کیا آپ پچھتاوے کا شکار ہیں؟….حسنین جمال
گرمی ٹائٹ تھی، حبس وہ والا کہ سگریٹ پینے کو دل نہیں چاہتا تھا، سڑکوں پہ رش ایسا تھا کہ تیسرا گیئر مشکل سے لگے، فل ٹائم واہیات دوپہر تھی اور کم از کم ایک سو بیس کلومیٹر کی ڈرائیو شہر میں ہو چکی تھی۔ گھر کا راستہ ابھی کافی تھا۔ شدید تھکن تھی، سارا جسم جیسے تھک ہار کے ریٹائر ہونے والے موڈ میں تھا۔ سب سے مشکل مرحلہ ابھی باقی تھا۔ وہ سڑک جو ان دنوں بن رہی ہے، جہاں ساری ٹریفک ایسے پھنستی ہے جیسے کسی برساتی نالے میں شاپر پھنس جائے، ابھی وہ سڑک آنی تھی۔ ایک اور آپشن تھا لیکن وہ بھی اتنا ہی خبیث الدہر اور تھکا دینے والا تھا۔ اگر اس خراب سڑک سے بچنا ہے تو آپ کو ایک ایسی کالونی سے گزرنا پڑے گا جہاں گن کے چھبیس سپیڈ بریکر آئیں گے۔ مطلب کہ چھبیس مرتبہ بریک لگاؤ، کلچ دباؤ، لاحول پڑھو اور آگے بڑھو۔ لیکن ادھر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ چھبیس میں سے ایک بھی سپیڈ بریکر پہ دھیان نہ گیا تو جھٹکا بڑا بُرا لگنا تھا۔
کھڈے، جھٹکے، سپیڈ بریکر نظر نہ آنا ایک المیہ ہے اور اپنے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایک دفعہ بیٹھے بٹھائے نجف خان کی اپینڈیکس کا مسئلہ ہو گیا۔ بھاگم بھاگ غریب ہسپتال داخل ہوا، آپریشن کروایا، ماں باپ، چاچوں، سب کی دوڑیں لگ گئیں، جس دن ڈسچارج ہونا تھا اس دن صبح تھوڑا جلدی چھٹی مل گئی۔ میں اس کے پاس ہی تھا، موٹر سائیکل بھی تھی، میں نے کہا: چل یار چلیں، وہ جوان بھی تیار ہو گیا۔ اب ایک مریض کو لیے ہوئے فقیر مین روڈ سے گزر رہا ہے، موٹر سائیکل چالیس پچاس کی سپیڈ پر ہے، مریض اچانک چیختا ہے، ”اوئے سپیڈ بریکر‘‘ موٹر سائیکل چلانے والا جواب دیتا ہے کہ ہاں ہاں نظر آ رہا ہے اور ساتھ ہی بغیر بریک لگائے سپیڈ بریکر پہ چڑھ جاتا ہے۔ مریض کا جو حشر اس جھٹکے سے ہوا وہ تو بندہ سوچ ہی سکتا ہے لیکن مریض نے جس طبیعت اور تلفظ سے گالیاں دیں وہ پھر سوچ ہے آپ کی!
تو اس مختصر حکایت کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ بریک وقت پہ نہ لگا سکنا ایک سنڈروم ہے اور وہ بھائی کو لاحق ہے۔ آپشن وہی دو تھے، یا ادھڑی ہوئی سڑک پہ گاڑی پھنسا لو یا چھبیس اُچھلو (کیسا واہیات ترجمہ ہے سپیڈ بریکر کا!) کراس کرو۔ تھوڑا حساب کتاب کر کے گاڑی خراب والی سڑک پہ ڈال لی۔ موت سے پہلے مر جانے والی کوفت میں جب اس جگہ پہنچا جہاں گاڑی پھنسنا تھی تو ایک دم جھٹکا لگا۔ جو سڑک تین ماہ سے بن رہی تھی آج ایک دم ریڈی تھی۔ اکھی کھلی، مطلب ادھر سے آؤ اُدھر سے جاؤ، برابر ٹو وے ٹریفک۔۔۔ تو جیسے ہی اس پہ چڑھا یہ کالم پکنا شروع ہو گیا۔ ویہلے لوگوں کی یہی نشانی ہے، کوئی بھی کام کریں اس میں کہانی ڈھونڈتے ہیں یا اخلاقی سبق، ادھر دونوں مل گئے اور کمال ملے۔ اگر میں اس راستے پہ جاتا جہاں بہت دفعہ بریک لگانی تھی تو وہ ایک طے شدہ راستہ تھا، معلوم تھا کہ بابا اتنی دفعہ اچھلو گے تو گھر آ جائے گا، یہاں کچھ طے نہیں تھا، زیادہ سے زیادہ یہ خوش گمانی تھی کہ ٹریفک کم ہوئی تو جلدی سڑک کٹ جائے گی، چنانچہ فقیر نے رسک لیا۔ اب رسک کا پھل یہ ملا کہ نئی تارکول بچھی کالی ٹیٹ سڑک دھوپ میں چمکتی ہوئی اپنا استقبال کر رہی تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ وہی رش ملتا، ہو سکتا ہے گاڑی اتنی پھنستی کہ آتما رُل جاتی، آدھے گھنٹے بعد ایک ہی جگہ کھڑے رہ کر پتا لگتا کہ فلاں یونیورسٹی کی چھٹی کا ٹائم تھا تو پوری سڑک کی واٹ لگ گئی، بات ختم، کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راستہ کھلا تھا اور ٹریفک بھی کم تھی، سوار اپنے گھر سکون سے پہنچ گیا۔
زندگی بس اسی رسک کا نام ہے۔ لینا ہے تو لے لیں مگر فائدہ کوئی خاص نہیں ہونا۔ ”اگر میں ایسا کر لیتا تو ویسا ہو جاتا، اگر میں ویسا کرتا تو شاید ایسا ہو جاتا، کاش اس وقت میں یہ کام کر لیتا، افسوس میں نے وقت پہ ٹھیک فیصلہ نہیں کیا‘‘ اور وغیرہ وغیرہ۔ روز انسان کے دماغ میں ایسے خیالوں کی لہریں آتی ہیں، کوئی کوئی دماغ تو انہی باتوں کا سمندر ہوتا ہے اور پچھتاوے کا شکار فرد کب کا ڈوب بھی چکا ہوتا ہے، جیسا وہ ہمیں نظر آتا ہے وہ اس کے بے روح جسم سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ مگر یقین کر لیجیے کہ اس وقت آپ جو بھی فیصلہ کرتے آج آپ نے سوچنا یہی تھا کہ کاش میں ایسا نہ کرتا۔ یہ طے تھا کہ حالات نے آپ کو گھیر گھار کے ادھر لانا تھا‘ جہاں آپ اب کھڑے ہیں۔ جیسے میں نے سوچا کہ میں گاڑی فلاں سڑک سے لے کر جاؤں گا، اس کے پیچھے ایک طویل عرصے کی تھکن اور کوفت کا تجربہ شامل تھا۔ اس دن ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ میں سپیڈ بریکر والا راستہ پکڑ لیتا۔ اس دن میرے کلچ دبانے والی ٹانگ کے گھٹنے میں بھی درد تھا اور دوسرے کئی ایسے باریک چکر تھے جن کی وجہ سے میں نے وہ فیصلہ کیا (جو مجھے اس وقت یاد آ رہے ہیں)۔ اب اگر ٹریفک ملتی، سڑک کھدی ملتی تو میں بھی پچھتایا ہوتا‘ آف کورس لیکن یہ سوچنا بے معنی ہے کہ میں دوسرے راستے سے گیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اگر میں دوسرے راستے پہ چلا بھی گیا ہوتا تو ادھر بھی کوئی نہ کوئی کتا خواری اس دن میرے قدم چومتی، یہ طے ہے!
ہمیں بعض باتیں سمجھ نہیں آ رہی ہوتیں‘ لیکن وہ بہرحال ہو تو رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت آپ کے علاقے میں جتنے رہنے والے ہیں، فرض کیا پانچ لاکھ لوگ، اگر وہ سب کے سب اسی سڑک پہ آنا چاہیں جہاں سے آپ روزانہ کام پہ جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟ شدید ٹریفک جام اور لمبی ذلالت، یہی سب کچھ ہمارے روزمرہ معاملات کا بھی حال ہے۔ ایک آدمی کے خیالات/مفادات کا سیٹ دوسرے آدمی کے خیالات/مفادات سے ٹکرا جائے تو یا ملاقات ہو جائے گی اور یا ایکسیڈنٹ‘ لیکن اگر دس آدمی آپس میں ٹکرا جائیں تو اسے کیا کہیں گے؟ اس کا مطلب بس یہی ہو سکتا ہے کہ بندوں کا سافٹ ویئر کہیں نہ کہیں خراب ہو گیا۔ ایسا عام طور پہ نہیں ہوتا۔ صرف اسی لیے نہیں ہوتا کہ ہم سب کسی نہ کسی سوچ کے سیٹ پیٹرن پہ چل رہے ہیں۔ ہمیں آزادی کا احساس تو ہوتا ہے لیکن بات اتنی سادی نہیں ہوتی۔ کسی بھی پچھتاوے کے وقت بیٹھ کے ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ایسی ایسی تفصیلیں یاد آئیں گی کہ آپ اپنے آپ کو باعزت بری کر دیں گے۔ جدھر آپ پھنسے، ادھر آپ نے وہی کیا جو آپ نے کرنا تھا، نتیجہ کیا نکلا‘ یہ اس مخصوص وقت میں باقی دنیا والوں کا پلان طے کرے گا۔ جیسے اگر اس وقت سڑک تاحال کھدی ہوتی تو میں کیا کر سکتا تھا؟ یہ بہرحال باقی دنیا کا پہلے سے طے شدہ کام ہوتا۔
تو اے پچھتانے والے لوگو، یقین رکھو کہ جس وقت تم نے جو کیا وہ ٹھیک کیا، تم کر ہی وہی سکتے تھے، اس کا نتیجہ بہرحال اس وقت تمہارے آس پاس موجود لوگوں کے سیٹ آف انٹرسٹ نے طے کرنا تھا۔ تم جو بھی کرتے‘ تمہیں اسی طے شدہ راستے پہ چل کر یہیں کھڑا ہونا تھا جہاں اب ہو۔ مثالوں کے ڈھیر لگائے جا سکتے ہیں لیکن سمجھنے والے کو ایک ہی واقعہ کافی ہے جو عرض کر دیا۔ یار سیدھی بات ہے تم دنیا میں آ گئے، آف کورس تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا، کب جاؤ گے؟ کچھ معلوم نہیں، تو بس یہی سین باقی سب کا بھی ہے۔ اب اس میں جو معلوم ہے وہ صرف اتنا ہے کہ سب لوگ اگر ایک ہی راستہ چنیں گے تو پھنسنے اور الجھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکے گا، یہ جو سات ارب انسان ”جو مرضی‘‘ چاہتے ہیں کرتے پھرتے ہیں، اس کا اچھا یا برا کوئی بھی نتیجہ دوسروں کو اثرانداز کیے بغیر نہیں آ سکتا، تو جو رزلٹ ایک مخصوص وقت میں سامنے آئے گا وہ ان کے لکی یا اَن لکی ہونے کا فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ وہ ایک ایڈجسٹمنٹ ہو گی، کائناتی ایڈجسٹمنٹ، آفاقی سائنس… مشکل ہو گیا؟ دوبارہ سے پڑھ لیں، مجبوری ہے، پچھتاوے کا شکار انسان مفت میں رُل رہا ہوتا ہے، یہ بس ہر ایسے آدمی اور اپنے آپ کی ہمدردی میں لکھا گیا کچھ سامان ہے، جسے کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ پہلے ہی ملنگ ہے، خیر ہو مرشدو فیر پڑھنا شروع کیوں کیتا سی؟