کیا آپ ڈپریشن کے مریض ہیں؟….حسنین جمال
اس دن ایک دوست بہت اداس بیٹھا ہوا تھا۔ ٹھیک ٹھاک ٹینشن چل رہی تھی۔ وہ کسی گھریلو معاملے پہ ڈپریشن میں تھا۔ ساری بات ختم کر کے جاتے جاتے اچانک منہ سے نکل گیا، ”او کوئی نئیں یار، غم نہ کر، جے او دن نئیں رئے تے جان آلے ایہہ وی نئیں۔ (کوئی بات نہیں یار، غم نہ کر، اگر وہ دن نہیں رہے تو جانے والے یہ بھی نہیں)۔ واللہ وہ بندہ کھلکھلا کے ہنس پڑا۔ اس کے بعد کام تھوڑا آسان ہو گیا۔ پھر ہم لوگوں نے کافی دیر تک مسئلہ ڈسکس کیا اور کچھ نہ کچھ جگاڑ لگا ہی لی۔ یہ گھسی پٹی جگت دو گھنٹے پر محیط کاؤنسلنگ سیشن کا ٹرننگ پوائنٹ تھی۔ ڈپریشن واقعی بڑی منحوس چیز ہوتا ہے۔ پھنسنے والا بندہ جانتا ہے کہ وہ اس بھنور میں گول گول گھوم کے غرق ہوتا جا رہا ہے لیکن نکلنے کے لیے کوئی آسرا ہاتھ نہیں آتا۔
ڈپریشن کوئی فیشنی لفظ نہیں ہے، یہ واقعی ایک خطرناک بیماری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی ہٹا کٹا، خوش خوشحال، کھاتا پیتا بندہ بولے گا کہ یار مجھے ڈپریشن ہے تو ہمارا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ ابے تجھے کیا غم ہے؟ ایسے نہیں ہوتا۔ ڈپریشن تو بھائی بغیر کسی وجہ کے بھی ہو جاتا ہے۔ یہ واحد بیماری ہے جس کی ڈیفینیشن میں دیکھیں تو آپ کو لکھا نظر آئے گا کہ بعض اوقات اس کی وجوہات موجود نہیں بھی ہوتیں۔ ہاں، اگر کسی وجہ سے ہوا تو اس میں بھی ایک ہزار ایک وجہیں سامنے آ سکتی ہیں۔ انسان اکیلا رہتا ہو، زیادہ دوست یار پاس نہ ہوں، گھر والوں سے دور ہو، جسم بہت زیادہ تھک گیا ہو، شادی شدہ زندگی ٹھیک نہ ہو، خدا نہ کرے کسی قریبی بندے کی بیماری چل رہی ہو یا وفات ہو جائے، نوکری نہ ہو، کاروبار میں گھاٹا ہو جائے بلکہ سب چھوڑیں یار، نئی نوکری یا نیا کاروبار شروع کر کے بھی ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ تو سب سے پہلی بات یہ طے ہوئی کہ ڈپریشن باقاعدہ ایک بیماری ہے، ایویں نہیں کوئی بندہ کہہ رہا ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ ڈپریشن کا مریض پاگل آدمی نہیں ہوتا۔
دیپیکا پڈوکون اچھی خاصی خوبصورت اور مشہور اداکار خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دماغی بیماری کے ساتھ معاشرہ کسی آدمی کو قبول نہیں کرتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ داغدار ہے، وہ نارمل نہیں ہے، ڈپریشن اس کی ذات پہ موجود خوفناک دھبہ بن جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مریض لوگ اس پہ بات ہی نہیں کرتے۔ دیپیکا نے اس بارے میں بولنا شروع ہی اس لیے کیا کہ ایک طویل عرصہ وہ اس بیماری کی مریض رہ چکی ہیں۔ ”میری زندگی کا ایک طویل عرصہ اس لیے ضائع ہوا کہ میں یہ بات کسی سے شئیر ہی نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے اگر بخار ہو تو میں لوگوں کو بتا سکتی ہوں، کہیں زخم آ جائے تو دکھا سکتی ہوں لیکن جو کچھ اندرخانے چل رہا ہے وہ میں کیسے بتاؤں گی؟ کیا میں ان سے کہوں گی کہ مجھے نفسیاتی مسئلہ ہے؟ ایسے لگتا تھا جیسے میرے کندھوں پہ کوئی بھاری بوجھ رکھا ہے، میں سانس نہیں لے پاتی تھی۔ تو جب میں تھوڑی سی بہتر ہوئی اور مجھے محسوس ہوا کہ میں لوگوں کا سامنا کر سکتی ہوں‘ بس اسی وقت میں نے ٹھان لیا کہ میں لوگوں کو بتاؤں گی کہ سنو، میں اس سب سے گزری ہوں، میں نہیں چاہتی کوئی اور بھی گزرے اور اگر کوئی اس مسئلے کا شکار ہو بھی جائے تو وہ جانتا ہو کہ اب اسے کرنا کیا ہے۔‘‘
آپ چڑچڑے گھوم رہے ہیں، اداس بلبل بنے ہوئے ہیں، بہت زیادہ تھکن ہے اور ایویں خواہ مخواہ ہے، سامنے کی باتوں پہ توجہ نہیں ہو پا رہی، اپنے آپ پہ رہ رہ کے ترس آ رہا ہے، کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی، فیوچر ایک دم کالا گھنا بادل بن گیا ہے، نیند اڑ چکی ہے، آئے تو ڈراؤنے خواب ساتھ آتے ہیں، بے کار میں رونے کو دل کرتا ہے، بھوک نہیں لگ رہی، گردن اکڑی ہوئی ہے، کندھوں میں مستقل درد ہے، گھبراہٹ ہے، باتھ روم کی کنڈی لگاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ مر گیا تو کون نکالے گا؟ عجیب سی بے چینی ہے، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، اپنا آپ دنیا میں فالتو لگ رہا ہے، حد یہ کہ خود کشی کا دل کر رہا ہے تو عزیز من یہ نارمل نہیں ہے۔ ان میں سے تین چار رپھڑ بھی اکٹھے چل رہے ہیں تو آپ ڈپریشن کے مریض ہیں اور آپ کو علاج کی ضرورت ہے۔ یار جب دیپیکا کو ہو سکتا ہے، سنجے دت کو ہو سکتا ہے، روحی بانو جیسی خوبصورت خاتون اداکار کو لے ڈوبتا ہے تو ہم آپ تو بالکل ہی زمینی مخلوق ہیں، ہمیں بھی ہو سکتا ہے۔ اور اداکاروں کی مثال بھی اس لیے دی ہے کہ اکثر ہم انہیں ہمیشہ سپر نیچرل سمجھتے ہیں لیکن یہ چکر کہیں بھی چل سکتا ہے۔
اب اس کے علاج سے متعلق دو باتیں ہیں۔ ایک اچھی بات ہے ایک بری بات ہے۔ ظاہر ہے اچھی بات کی باری پہلے آئے گی، تو اس کیفیت میں اچھی بات یہ ہے کہ چار چھ مہینے میں یہ خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ اور ستر سے اسی فیصد مریض بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ انہیں کوئی مسئلہ تھا۔ وہ ”گیس ٹربل‘‘ یا تبخیر کو الزام دیتے ہیں اور لوٹ پوٹ کے فٹ ہو جاتے ہیں۔ بری خبر یہ ہے کہ جو بیس تیس فیصد باقی بچتے ہیں وہ ایک طویل عمر اس میں گرفتار رہ سکتے ہیں۔ وہ خود کشی بھی کر جاتے ہیں۔ اگرچہ خود کش لوگ احمقانہ حد تک بہادر ہوتے ہیں یا شدید بزدل لیکن یہ دونوں کیفیتیں جو ایکسٹریم پہ ہوتی ہیں یہ اسی بیماری کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
اگر آپ کو یا کسی جاننے والے کو ڈپریشن ہے تو یار پہلی بات ہے کہ یہ ایک بیماری ہے جیسے دانت کا درد بیماری ہوتی ہے۔ اس کے لیے آپ ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہیں، اس کے لیے سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا پڑے گا۔ دوا سے ڈر لگتا ہے؟ بعض اوقات اچھا سائیکاٹرسٹ باتوں سے ہی ٹھیک کر دیتا ہے۔ اچھا اگر ڈاکٹر کے بھی نہیں جانا تو سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا میں کروڑوں لوگ انہی حالات میں ہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ نیند نہیں آ رہی تو ٹی وی یا فلم دیکھ لیں، کچھ بھی ایسا کریں کہ دماغ ڈائیورٹ ہو، اس کام میں لگے۔ تازہ پھل اور سبزیاں کھائیں، بوٹیاں اڑانا کم کر دیں۔ بھلے پندرہ بیس منٹ کی واک ہو اور کسی بھی ٹائم ہو لیکن وہ ضرور کریں۔ کوئی نہ کوئی ایک رازدار ضرور بنائیں، اچھی بری باتیں جس سے شیئر کی جا سکتی ہوں، یہ تو فرض ہے۔ پھر چائے، سگریٹ، شراب یہ تینوں کم بخت اینڈ میں جا کے ڈپریشن بڑھاتے ہی ہیں۔ افسوسناک بات ہے مگر ہے یہی۔ کوشش رکھیے کہ جس چیز کے بھی عادی ہیں اس کا استعمال کم سے کم ہی رہے۔ مٹی سے اپنا تعلق جوڑئیے۔ ننگے پاؤں گیلی ریت پہ، گھاس پہ، مٹی پہ چل کر دیکھیں، ہاتھوں سے باغبانی کریں یا بے شک گملوں میں پودے اگا کے دیکھیں، کوئی بھی ایسا کام کریں جس میں ٹکا کے پسینہ بہے۔ پراپر مصروفیت نہیں ہے تو فالتو کے کاموں میں بزی رہیں لیکن کچھ نہ کچھ کریں۔ فارغ دماغ مسائل کی کھڈی ہوتا ہے۔ گھوم چرخڑہ سائیاں دا تیری کتن والی جیوے۔ سائیں سے یاد آیا آپ پیر فقیر ٹرائے کر لیں، یہ ہو سکتا ہے وہ آپ سے کہیں کہ فلاں مزار پہ جاؤ اور دھمال ڈالو، نعرے مارو بابا جی کے، تو یار اس سے بھی فرق پڑے گا لیکن وہی کام کسی اور ہلے گلے والے کھیل سے بھی ہو سکتا ہے۔ بات کتھارسس کی ہے، بھڑاس نکالنے کی ہے، جہاں نکل گئی تو آگے راستہ صاف ہے۔
جو یاد رکھنے کی بات ہے وہ صرف یہ کہ مرد کو درد ہو سکتا ہے۔ مرد رو بھی سکتا ہے۔ مرد حسب ضرورت تکلیف سے چیخ بھی سکتا ہے۔ ڈپریشن کو لڑکیوں کا مرض سمجھ کے اس کیفیت سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ کوئی مردانہ یا زنانہ کمزوری نہیں ہے یار، بیماری ہے، پراپر بیماری ہے جو ٹھیک نہ ہوئی تو سو اور جگہ رائتہ پھیلے گا۔ اگر خدا کے فضل و کرم سے آپ بالکل ٹھیک ہیں تو بھی آپ کا یہ سب کچھ پڑھنا ضائع نہیں گیا۔ ڈھونڈیں آس پاس، جو بھی پریشان حال دوست یا بزرگ ملے اس کا خیال رکھیں۔ صرف اسے وقت دے کر بھی آپ اس کی صحت واپس لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ باقی فیر جس تن لاگے سو تن جانے۔ اور کچھ بھی نہ کریں تو یار کم از کم مذاق اڑانا چھوڑ دیں۔ ڈپریشن والے بندوں کی بد دعا ذرا جلدی قبول ہوتی ہے، مشتری ہوشیار باش!