کیا آپ کی گاڑی جینوئن ہے؟….حسنین جمال
ہماری آٹو مارکیٹ پوری دنیا سے ہٹ کے ہے ۔ آپ کی کسی بھی اور ملک میں جائیں، وہاں جا کے دیکھیں سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں کیسے بکتی ہیں، اس کے بعد اپنے یہاں واپس آ جائیں۔ فرض کیا 2004 ء ماڈل کی گاڑی آپ نے رکھی ہوئی ہے ۔ آپ چاہتے ہیں کہ یار نئی گاڑی کی بجائے اسی کو تھوڑا لش پش کرا لیا جائے تو آپ ایک دم غلطی پہ ہیں۔ آپ کی گاڑی کا رنگ جتنا گھسا ہوا ہو گا، جگہ جگہ سے استر (جو پینٹ کی سب سے آخری تہہ ہوتی ہے ) جتنا زیادہ جھانک رہا ہو گا، پانچ سال پہلے پڑنے والے ڈینٹ کے نشان جس قدر واضح ہوں گے آپ کی گاڑی اتنی زیادہ ”جینوئن‘‘کہلائے گی۔ اور جینوئن گاڑی کی ویلیو کسی بھی ایسی کم نصیب گاڑی سے کم از کم تیس پینتیس فیصد زیادہ ہو گی، جسے مالک نے دل سے لگا کے رکھا، فرسٹ کلاس طریقے سے پینٹ شینٹ کرواتا رہا، گاڑی ٹھوکی تو ڈینٹ نکلوائے ، کہیں سے زنگ لگا تو ادھر مرمت کروائی، مطلب فل ٹائم کئیر کرتا رہا۔
آپ پرانی گاڑی لے کے جائیں کسی بھی سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی مارکیٹ میں، بہت سے ماہرین آ کے گاڑی چیک کرنے لگ جائیں گے ۔ جیسے پرانے زمانے میں بزرگ بتاتے تھے کہ مٹی کا کورا برتن وہ ہوتا ہے جسے ایک انگلی سے بجایا جائے تو کھنکتی ہوئی ٹن کی آواز سنائی دے ، عین اسی طرح ماہر لوگ انگوٹھے میں شہادت کی انگلی پھنسا کے آپ کی گاڑی کو ٹنا ٹن چیک کریں گے ۔ ایک سائیڈ سے چلنا شروع ہوں گے اور پورا طواف کرنے کے بعد دوسری سائیڈ پہ آ کے کھڑے ہو جائیں گے ۔ پھر جن حصوں پہ شک ہو گا وہاں ہتھیلی رگڑیں گے ، دوبارہ ان حصوں کو بجائیں گے ، کان قریب لے جا کر سنیں گے ، گاڑی والا اس دوران اپنے آپ کو اتم چغد محسوس کرے گا، اتنی دیر میں اعلان ہو جائے گا: ”سر جی ڈرائیونگ سائیڈ کا فینڈر لگا ہوا ہے ، ڈکی بنی ہوئی ہے ، الٹے ہاتھ والا دروازہ پینٹ ہوا ہے ، چھت جینوئن ہے ‘‘۔اب بندہ سوچے گا کہ یار دس سال سے گاڑی میرے پاس ہے یہ سب مجھ سے پوچھ لیتے ، فینڈر کا تو مجھے آج تک پتہ نہیں لگا کب کس نے مارا، کب ٹھیک ہوا؟ اس اعلان کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ بھائی گاڑی کی قیمت ہم اسی حساب سے لگائیں گے اور اس کے بعد وہ قیمت لگتی ہے جس میں یہ تینوں چیزیں جاپان سے بائے ائیر بندہ بھیج کے منگوانے اور فٹ کروانے کا مارجن موجود ہوتا ہے ۔
یہ بھی چھوڑیں آپ گاڑی لینے چلے جائیں۔2000 ء ماڈل کی ایک لش سیڈان کھڑی ہو گی۔ یہ خوبصورت کالے رنگ کی گاڑی، سامنے والے بمپر سے اینڈ تک پوری چمکتی ہوئی، نئے ٹائر، نئی ونڈ سکرین، گاڑی کے مونوگرام اور سٹیکر تک نئے ہوں گے ۔ آپ پھسل جائیں گے ۔ قیمت پوچھیں گے تو وہ بھی اتنی واجبی ہو گی جس میں 1998 ء ماڈل کی گاڑی نہ آتی ہو۔ وجہ پوچھیں گے کہ یار یہ گاڑی اتنی سستی کیوں ہے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ ”مالک شوقین سی جی‘‘۔ مطلب مالک اگر کسی تھکی ہوئی گاڑی کو بنا سنوار کے رکھتا ہے ، ڈینٹنگ پینٹنگ کرواتا ہے ، تمہارے واہیات جینوئن پن کے معیاروں کو دو لاتیں مار کے پرے پھینکتا ہے اور اپنی گاڑی اچھے سے تیار کرواتا ہے تو اسے یہ سزا ملے گی کہ اس کی گاڑی سستی بیچی جائے گی؟ اور جو بندہ کبھی گاڑی کو ہاتھ نہ لگوائے اس کی گاڑی جینوئن کہلائی جائے گی اور مہنگی ترین بکے گی؟ پھر آپ اگر چاہیں گے کہ وہ گاڑی خرید لیں جو شوقین مالک کی ہے تو آپ کو ڈرایا جائے گا کہ سر جی بعد میں یہ بکنی نہیں ہے ، چھت سمیت پوری گاڑی رنگ کرائی ہوئی ہے ، کوئی نہیں پتہ گاڑی لگی ہوئی ہو۔ اب چھت جو ہے نا برادر اسے پینٹ کروانا ہمارے یہاں گاڑی کی موت ہے ۔ اس کا مطلب آٹو مارکیٹ والوں کی زبان میں سیدھا یہ لیا جاتا ہے کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ایسا برا ہوا کہ گاڑی یا تو قلابازی کھا کر چھت کے بل الٹی ہو گئی اور یا سائیڈ سے ایسے ڈیمیج ہوئی کہ چھت تک ٹیڑھی ہو گئی۔ یہ مفروضہ اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ پرانی گاڑیوں والے بے چارے باقی پوری گاڑی پینٹ کروا لیں گے چھت کا نام نہیں لیں گے ۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی بچہ سارے کپڑے نئے پہنے اور چڈی وہی پرانی ہو۔ نا ۔۔ نئی چڈی نہیں پہننی بیٹا، بری بات ہوتی ہے ، لوگ کیا کہیں گے ، ہمارا بیٹا نئی چڈی پہنتا ہے ؟ بھئی بچہ گر گیا، رگڑ لگی، چڈی پھٹ گئی، نئی نہیں دلوائیں گے ؟ چھت نے دھوپ سہی، بارش برداشت کی، پینٹ تڑخ گیا تو نیا کیوں نہ کروائیں آخر؟ حد ہے اور بے حد ہے !
اس سارے المیے کا مطلب یہ ہے کہ آپ گاڑی خرید کے بھی گاڑی کو اپنا نہیں بنا پاتے ۔ فرض کیجیے آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ یار آپ کی اٹھاسی ماڈل گاڑی میں یہ جو دقیانوسی قسم کا ٹیپ ریکارڈ۔ اور ریڈیو تھا اسے بدل کے سی ڈی پلیئر لگوا لیں تو آپ مجبور ہوں گے کہ آپ اس سڑے ہوئے کیسٹ پلیئر کو بھی سنبھال کے رکھیں۔ وہ ”جینوئن اسیسری‘‘ہو گی بھائی۔ جب آپ گاڑی بیچیں گے اور وہ کیسٹ پلیئر لگا ہو گا تو آپ کی گاڑی مزید اوریجنل سمجھی جائے گی، مطلب، سمجھو مالک نے کبھی سوچا تک نہیں کہ اس کے نصیب بدلے جائیں۔ سراسر جینوئن، سر سے پاؤں تک اصلی گاڑی!
آپ کا خیال ہے آپ اپنی گاڑی کے مالک ہوتے ہیں؟ نہ، ہرگز نہیں۔ آپ ذرا الائے رم، ٹائر یا گاڑی کے میٹس چھوڑ کے پوری نئی گاڑی میں کوئی چیز بدل کے دکھائیں۔ ممکن ہی نہیں جان عزیز۔ بلکہ نئی بھی کیا یار، بیس سال پرانی گاڑی میں بھی سُچل پیس وہی سمجھا جائے گا جسے مالک نے کبھی اپنے ارمانوں کا مرکز نہ بنایا ہو۔ گاڑی کی سیٹوں میں کھٹمل پڑ گئے ہوں، جگہ جگہ سے سلی ہوئی ہوں، خریدتے ہی آپ کو سیٹ کور چڑھوانے پڑیں لیکن خریدتے وقت اگر سیٹیں پھٹی ہوئی جینوئن بھی ہیں تو آپ کو مبارک ہو، مارکیٹ والوں کی نظر میں آپ ایک کنچا پیس خریدنے جا رہے ہیں اور آپ دنیا کے خوش نصیب ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ اسی بیس سال پرانی گاڑی میں انجن آج تک نہ ریپئر کروایا گیا ہو تو آپ کو بتایا جائے گا کہ ”سر انجن آج تک نہیں بندھوایا‘‘ لیکن آپ یہ ہرگز نہیں پوچھ سکتے کہ بھائی بیس سال ہو گئے آج تک نہیں بندھوایا تو کیا میرے انتظار میں رکھا تھا؟ میں خریدوں گا اور مجھے ٹھک نہیں جائے گا یہی انجن جو بیس سال تک نہیں کھلا؟ نہ، یہ تو بدذوقی ہے پارٹنر! ایسی کوئی بات آٹو مارکیٹ میں نہیں کرنی۔ ادھر آپ بد رنگے اور سنکی مشہور ہو جائیں گے ۔ دکان والے سمجھیں گے باؤ چے ماکوف ہے، اسے آتا جاتا کچھ نہیں، ایویں ٹائم ضائع کر رہا ہے ۔
سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے اس میرٹ پہ پورا اترنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی گاڑی کو گود میں اٹھا کے چلائیں، کمرے کے اندر کھڑا کریں اور سوائے انجن آئل، پیٹرول یا ٹائروں کی ہوا کے نئی چیز پوری گاڑی میں کوئی بھی نہ ڈالی جائے ۔ جس طرح آپ کا جسم خدا کی امانت ہے اور خود کشی حرام ہے اسی طرح آپ کی ذاتی گاڑی کسی بھی ایکس وائے زیڈ نامی اگلے گاہک کی امانت ہے اور اس میں دو ٹکے کی مرمت کروا لینا برابر ہے خود کشی کے ، جو آپ ظاہری بات ہے کبھی کرنا پسند نہیں کریں گے ۔ پس میری قوم کے نونہالو، اپنی اپنی گاڑی کو خوب کپڑا مار کے چمکاتے رہو، کسی ایسی سڑک پہ نہ لے کے جاؤ جہاں ڈینٹ یا خراش پڑنے کا خدشہ ہو، بارشوں سے بچاؤ، دھوپوں میں چلانے کی بجائے رات کو چلاؤ، کوئی چیز بدلنی پڑے تو پہلے لاکھوں بار سوچو، اور کبھی پینٹ کروانا پڑ جائے تو سمجھ لو کہ بس یہ پینٹ تمہاری گاڑی کے تابوت کا پینٹ ہے ۔ نیک و بد حضور کو سمجھائے دیا، آگے جو مرضی متروں کی!
پوسٹ سکرپٹم؛ اور ہاں، پوری گاڑی کا رنگ اگر کبھی کروانا پڑے تو بالکل وہی رنگ کروانا فرض ہے جو پہلے کمپنی نے کیا تھا چاہے وہ شیڈ اب مارکیٹ میں ملتا بھی نہ ہو۔ اگر آپ سفید گاڑی کو لال کروا رہے ہیں تو یا تو آپ بالکل جھولے لعل ہیں یا آپ کو واقعی نہیں معلوم کہ بعد ان ”مرضیوں‘‘کے ، آپ کی گاڑی چوری کی بھی سمجھی جا سکتی ہے ۔ رہا سوال بیچنے کا تو رنگ بدلی ہوئی گاڑی پہ آٹو مارکیٹ کبھی دست شفقت نہیں رکھتی، صرف پولیس رکھ سکتی ہے ۔