منتخب کردہ کالم

کڑوا سچ (فاروق ھارون)

2018″ء تک بچوں کے سکولوں میں 100فیصد داخلہ کا ہدف حاصل کیا جائے گا”۔ یہ خوشخبری تمام پاکستانیوں ، بالخصوص پنجاب میں رہنے والوں ، کے لئے محترم خادمِ اعلیٰ پنجاب کی طرف سے آئی تھی۔ اس سلسلہ میں چند امور غور طلب ہیں ۔ شعبئہ تعلیم میں “الف اعلان”ایک معزّزادارہ ہے۔ان کی مہم پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اہم اور قابلِ قدر خدمات فراہم کررہی ہے۔ اس مہم کی مالی معاونت برطانیہ کا بین الاقوامی تر قّی کا ادارہ کر رہا ہے۔ ویب سائٹ پر اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے سکول نہ جانے کے مسئلہ کو سنگین تو سب مانتے ہیں لیکن ان بچوں کی تعداد پراتفاق نہیں ہے ۔ “الف اعلان ” کی 2014میں شائع کردہ رپورٹ کا نام بجا طور پر “ڈھائی کروڑشکستہ وعدے”رکھا گیا ہے چونکہ ملک میں ان محروم بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ بتائی جاتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 47فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ان میں سے 60فیصد ایسے ہیں جو سرے سے کبھی سکول نہیں گئے اور 40فیصد وہ ہیں جوکبھی جایا کرتے تھے لیکن پھر چھوڑ گئے۔
شعبۂ تعلیم میںایک اور معتبرنام یونیسیف ہے جو اقوامِ متحّدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اتفاق سے یہ اقوامِ متحّدہ کا واحد ادارہ ہے جس کے دفاتر ہر صوبہ میں واقع ہیں چنانچہ تعلیم کے ساتھ اِن کا قریبی اور زمینی رابطہ ہے ۔تعلیم سے محروم بچوں کے بارے میں ان کی ایک رپورٹ سال 2013ء میں شائع ہوئی۔ ظاہر ہے اس میں درج کوائف چار سال پرانے ہیں۔ ان چار سالوں میں کیا فرق پڑا ہے اور کیا بہتری آئی ہے، اس بارے میںبہت سے دعوے ہوں گے۔یونیسیف کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں تقریباً 61لاکھ بچے پرائمری سکول سے باہر تھے۔ ان میں سے 26لاکھ سے زیادہ پنجاب میں تھے۔ آگے دیکھئے ۔تقریباً65لاکھ بچے پاکستان میں مڈل سکول سے باہرتھے جن میں سے تقریباً30لاکھ پنجاب میں تھے۔ اسی طرح تقریباً50لاکھ بچے ملک میں ہائی سکول نہیں پہنچے جن میں سے 23لاکھ سے زیادہ پنجاب میں تھے۔یہ تعداد بچوں کی عمر سامنے رکھ کربتائی گئی ہے۔ ایسے محروم بچوں کی اس وقت صحیح تعداد کیا ہے ؟ یقینایہ ایک اہم سوال ہے اور ا س کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ تعداد جو بھی ہو تشویش اور شرم کا باعث ہے۔اسی لئے جب مذکورہ نویداخباروں میں گونجی توذہن میں فوراًیہ سوال آیا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے جو سالہا سال سے ہمارے لیے پریشانی اور شرم کا باعث یہ المیہ چند مہینوں میں قصّہ پارینہ ہونے کو ہے؟ میں اس بحث میںہرگز نہیںجائوں گاکہ یہ خوشخبری درست ہے یا نہیں، ایسا ہو سکے گا یا نہیں؟ میری نظر میں یہ سوال اہم ہے لیکن اس سوال کے علاوہ کچھ اور بھی انتہائی اہم ہے۔ اگر محترم خادمِ اعلیٰ خوشخبری دے رہے تو یقینا ٹھیک ہی کہہ رہے ہونگے۔ میری پریشانی ایک اور وجہ سے ہے اور وہ یہ کہ جو بچے سکول جارہے ہیں ان کا کیا بن رہا ہے ؟ ہم سکول نہ جانے والے بچوں کے لئے پریشان ہیںاور شرمندہ بھی۔لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ جو بچے سکول جا رہے ہیں اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس بارے میں اطلاعات پریشان کُن اور مایوس کُن ہیں۔یہ فیصلہ کرنا، میری نظر میں، بہت مشکل ہے کہ ایک بچے اور اس کے خاندان کے لیے بڑا المیہ کیا ہے۔ محترم خادمِ اعلیٰ اوردوسرے صوبوں میں اُن کے ہم منصب اس سلسلے میں رہنمائی فرما سکتے ہیں۔ محرومی کی شدّت کس بچے اور اس کے خاندان کی زیادہ ہے؟ اُس کی جو سکول نہیں جاتا یا اُس کی جو ایک عام سرکاری یا غیر سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے؟تعلیمی معیار کی ہمارے ہاں زبوں حالی کا ہر سُو چرچا ہے۔ اس پر کچھ بھی کہنا کم ہے اور ایک لحاظ سے غیر ضروری بھی۔ ملک میں ہر ایک اس معیارِ تعلیم سے متاثر ہے۔
دوسری طرف دیکھیں کہ دنیاکدھر رواں دواں ہے۔ اس وقت سکول کی سطح پر تعلیم کے معیار سے متعلق دنیا میں دو معروف سروے باقاعدگی سے کئے جاتے ہیں۔ ایک PISA کہلاتاہے اور دوسرا TIMSS۔ اوّل الذّکر سے مراد ہے “طالبعلموں کی استعداد کی بین الاقوامی جانچ “۔ یہ 2000ء میں شروع ہوا۔ پہلے سروے میں32ممالک اس کا حصّہ تھے۔ آخری سروے 2015ء میں ہوااور72ممالک اس میں شامل تھے۔ TIMSSسے مراد ہے”سائینس اور ریاضی کی تعلیم میں بین الاقوامی رجحانات”۔اس سروے کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم ریاضی اور سائینس کی تعلیم تر قّی کے عمل میں ایک خصوصی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ اہمیت دوسرے مضامین کی حاصل نہیں ہے۔ یہ سروے 1995ء میں پہلی مرتبہ کیا گیا اوراب ہر چار سال کے بعد کیا جاتا ہے۔ آخری مرتبہ سروے 2015ء میں کیا گیا ۔ اس میں 60سے زیادہ ممالک شامل تھے۔ پاکستان کی عظمت پر فخر ہماری اجتماعی سوچ کا ایک اہم حصّہ ہے۔لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کو ان دونوں سروے میں شامل کرنے کے بارے میں کسی نے کبھی سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں۔ یہ ہے ہمارے معیارِ تعلیم کی حقیقت ۔
اگر TIMSSسروے کے نتائج کی بات شروع ہوئی تو لمبی ہو جائے گی۔مختصراً صرف اتنا بتانا ضروری ہے کہ سنگا پور، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، ہانگ کانگ کے سکولوں کے طالبعلم ریاضی اور سائینس جیسے اہم مضامین میں دنیا کی واحد” سوپر پاور” اور دیگر انتہائی امیر ممالک کے طالبعلموں سے کہیں بہتر پائے گئے۔ دلچسپ بات چند سال پہلے برطانیہ کے مشہور جریدے”دی اکانومسٹ”نے TIMSSکے نتائج پر بحث کرتے ہوئے بتائی۔ ہوایوں کہ ہر زاویے سے تحقیق کے بعد بھی یہ جاننا ممکن نہیں ہواکہ بہترین طلباء کے بہترین ہونے کی کیا وجوہ ہیں؟ کیا جماعت میں طلباء کی تعداد، سکول میں موجودسہولتیں، اساتذہ کی تنخواہ، والدین کی مالی حیثیت، امتحانات یا نصاب وغیرہ، وغیرہ میں سے ایک یا چند وجوہ اس امتیاز کی وجہ بنیں؟ تمام تر غورکے بعدمحققین اس نتیجہ پر متفق ہوئے کہ چند ممالک میں اساتذہ ریاضی کی بہترین تعلیم دیتے ہیں اور چنداور ممالک میں سائنس کی، اور یہ بھی کہ کسی بھی دیگر وجہ کا تعیّن، تمام ترتحقیق کے باوجود، ممکن نہ پایا گیا۔
سکول کی تعلیم آئندہ تعلیم کے لئے ایک انتہائی اہم سیڑھی ہے۔ کیا یہ واضح نہیں کہ دورِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر ہمیں بالکل نئے اور مختلف طرز کے اساتذہ کی ضرورت ہے؟ کیا بڑی تعداد میں اساتذہ کی اس نئی نسل کو تیار کرنا صوبائی حکومتوں،خصوصاً محکمہ تعلیم ،کی ذمّہ داریوں میں شامل ہے؟کیا اس کام کی ابتد اکر دی گئی ہے؟ راقم تیس سال سے بلواسطہ اور بلاواسطہ تعلیم کے شعبے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ماہر ہونے کا قطعاً دعویٰ نہیں اور ماہر ہوئے بغیر یہ صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی ابتدا اب تک نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ نئی نو ع کے اساتذہ کی اہمیت اور ضرورت کا احساس حکومتی حلقوں میں موجود دکھائی نہیں دیتا۔ بہترین تعلیم کی بات تو چھوڑئیے، مناسب سی تعلیم کی فراہمی کیلئے بھی اب تک کسی منصوبے کی تیاری کی اطلاع نہیں ہے۔ ہمارے منصوبے عامیانہ نوعیت کے ہوتے ہیںاور یقین کیجئے یہ ایک نئے دور کی نوید نہیں دیتے ۔ سکولوں میں بجلی، پانی، ٹائلٹ ، فرنیچر ضرور اہم ہیں۔ لیکن یہ تعلیمی معیار کی نوعیت اُس طرح سے تبدیل نہیں کرتے جس طرح سے عصرِ جدید کاایک استادیا ایک نیا نصاب ۔ یہ دونوں یقینا ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔چنانچہ سچ یہ ہے کہ ہم نے ابتدائی تعلیم کو عصرِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے ابھی پہلے قدم اٹھانے ہیں۔ان بچوں کو ہم سکول میں داخل کروا سکتے ہیں یا نہیں، یہ ضرور اہم ہوگا۔لیکن اصل اہم تقاضا یہ ہے کہ سکول میں داخلہ اور سکو ل جاری رکھنابامعنی اور بامقصد ہو۔ بچوں اور ان کے والدین کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ تعلیم ہی ہر بہتری کی کنجی ہے۔ اس وقت اِ س قسم کا کوئی اعتماد موجو د نہیں ہے۔