کھانا لگ گیا ہے…نذیر ناجی
پنجاب کے اشرف المخلوقات‘ جناب شہبازشریف کسی کو یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ اپنی افادیت کو نمایاں کر سکیں۔ ہوا یوں کہ تحریک انصاف کے سربراہ‘ عمران خان نے اپنی پارٹی کا منشور جاری کر دیا۔اگلے روز شہبازشریف نے اپنے لکھاریوں کو جمع کر کے پوچھا کہ ”سبقت‘‘ لے جانا کیا ہوتا ہے؟ان بے چاروں نے سر کھپا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سبقت بعدمیں لی جاتی ہے۔صوبائی سیاست میں جو کارنامے شہباز صاحب نے انجام دئیے‘انہیں مسلسل ان پر فخر ہے۔ وہ جب بھی کوئی انوکھا کارنامہ انجام دیتے ہیں تو ضد کرتے ہیں کہ مجھ سے پہلے‘ کسی نے ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ آپ میری جدت کو سمجھ نہیں پا رہے۔میں جو آج منشور پیش کر رہا ہوں‘ یہ مجھ سے صرف ایک دن پہلے عمران خان نے پیش کیا تھا۔ میں نے اگلے ہی دن منشور پیش کر دیا تو سبقت کس نے لی؟اپنے لباس اور نئے نئے فیشنوں میں ہمارے سابق وزیراعلیٰ ہمیشہ اہل لاہو ر کے تمام اجتماعات میںسبقت لیتے ہیں۔ آسمانوں پر بادل اڑتے نظر آئیں تو ہمارے ”جدتی‘‘ خادم اعلیٰ فوراً خدمت گزاروں کو حکم دیتے کہ ان کے لانگ شوز چمکا کر کار میں رکھ دیں۔ عموماً وہ بارش کو پکڑ لیتے اور پھر یہ لانگ شوز پہن کرکیچڑ میں ننگے پائوں پھرنے والوں کو بتاتے کہ بارش میں انگریز ایسے جوتے پہن کر نکلتے ہیں۔ بے چارے لاہور کے غریب بچے اور بزرگ اپنے چیف منسٹر کی” ایجادات‘‘ سے مرعوب ہو کر‘ حیرت میں ڈوب جاتے۔ ہمارے حاکم اعلیٰ اپنے لانگ شوز بچوں کو دکھاتے ہوئے کہتے ہیں”کبھی تم نے ایسے شوز دیکھے‘‘؟بچے زور زور سے تعریف میں سر ہلاتے ۔
یہاں مجھے کل کا واقعہ یاد آگیا۔ ایک خاتون ضلع مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس بار بھی وہ اپنے حلقے میں ووٹروں کو بڑی تعداد میں پولنگ بوتھزکی طرف لے جانے کے لئے سودا کر رہی تھیں۔ وہاں پر دریائے چناب گزرتا ہے۔محترمہ نے اپنے گائوں میں ووٹروں کی دعوت کی۔ یہ ووٹر دریا کی دوسری طرف سے بلائے گئے۔دریا کے پار جانے سے پہلے سادہ لوح ووٹروں کو دریوں پر بٹھایا گیا۔ دریاں بچھا کر چھاچھ کے گھڑے سلیقے سے رکھ دئیے گئے۔گھڑوں کے گلوں میں گلاب اور چنبیلی کے کھلے ہوئے پھول مہک رہے تھے۔حویلی سے گھی میں شرماتی ہوئی تازہ تازہ روٹیاں‘ مہمانوں کے سامنے سجا دی گئیں۔ لیکن مہمانوں کا ایک وفد مطالبہ لے کر بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو،”بی بی جی! ہم غریب لوگ ہیں۔ صبح یاتو ہم باسی روٹیاں کھاتے ہیں یا ڈبل روٹی منگوا کر رات کے سالن سے کھالیتے ہیں۔ مگر آپ ہمیں یہ کیا نیا ناشتہ کھلارہی ہیں؟‘‘
اس پر جمہوریت پسند خاتون لیڈر حیران ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں” تم بِٹ بِٹ کیا دیکھ رہے ہو؟ ایسے ناشتوں کو تو شہر والے ترستے ہیں۔ میں تمہیں اپنے گائوں میں کھلا رہی ہیں اور تم لوگ کیا چاہتے ہو‘‘؟
مہمانوں میں سے ایک معزز ووٹر نے ادب سے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ”بی بی!دوسری طرف کے ممبرہمیں بڑے گوشت کا قورمہ تازہ تازہ روٹیو ں کے ساتھ کھلا رہے ہیں ۔ یہاں ہمیں صرف گھی سے چپڑی روٹیاں لسی کے ساتھ کھلائی جا رہی ہیں‘‘۔
دیر تک توتو میں میں ہوتی رہی۔بڑی توتکار کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ وہ دریا کے پار آنے کے لئے دو دوروپے نقد لیں گے اوراس کے ساتھ امیر گھرانے کا ناشتہ بھی پیش کیا جائے گا۔ سمجھوتہ تو ہو گیا لیکن دریا کے پار والے ووٹر‘ابھی تک آپس میںتکرار کر رہے ہیں کہ ”انہوں نے دریاکے پار آنے سے پہلے‘ ناشتہ کرنے کی دعوت کیوں قبول کی؟‘‘
بیگم صاحبہ کو اتنا غصہ تھا کہ انہوں نے دریا سے واپسی پر کسی کا سلام بھی قبول نہ کیا۔ راستے میں اندھیرا ہو گیا۔ چناب کے پانی کی لہریں جھوم جھوم کے مزے لوٹ رہی تھیں۔کشتی والے نے دریا کے پار اترنے سے پہلے کہا کہ” اتنی مہمان داری کے بعد ‘ہم تمہیں واپسی کا کھانا بھی دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود شکایت کر رہے ہو۔کوئی تو شرم و حیا کرو‘‘۔
مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا۔ میں پڑوس کے ایک گائوں میں عادی ممبر کی دعوت پر اس کے گھر چلا گیا۔چھوٹے شہروں یا دیہات میں الیکشن میلے ٹھیلے کی طرح ہوتا ہے اور خصوصاً سفید پوش لوگوں کو اچھی چارپائی پر بٹھا کر لسی اور گُڑ کے ساتھ‘ گھی میں رچی ہوئی روٹیاں پیش کی جاتی ہیں۔ہمارے میزبان ایک بہت بڑے جاگیردار تھے۔ میں ہینڈ پمپ پر منہ دھونے بیٹھ گیا۔ اپنی گھڑی اتار کے ایک اینٹ پر رکھی۔ جب واپس آیا تو میری گھڑی غائب ہو چکی تھی۔ یہ گھڑی میں نے برطانیہ کے دورے کے دوران خریدی تھی اور اتنا بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کا برینڈ کیا ہے؟ رخصت ہوتے وقت میں نے اپنے وڈیرے میزبان سے سرگوشی میں کہا ‘ میں نے گھڑی نل کے قریب رکھی تھی مگر وہاں سے غائب ہو گئی‘‘۔
میزبان جو کہ بہت بڑے سیاسی لیڈر ہیں‘انہوں نے بڑی ہی شرمندگی اور عاجزی سے کہا ”آپ مجھے شرمندہ کرر ہے ہیں؟ گھڑی بھی کوئی چیز ہے؟ جب ضرورت پڑے کسی بھی راہ گیر کو روک کر ٹائم پوچھ لیں‘‘۔
اس کے بعد نہ تو میں گھڑی خریدتا ہوں اور اگر باندھ لوں تو اسے بھول جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں۔ ایسی ہی ایک اور میزبانی مجھے یاد ہے۔ شہر کے ایک معزز لیڈر نے بڑی شان و شوکت سے اپنے گھر ولیمہ کیا۔یہ بھی ایک بڑا گائوں تھا۔ جب میزبان کو اندازہ ہوا کہ کھانا لگ گیا ہے تو اس نے بڑے تکلف سے مہمانوں کو دعوت دی”آئیے! کھانا لگ گیا ہے‘‘۔سب بڑے خوش ہوئے مگر جب کافی دیر تک کوئی نقل و حرکت نہ ہوئی تو مہمان میزبان کی طرف دیکھنے لگے۔ میزبان مہمانوں کی طرف دیکھنے لگا۔ اور دونوں حیرانی سے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر بعد‘ جب سب نے نظروں نظروں میں اشارے کر لئے تو ایک دوسرے سے پوچھا” کھانا کدھر ہے‘‘؟ تو میزبان نے مہمانوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ”کھانا کدھر ہے؟‘‘ کافی تحقیق اور سراغ رسانی کے بعد معلوم ہوا کہ اردگرد کے دیہاتی گھوڑوں اور گدھا گاڑیوں پر بیٹھ کرآئے اور دیگیں لاد کر رفو چکر ہوگئے۔ سب نے اندازہ کیا کہ” معزز مہمان یا تو کھانا کھا چکے ہوں گے یا بیچ گئے ہوں گے‘‘۔