کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور….نسیم احمد باجوہ
غالب نے اپنے ایک قریبی عزیز (نام تھا عارف) کا اُتناہی کمال کا مرثیہ لکھا جتنا حالی نے غالب کا۔ رشتے میں بھتیجا یابھانجا۔ مگر رشتے کی قربت کا اندازہ دس اشعار کے مرثیہ کے ہر لفظ سے ہوتا ہے۔یوں تو ہر عزیز کی وفات رنج و غم کا باعث بنتی ہے مگر جواں مرگی اس دُکھ کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ عارف بھی جوانی میں غالب سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہوا تو اُن کے گھر کا نقشہ بدل گیا۔ بقول غالب :
تُم ماہِ شب ِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
آج کے کالم کا عنوان اسی مرثیہ کے چوتھے شعر کا دُوسرا مصرعہ ہے۔ آج مجھے میری ایک دوست خاتون ossie Lleweln Jones R) کی مرتب کردہ (اورتالیف شُدہ) کتاب ملی جو 1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کے انتہائی ظالمانہ اور بے رحمانہ ردّعمل کی تصاویرپر مشتمل ہے تو میرے ذہن میں غالب کے مذکورہ بالا مرثیہ کے سب اشعار باری باری آئے مگر ایک مصرع جو سب سے زیادہ یاد آیا۔ وُہی آج کے کالم کا عنوان بنا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنگ آزادی کے دوران ہندوستانی مسلح دستوں نے غیر فوجی انگریزوں (بشمول خواتین اور بچوں) کی ایک کافی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جنگ آزادی ناکام ہوئی تو فتح یاب انگریز فوج کے دستوں نے اس سے کہیں زیادہ بڑا قتل عام کر کے انتقامی کارروائی کی۔ تصاویر دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اُنیسویں صدی کے وسط میں وسطی ہندوستان پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس سے پہلے دہلی کا شہر نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں دو بہت بڑے قتل عام کے صدمے دیکھ چکا تھا۔
جنگ آزادی کے خاتمہ پر انتقامی قتل عام کے تین چشم دید گواہ تھے۔ لندن کے روزنامہ Times کا رپورٹرWilliam Russel))اور سویڈش مصور (Egron Lundgren) اور ایک فوٹو گرافر۔ ان تینوں نے وسطی ہندوستان کا اکٹھے سفر کیا۔ رپورٹر قتل عام کی تفصیل لکھتا رہا اور مصور تصویریں بناتا رہا۔ فوٹو گرافر (Felice Beato)کا کیمرہ دل ہلا دینے والے اور خون کے آنسو رُلا دینے والے مناظر کو محفوظ کرتا گیا۔ اُن دنوں برٹش آرمی کے افسران کو بھی سرکاری طور پر کیمرے دیئے گئے تھے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ سرزمین حجاز میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ایک انگریز فوجی افسر کی اُتاری ہوئی وہ تاریخی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ جس میں ابن سعود (ایک قبائلی سردار) اور وہابی مسلک کے علماء کے درمیان باہمی اتحاد کا رسمی معاہدہ کرنے کا منظر نظر آتا ہے۔ دُنیا میں برطانوی راج کی تصاویر کا سب سے بڑا ذخیرہ دہلی میں ہے اور Alkazi کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مشرق و مغرب میں مورخین کی تعداد کچھ کم نہیں مگر لکھنو کی تاریخ کے آخری باب (اٹھارویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک) کی سب سے بڑی ماہر مذکورہ بالا خاتون(Rossie L. Jones) ہیں۔ وہ اس موضوع پر کئی شہرہ آفاق کتابیں لکھ چکی ہیں۔ جن میں میری نظر میں سب سے زیادہ دلچسپ واجد علی شاہ پر لکھی گئی کتاب (The Last King of India ) ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر127 کے دُوسرے پیراگراف کی چوتھی سطر میں واجد علی شاہ کی کل رجسٹرڈ بیویوں کی تعداد 375 بیان کی گئی ہے۔ کالم نگار کے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ قارئین کی نظر میں وہ قابل رشک تھا یا قابل رحم؟ واجد علی شاہ کی حفاظت کی ذمہ داری تنو مند اور جنگجو افریقی خواتین کے ایک دستہ پر تھی۔ جن میں سے چند ایک کو بادشاہ سلامت کی بیوی بن جانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ مجھے یہاں فوراً بریک لگانی چاہئے چونکہ میں آج کے کالم کے موضوع سے بھٹک کر آپ کو واجد علی شاہ کی رنگین اور بے مثال داستان سنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
زیر نظر کتاب میں کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے والے مورخ Tapit Roy (جھانسی کی رانی کی سوانح عمری لکھنے والے) جیسے عالمی شہرت کے مورخین کے مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ 1865ء میں برطانوی مورخ G.O.Treylyan نے لکھا کہ برطانوی فوج کے General Neillنے کانپور میں ہر اُس ہندوستانی شخص کو پھانسی پر لٹکایا جس پر اُس کی نظر پڑی اور الہ آباد سے کانپور کے درمیان راستے میں نظر آنے والی ہر بستی کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ اس درندہ صفت شخص نے اپنے قیدیوں کو پھانسی لگانے سے پہلے اُنہیں فرش پر گرنے والے خون کے دھبوں کو چاٹنے پر مجبور کیا۔ کانپور میں برٹش آرمی کی ناقابل بیان اور ناقابل تصور درندگی ،بے رحمی اور ظالمانہ کردار پر ایک برطانوی مورخ (Andrew Wars) نے 1996ء میں جو کتاب لکھی اُس کا نام ہے۔ Our Bones are Scattered مگر آج بھی علمی حلقوں میں اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں جس کتاب کو سب سے مستند اور ممتاز سمجھا جاتا ہے وہ 1864 ء میں Sir. John Kaye نے لکھی ہے نام ہے History of the Sepoy war ۔ڈاکٹر مبشر حسن صاحب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے وزیر خزانہ تھے۔ جب خود نوشت لکھی تو اُس کا نام اقتدار کا سُراب رکھا۔ بھٹو صاحب کی ناراضی(جس کا یہ کالم نگار نشانہ بنا) کے ڈر سے جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ اُنہیں مشرقی پاکستان میں کیا جانے والا قتل عام نظر نہ آئے۔ اس کے باوجود میرے دل میں اُن کے لئے حد درجہ احترام ہے وہ اُتنا ہی ہے جو حکیم سعید صاحب،عبدالستار ایدھی، حسن ناصر۔ سوبھو گیان چند، مسعود کھدر پوش، اختر حمید خان، غلام حیدر جتوئی، جام ساقی۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی مرحوم اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے لئے ہے۔ ہمالیہ پہاڑ جتنی بڑی سیاسی غلطیوں سے قطع نظر ڈاکٹر صاحب کی عظمت کردار اور عوام دوست افکار ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ غالباً آپ یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اُنہوں نے میر تقی میر کے کلام کا انتخاب بھی شائع کیا اور دیباچہ میں (میر جگر سوختہ کے عنوان کے تحت) مندرجہ ذیل سطور لکھیں وہ آپ کو اُنیسویں صدی کے قیامت خیزدورکو سمجھنے میں مدد دیں گی۔
میرتقی میر کا عرصۂ حیات تقریباً پوری اٹھارویں صدی پر محیط تھا۔ اس دور میں بلند پایۂ مفکر شاہ ولی اللہ نے افغان سردار احمد شاہ ابدالی اور دوسرے بڑے سرداروں کو خط لکھ کر دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوں اور مسلمانوں کی حکومت کو ختم ہونے سے بچالیں۔ منطق یہ تھی کہ مسلمان بادشاہوں کی حکومت بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ ہر طرف سے اس پر مسلم و غیر مسلم حملہ آور تھے۔ نہ صرف بادشاہت بلکہ اس کا رائج کردہ نظام شریعت بھی خطرے میں تھا۔ عدالتی نظام نہ رہا تو مسلمانوں کی زندگی اسلامی شعار کے مطابق نہ ہوگی۔ میر صاحب نے تسلیم کیا کہ اسلام کے نام پر عدل و انصاف دینے والی حکومتیں ناکام ہو گئی تھیں۔ ہر طرف رشوت پروری اور بدعنوانی نظر آتی ہے (جس طرح آج کے پاکستان میں)۔ مسلمان حکمران طبقے عام آدمی کو عدل و انصاف دینے میں ناکام ہو چکے تھے جس کی وجہ سے اُن کے خلاف بڑے پیمانہ پر بغاوتیں سر اُٹھا رہی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کا حمایتی مفاد یافتہ حکمران طبقہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا۔ 1858 ء میں انگریز کے مکمل اقتدار سنبھالنے تک یہ جنگ ڈیڑھ سو سال جاری رہی۔ شدید افراتفری، بغاوت، غیر ملکی حملوں اور قتل و غارت میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھرہوئے۔ میر تقی میر نے یہ بھی دیکھا (اور اپنے اشعار میں بیان کیا) کہ حکمران طبقہ نے اسلام کے نام پر ظلم و استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی Vincent Smith کی لکھی ہوئی تاریخ ہندوستان 1983 ء میں شائع ہوئی تو اُس کے صفحہ نمبر437پر لکھا کہ سارے دہلی شہر اور اس کے گردو نواح میں ایک بھی ایسا شخص نہیں (دوبارہ لکھتا ہوں ایک بھی ایسا شخص نہیں) جس کے بارے میں آپ وثوق سے کہہ سکیں کہ وہ اخلاقی اقدار کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس پہلی جنگ آزادی کی قیادت تھی وہ کس طرح کامیاب ہوتے جب اُنہوں نے اپنے لاکھوں ہموطنوں کو طوق غلامی میں جکڑ رکھا تھا۔ انقلابی جدوجہد میں کون کامیاب ہوئے؟ رُوس میں لینن ،چین میں مائوزے تنگ،ویت نام میں ھوچی منہ، ایران میں امام خمینی۔ سب کے سب عوام دوست۔ کون سے رہنما ذلیل و خوار اور ناکام ہوئے؟ لبیا میں قذافی اور عراق میں صدام حسین اور ہمارے وطن عزیز میں وہ افراد جو حقیقی اقتدار (Deep State) کے دستر خوان سے گرے ہوئے ٹکڑوں پر پلے ہوں۔ کرگسوں میں پلے ہوئے فریب خوردہ شاہین ہیں۔ اُن کو راہ و رسم شہ بازی کی کیا خبر؟ وہ جلد یا بدیر تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں جاگریں گے یہی اُن کا مقدر ہے۔