ان دنوں کرپشن کا سراغ لگا کر اس میں حصے دار بننے والا ادارہ نیب‘ حکمران برادرز کے نشانے پر ہے۔ اننگز کا آغاز وزیراعظم نوازشریف نے کیا۔ اگلاقدم وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اٹھایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوحلیفوں کا منتخب چیئرمین نیب‘ یہ متضاد فرائض کیسے انجام دیتا ہے؟ یہ انوکھی ترکیب ”چوری پکڑکے حصہ لو‘‘ کا فارمولا‘ پارلیمنٹ میں دو اکثریتی جماعتوں کے سربراہوں نے ”باہمی اتفاق رائے‘‘سے تیار کیا‘جسے دیگر سیاست دان ”مک مکا‘‘ کہتے ہیں۔یہ ترکیب پاکستانی پولیس کے روزمرہ طریقہ کار کی روشنی میں وضع کی گئی ہے۔ پولیس کے بعض اہلکاروں کے کام کاج کے طریقے دیکھ کر عوام نے ایک ترکیب ڈھونڈ نکالی جسے ” مک مکا‘‘ کہتے ہیں۔ اب سیاسی قائدین کے بیانات میں ”مک مکا‘‘ کی یہ”اصطلاح‘‘ تسلسل کے ساتھ پڑھنے میں آ رہی ہے۔ اصل میں کسی بھی پولیس ملازم کو ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیور کے ساتھ ”مذاکرات‘‘ کا منظر دیکھنے والوں نے یہ ترکیب وضع کی ہے۔آپ نے اکثر دیکھا ہو گا جب کوئی ڈرائیور‘ قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پولیس اہلکار اسے روک کر ”مذاکرات‘‘ کرتا ہے اور ”مذاکرات‘‘ کے نتیجے میں ایک کی جیب سے نوٹ نکل کر ‘جب دوسرے کی جیب میں جاتے ہیں‘ تو اسے ”مک مکا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ میں بڑے اطمینان سے یہ ترکیب لکھ رہا ہوں کہ قارئین‘ اصل مطلب سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ مثلاً دو افراد کے درمیان کسی بھی طرح کے لین دین پر سمجھوتہ ہو جائے تو اسے” مک مکا‘‘ کہتے ہیں مگر کوئی عام پاکستانی اس کا دوسرا مطلب نہیں لے سکتا۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پولیس اہلکار نے کسی کو قانون کی خلاف ورزی کرتے پکڑا اور اس خلاف ورزی پرکارروائی کرنے کے بجائے‘ رقم کی وصولی پر سودا کر لیا۔ اردگرد موجود عام لوگوں کی نظروں سے چھپنے کی کوشش کئے بغیر ‘جو رقم وہ برسرعام قصور وار سے پکڑ کر جیب میں ڈالتا ہے‘ اس عمل کو” مک مکا‘‘ کہتے ہیں اور یہ اتنی کثرت سے ہوتا ہے کہ ہمارے ہر شہری کو علم ہے کہ سڑک پر کھلے بندوں کیا کیا جا رہا ہے۔
ہمارے طرزِ حکومت میں یہ چیز اتنی عام ہے کہ ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ مثلاً ان دنوں ملک کے اعلیٰ ترین عہدیدار چیئرمین نیب اور ان کے عملے کے بارے میں جن خیالات عالیہ کا اظہار کر رہے ہیں‘اصل میں وہ ”مک مکا‘‘ ہی ہے۔یہ ترکیب غیر پارلیمانی بھی نہیں۔ جب پارلیمنٹ میں یہ ترکیب استعمال کی جا رہی ہو تو نہ بولنے والے کو جھجک ہوتی ہے اور نہ سننے والا اسے معیوب سمجھتا ہے۔یہ ترکیب ہماری پارلیمنٹ کی مقبول اصطلاح ہے۔ اگر آپ اس کا تجزیہ کر کے دیکھیں‘ تو واضح ہو گا کہ اصل میں‘ یہ کسی غلط کام پر”اتفاق رائے‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ نہ یہ کام کرنے والے شرماتے ہیںنہ اس پر اظہار رائے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی دیکھنے والے‘ اسے اس نظر سے دیکھتے ہیں‘ جیسے کسی خوبرو نوجوان لڑکے لڑکی کو سڑک پر بات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ جس جوڑے کو آپ غلط تصور کے ساتھ دیکھتے ہیں ‘وہ اصل میں بھائی بہن بھی ہو سکتے ہیں۔ عام شہریوں کا خیال اس طرف جاتا ہی نہیں۔بالکل اسی طرح جب پولیس کا کوئی اہلکار‘ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی شہری کو‘ گھیر کے سودے بازی کر رہا ہو‘تو ہمارا ذہن کسی غلط اور فحش خیال کی طرف نہیں جاتا ۔ ہم اسے” مک مکا‘‘ سمجھ کر معمول کی بات تصور کرتے ہیںجبکہ برسر راہ ایک ساتھ چلنے والے بہن بھائیوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ‘ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے ہمارے حکمران ‘ چیئرمین نیب اور ان کے ماتحت اہلکاروں کو اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں‘ جس نظر سے انہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور مضحکہ خیز محکمہ ہے۔ دنیا میں باضابطہ قانون شکنی پر مامور‘ شاید ہی کوئی محکمہ پایا جاتا ہو‘ جو نیب کے اہلکاروںجیسی ڈیوٹی دے۔ اس محکمے کے فرائض میں کرپشن کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے فرائض کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ نیب والوں کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ وہ سرکاری ذمہ داریاں ادا کرنے والے کسی بھی ملازم ‘ افسر یا عوامی نمائندے کو‘ ناجائز لین دین کرتے ہوئے پکڑ لیں ‘تو وہ اسے یہ نہیں کہتے کہ تم نے کوئی جرم کیا ہے۔ اسے پکڑ نے کے بعد‘ یہ سودا کرنا ان کے فرائض کا حصہ ہے کہ تم نے سرکاری امانت میں خیانت کرکے قابل سزا جرم کیا ہے۔ناجائز طریقے سے حاصل کی ہوئی یہ رقم‘ تمہارے لئے حرام ہے جبکہ ہماری ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ اس رقم کا مقررہ حصہ تم ہمیں دو گے تو یہ جائز ہو جائے گی۔ خود کھائو گے تو حرام ہے۔پابندی صرف یہ ہے کہ تمہاری نا جائز کمائی ہوئی دولت لاکھوں اور کروڑوں میں ہو‘ چند سو یا چند ہزار کھانے والے کی طرف نیب کے افسر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ نیب کی توجہ حاصل کرنے کا مقررہ اور رائج طریقہ یہ ہے کہ ناجائز کمائی کرنے والا لاکھوں‘ کروڑوں بلکہ اربوں میں خورد برد کرے اور پھر یہ ادارہ اس کے ساتھ مک مکا کرے۔
مجھے علم نہیں کہ رشوت خور کی کمائی میں مقررہ حصہ لینا‘ کسی بھی سرکاری اہلکار کے فرائض میں شامل ہو۔نیب دنیا کا واحد ادارہ ہے جو ناجائز کمائی کا سراغ لگاکر ملزم کو گرفت میں لیتا ہے‘ اس کی ناجائز کمائی میں حصہ طے کرکے حکومت کے خزانے میں جمع کرتا ہے۔دنیا میںکوئی حکومت اپنے ملازمین کی ناجائز کمائی کی باضابطہ حصے دار نہیں ہوتی۔ البتہ یہاں” مک مکا ‘‘کی اصطلاح سو فیصد درست ہے‘ کیونکہ ناجائز کمائی پر سرکاری اہلکار کے مقررہ حصے کا فیصلہ” مک مکا‘‘ میں ہوتا ہے۔ اس کی ہرگز پابندی نہیں کہ ناجائز کمائی کا سراغ لگانے والا اہلکار‘رشوت میں لی گئی رقم کا خود تعین کرے۔یہ پکڑنے اور پکڑے جانے والے کا باہمی اختیار ہے کہ خورد برد کی گئی رقم کا کتنا حصہ”مک مکا‘‘ کے خانے میں ڈالا جائے۔مثلاً دو ارب روپے کی خیانت پر اتفاق رائے ہو جائے ‘ تو اس کے بعد کرپشن کرنے والے کے ساتھ‘ کل رقم کا کتنے فیصد جائز قرار دیا جائے؟ اگر دونوں فریق25فیصد حصہ آپس میں بانٹتے ہیں تو50کروڑ کی رقم ان دونوں پر جائز ہو جائے گا۔ سرکارکے حصے کی جس غبن شدہ رقم پر” مک مکا‘‘ ہوتا ہے‘ اس میں سے ذاتی حصہ الگ کر کے‘ باقی رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرا دی جائے گی۔ صرف اتنی احتیاط کی ضرورت ہے کہ سرکار کے حصے میں آنے والی رقم 25فیصد کا ذکر نہ کیا جائے۔ وصول شدہ ناجائز رقم میں سے صرف ڈیڑھ ارب روپے کا اندراج کیا جائے اور باقی 50کروڑکا ذکر کاغذوںمیں نہ آئے۔کوئی ان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے کل کتنی رقم وصول کی؟ حکومت کو اس سے کیا غرض کہ ناجائز کمائی میں سے اس کے لئے کتنا حصہ مختص کیا گیا اور وصول کرنے والوں کو کتنا ملا؟ قانون میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں اور یہ بھی واضح نہیں کہ محکمہ اس ناجائز کمائی کا کتنا حصہ لیتا ہے۔
یہ نیب کے افسروں اور اہلکاروں کی مرضی ہے کہ انہوں نے خورد برد کی گئی رقم کا کتنا حصہ اپنے لئے جائز قرار دے کر باضابطہ وصول کیا اور کتنا بے ضابطہ؟جتنی رقم سرکار کے لئے وصول کی گئی‘ وہ جائز ہے اور جتنی فریقین نے آپس میں بانٹی‘ وہ ان کی ”کارکردگی‘‘۔رہ گیا وہ اعتراض جو وزیراعظم صاحب نے کیا ہے‘ محکمے کے فرائض کی روشنی میں دیکھا جائے تو ناجائز کمائی گئی دولت کا تعین کرنا‘ نیب کے افسران کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ذرا سی غفلت سے کام لیں تو سرکار اور خورد برد کرنے والے کے حصے میں جتنی رقم چاہیں رکھ دیں۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ رقم کی وصولی کرنے والے کے لئے ‘تھوڑی بہت رقم الگ سے مخصوص تصور کر لی جائے تاکہ حکومت کو بھی زیادہ رقم ملے۔ مثلاً اگر کسی نے پانچ ارب کھایا ہے اور نیب کے افسران دو ارب منوا لیتے ہیں تو ڈیڑھ ارب سیدھا حکومت کے خزانے میں چلا گیا۔ اگر رقم کھانے والا ارباب اقتدار سے” مک مکا‘‘ کر لے‘ تو حکومت کو کیا ملا؟ یہ ہے وہ باریک نکتہ‘ جس پر نیب کے قوانین مرتب کرنے والوں نے توجہ نہیں دی۔ نیب کے افسروں نے جتنے ملزموں کو پکڑ کر خورد برد کی گئی رقم وصول کر کے‘ سرکاری خزانے میں ڈالی‘ وہ ان کی ”کارکردگی‘‘ ہے اور جتنی رقم اپنی اپنی جیبوں میں ڈالی ‘وہ ”حسن کارکردگی‘‘۔ارباب اقتدار کا بنیادی فرض ہے کہ وہ سرکاری ملازمین سے بہتر کارکردگی لیں۔اس نادر خیال کی تحسین کرنا چاہئے کہ دنیا میں کسی بھی حکومت نے ‘خورد برد کی گئی رقم‘ سرکاری خزانے میں واپس جمع کرائی۔ ہاتھ سے دال چاول کھانے والے کا یہ حق ہوتا ہے کہ چاولوں سے بھری انگلیاں چاٹ لے۔