کیا حال سُناواں دِل دا…ڈاکٹر صغرا صدف
بڑے عرصے سے خواجہ غلام فرید کے دربار پر حاضری کی تمنا روز و شب کے بکھیڑوں کی وجہ سے التوا کا شکار تھی۔ کوٹ مٹھن جانا آسان نہیں۔ یہ وہ سفر ہے جس کے لئے برسوں تیاری کی جاتی ہے، وجود کو نفسانی خواہشات کے جال سے رہا کر کے پاک اور پوتر چادر میں زادِ راہ باندھا جاتا ہے مگر اصل چیز اُس فضا سے روح کی ہم آہنگی ہے۔ اس میں خلل ہو تو بندھا ہوا سامان واپس الماریوں میں چلا جاتا ہے اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ بلاوے میں ایسا اثر تھا کہ روح نے وجود کو جکڑ کر وہاں حاضر کر دیا جہاں جا کر واپس آنے کی جستجو ہی نہ رہے۔ ایک ایسی فضا جس میں روحانیت کے رستے پر چلنے والوں کے لئے قدم قدم پر نئی حیرتیں بکھری پڑی ہیں صرف تلاش کا
سلیقہ ضروری ہے۔ روشنی کو سانس کے ساتھ باندھنے کی دیر ہے تن من اُجال دیا جاتا ہے۔ نوازنے اور مالا مال کرنے کی روایت کئی صدیوں سے جاری ہے۔ کوٹ مٹھن جا کر احساس ہوا کہ جب کسی علاقے کی قسمت سنوارنا ہو تو اس کے لئے مشیت ایزدی کس طرح منصوبہ بندی کرتی ہے۔ صدیوں پہلے ایک خاندان عرب سے چلا اور ٹھٹھہ سندھ میں آ کر آباد ہو گیا مگر یہ ان کی منزل نہیں تھی اس لئے پانچ سو برس پہلے سندھ سے نقل مکانی کر کے ضلع لودھراں کے شہر منگلوٹ کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ کچھ عرصہ اس شہر کو اُجالنے کے بعد ضلع مظفر گڑھ کے علاقے
یارے والی کا رُخ کیا لیکن مٹھن کوٹ کا نام امر اور معتبر ہونا تھا اس لئے یہاں کے بانی سردار مٹھن خان جتوئی کی دعوت پر کوٹ مٹھن میں آباد ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سو سال تک اسے اپنی سکونت بنائے رکھا۔ اٹھارہویں صدی میں برصغیر کے تمام علاقوں کے لوگوں کو کسی نہ کسی شورش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس خاندان کو بھی ایسا ہی کچھ مسئلہ درپیش ہوا تو نواب بہاولپورمیں جو ان کے مرید تھے کی درخواست پر دریا کے دوسرے کنارے چاچڑاں شریف منتقل ہو گئے جہاں 1901میں وہ ہستی اس دنیا میں تشریف لائی جس کی وجہ سے قدرت نے یہ تمام تانا بانا بُنا تھا۔ خواجہ غلام فرید پر بچپن سے ہی خدا کی خاص عطا تھی۔ اٹھارہ سال روہی میں بسیرا کیا۔ اس کی نبض تھام کر زمین اور وہاں بسنے والوں کے امراض کی تشخیص کی۔ آخری منزل مٹھن کوٹ ہی بنا۔
زندگی میں کبھی لفظ ’میں‘ کا استعمال نہیں کیا۔ ایک دفعہ کچھ شر پسند عناصر آپ کے منہ سے لفظ ’میں‘ کی ادائیگی کی شرط لگا کر محفل میں آئے اور سوال پوچھا کہ وہ کون سا لفظ ہے جس کی وجہ سے انسان دوزخ میں جا سکتا ہے۔ آپ نے کہا کل بتائوں گا۔ کل وہ دوبارہ آئے تو محفل سے اسی سوال کی آواز گونجی۔ آپ نے کہا کہ جس نے یہ سوال کیا تھا وہ کھڑا ہو کر بتائے۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا، ’’میں ہوں‘‘۔ آپ نے کہا، ’’یہی لفظ ہے جس کا غلط استعمال انسان کو دوزخ میں لے جا سکتا ہے۔‘‘ خواجہ غلام فرید کی انسانیت نوازی کے لئے یہی ایک مثال کافی ہے کہ ایک دفعہ ایک ہندو جوڑا کچھ کھانے پینے کا نذرانہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سے ملنے سے پہلے انہیں کچھ لوگوں نے یقین دلا دیا کہ خواجہ صاحب کیوں کہ مسلمان ہیں اس لئے وہ آپ کی بنائی ہوئی چیز ہر گز نہیں کھائیں گے۔ خواجہ صاحب کا روزہ تھا اس لئے انہوں نے وہ نذرانہ ایک طرف رکھ دیا جس کا ہندو جوڑے کو بہت قلق ہوا۔ خواجہ صاحب نے ان کی دلی حالت محسوس کر کے سوغات کھا لی۔ ان کے اردگرد بیٹھے لوگ پریشان ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ نے روزہ کیوں توڑ دیا؟ خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ روزہ توڑنے کی سزا میں بھگت لوں گا لیکن دل توڑنے کی سزا نہیں برداشت کر سکتا اور نہ اس کا ازالہ کر سکتا ہوں۔ بہاولپور کے 14 نواب آپ کے مریدین میں شامل تھے مگر زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ فقیر لکھا اور بولا۔ کبھی کوٹ مٹھن کے قریب تیز دریائے سندھ بہتا تھا اور لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف آنے جانے کے لئے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ نواب صادق نے آپ کو ایک جہاز تحفہ دیا جسے آپ نے خدمتِ خلق کے لئے وقف کر دیا۔ زندگی میں کبھی کسی سے ذاتی عناد رکھا نہ کسی کی دل آزاری کی۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی انسانیت نوازی کے حوالے سے کفر کا فتویٰ عائد کر دیا۔ نواب صادق کیوں کہ آپ کے مرید تھے اس لئے انہوں نے اس شخص کو علاقہ بدر کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ یہ شکایت لے کر خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کی داد رسی کرتے ہوئے نواب صادق کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کی تلقین کی اور یہ لکھ کر دیا:
زیر بن زَبر نہ بن مَتاں پیش پوی
کوٹ مٹھن جاتے ہوئے ایک سرخوشی تمام رستے دل و دماغ پر چھائی رہی ورنہ آٹھ گھنٹوں کا سفر چودہ گھنٹے میں طے ہو تو رستے کی دشواری خود بولنے لگتی ہے۔ سڑکیں کیوں کہ تعمیر کے مرحلے میں ہیں اس لئے گاڑیوں کا پنجرہ پنجرہ کراہتا رہا۔ کچھ دیر موٹر وے پر بھی سفر کا موقع ملا مگر صرف دو ٹریک ہونے کی وجہ سے یہاں بھی ڈرائیور کو کھل کر اپنا ہنر آزمانے کی مہلت نہ ملی۔ اس پورے علاقے میں خواجہ غلام فرید کا دربار ایک ایسی پناہ گاہ ہے جو درد مندوں کی داد رسی کرتی ہے، انہیں حوصلہ دیتی ہے، دو وقت کا لنگر ان کے لئے مُراد کی طرح ہے جو غریبوں کے ساتھ ساتھ سفید پوشوں کا بھی بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ اپنے آبائو اجداد کی طرح خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ وہ دس سے زیادہ ملکی اور عالمی سطح کی مشائخ کونسلوں کے چیئرمین ہیں اور امتِ مسلمہ کو یکجا کرنے کے لئے ہر گھڑی کوشاں ہیں۔ انہیں خواجہ غلام فرید کی زیر استعمال اور شاعری میں بیان کی گئی ثقافتی اشیا پر مشتمل ایک بڑا میوزیم اور لائبریری بنانے کا شرف حاصل ہے جہاں سے کئی لوگوں نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لئے استفادہ کیا۔ اسی طرح ضعیف اور بے سہارا لوگوں کے لئے ایک تین منزلہ فرید اولڈ ہوم بنا رکھا ہے جہاں رہائش کے علاوہ چوبیس گھنٹے لنگر کی سہولت بھی میسر ہے۔ مستقبل میں وہ ایک ایسا یتیم خانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں لاوارث بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا بھرپور انتظام ہو گا۔
کوٹ مٹھن میں بھی خلقِ خدا کی آنکھوں میں کئی سوالات اور حیرتیں احساس میں چُبھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ روحانی اور مادی حوالے سے زرخیز سرزمین کے باسیوں کی محرومیاں ابھی تک روشن کل کا رستہ دیکھ رہی ہیں اور اس کو آواز دے رہی ہیں جو ان کے درد کو محسوس کر کے اس کا مداوا کر سکے۔
کیا حال سُناواں دِل دا
کوئی محرم راز نہ مِلدا