ سب کے لئے پسندیدہ نہیں ہوں گے، جن کے حق میں تھے انہیں پسند آئے ہوں گے اور جن کے خلاف تھے وہ کتنے بھی میرٹ پر ہوں انہیں پسند نہیں کیا گیا ہوگا، ان کا نام قائد حزب اختلاف نے پیش کیا تھا، انہوں نے دو اور نام بھی دیئے تھے لیکن جسٹس (ر) جاوید اقبال پر وزیراعظم نے بھی اتفاق کرلیا، چند روز پہلے ہم نے ان سطور میں لکھا تھا کہ نیب کے لئے جس نام پر بھی اتفاق ہوگا اس کے مخالفین تو کہیں نہ کہیں سے نکل ہی آئیں گے، اس لئے جونہی جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام سامنے آیا ہے ان پر نکتہ چینی کرنے والے بھی حشرات الارض کی طرح سامنے آگئے ہیں ابھی صرف نوٹی فکیشن ہی ہوا ہے۔ انہوں نے عہدہ نہیں سنبھالا، جب کام کا آغاز کریں گے چند ماہ یا سال ڈیڑھ سال تک کام کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ وہ اپنی نئی ذمے داریاں کس طرح نبھائیں گے، جو فیصلے وہ کریں گے انہی سے اندازہ ہوگا کہ وہ کس حد تک درست ہیں، عمومی طور پر ان کی شہرت اب بھی اچھی ہے، اور نئی ذمے داریوں کے بعد ہی اندازہ ہوگا کہ وہ اسے کس طرح قائم رکھتے ہیں، البتہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ہر کسی کی توقعات پر پورا اترتا ہو۔ شورش کاشمیری نے کئی عشرے پہلے کتنی درست بات کہی تھی۔
شورش مرے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں
اس لئے اگر ناقدین نے بغیر سوچے سمجھے ابھی سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے انتخاب پر نکتہ چینی شروع کردی ہے۔ تو اس سے نہ گھرانے کی ضرورت ہے نہ ہی کوئی ایسا شخص اس معاشرے میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو موجودہ حالات میں ہر کسی کو پسند ہو اور کوئی بھی اس کے خلاف نہ ہو، البتہ جن لوگوں کو اس طریق کار پر اعتراض ہے جو چیئرمین نیب کے لئے آئین میں درج ہے انہیں چاہئے کہ اگر ان کے پاس اس سے بہتر کوئی طریقہ ہے تو وہ سامنے لے آئیں، جماعت اسلامی کی خواہش اور مطالبہ ہے کہ چیئرمین نیب کا انتخاب پانچوں چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیٹی کرے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے، لیکن اس کی پذیرائی اسی صورت ہوگی جب آئین میں درج شدہ طریقہ بدل دیا جائے جب تک موجودہ طریقہ موجود ہے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو اس کے مطابق چلنا پڑے گا، اور جب نیا طریق کار اختیار کرلیا جائیگا تو اس پر عمل شروع ہوجائیگا۔
نیب کا ادارہ جنرل پرویز مشرف نے متعارف کرایا تھا اور سب سے پہلا سربراہ جنرل امجد کو بنایا گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں جنرل امجد کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور ان کی دیانتداری کا اعتراف کیا ہے لیکن جب جنرل امجد نے بلا تمیز احتساب شروع کیا اور اس کی زد میں وہ لوگ بھی آنے لگے جنہیں جنرل پرویز مشرف اپنے ساتھ شریک اقتدار کرنا چاہتے تھے تو جنرل امجد کی تمام تر دیانتداری کے باوجود انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا، ان کی جگہ جو دوسرے جنرل آئے وہ بھی نیک نام اور دیانتدار تھے لیکن ان کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے اس منصوبے کی راہ میں حائل نہ ہوئے جو وہ اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو شریک اقتدار کرنے کے سلسلے میں رکھتے تھے، چنانچہ وہ جنرل پرویز مشرف کی پوری حکومت میں کسی نہ کسی طرح شریک اقتدار رہے۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اگر آپ کسی شخص کی دیانت و امانت کے معترف بھی ہوں اور لکھ کر اس کا اعتراف بھی کرچکے ہوں تو بھی ضروری نہیں کہ آپ اس کی ہر بات کو مانیں، جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے نیب کے چیئرمین کا عہدہ جرنیلوں کے پاس ہی رہا، ان کی نظرِ انتخاب جرنیلوں سے باہر نہیں گئی ممکن ہے وہ دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ سیاستدانوں کو ’’فکس اپ‘‘ کرنے کیلئے یا پھر انہیں اپنے ڈب پر لانے کیلئے ایک فوجی ہی موزوں ہے، ان کے پورے دور میں کسی جماعت نے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا کہ نیب کے چیئرمین کیلئے ہمارے ساتھ بھی مشاورت کی جائے، کسی کا یہ مطالبہ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے کہ اس نے چیف ججوں کی کمیٹی بنا کر نیب کا چیئرمین بنانے کا مطالبہ کیا ہو، کسی نے بھی کوئی نام تجویز نہیں کیا، جنرل پرویز مشرف نے جسے چاہا چیئرمین بنا دیا، اور جب کسی دوسرے کو لگانے کا ارادہ کیا تو پہلے کو ہٹا کر نیا چیئرمین بنا دیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی بھی یہیں تھی، تحریک انصاف بھی موجود تھی، جماعت اسلامی تو قیام پاکستان سے پہلے کی سیاست کر رہی ہے، دوسری جماعتیں بھی درجہ بدرجہ سیاسی سرگرمیاں کررہی تھیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے چیئرمین کے تقرر کے طریق کار پر اعتراض کیا ہو، اور اگر کسی نے کیا بھی تھا تو جنرل پرویز مشرف نے اسے پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دی تھی، اب جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نیب کا سربراہ ان کی مرضی سے لگے وہ کم از کم اتنا تو کریں کہ آئین میں تبدیلی کی جدوجہد کریں اگر وہ کامیاب ہوگئے تو جو نیا طریقہ طے ہوگا وہ مروج ہوجائیگا اس وقت تک تو وہی ہوگا جو آئین میں درج ہے۔ البتہ نکتہ چینوں کی زبانوں کو تو لگام نہیں دی جا سکتی وہ زبان درازی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔