منتخب کردہ کالم

کیا سینیٹ میں ترمیمی بل کی منظوری کی پس پردہ کوششیں کامیاب ہوں گی ؟

کیا سینیٹ میں ترمیمی بل کی منظوری کی پس پردہ کوششیں کامیاب ہوں گی ؟

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
’’سیاسی یتیم‘‘ لفظ ہی ایسا ہے جس کسی کے لئے استعمال ہو گا وہ برا تو منائے گا، لیکن جہاں ایسی صورتحال پیدا ہو جائے وہاں اس سے اچھا لفظ بھی دستیاب نہیں ہوتا، انگریزی اخباروں نے تو آصف علی زرداری کی ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے بعد بریک ہونے والی خبر پر یہ سرخی جما دی کہ آصف زرداری ڈاکٹر طاہر القادری کی ’’بینڈ ویگن‘‘ میں سوار ہو گئے، ’’بینڈ ویگن‘‘ اردو کا محاورہ ہے نہ روزمرہ، اس کا لطف انگریزی زبان میں ہی لیا جا سکتا ہے لیکن آصف زرداری جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی آستانے پر حاضر ہوئے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا اس کو بیان کرتے ہوئے اگر مولانا فضل الرحمٰن نے ’’سیاسی یتیم‘‘ کی اصلاح استعمال کر لی تھی تو جواب میں کچھ نیا تو ہونا چاہئے تھا لیکن پیپلزپارٹی نے جس انداز میں جواب دیا اس میں یہ طعنہ موجود تھا کہ مولانا ہمارے اتحادی رہے ہیں انہیں اس کا ہی کوئی خیال رکھنا چاہئے تھا۔ پیپلزپارٹی سندھ کی حکمران جماعت ہے جہاں اس کے مقابلے میں ایک سیاسی اتحاد تو پیر پگاڑو نے بنایا ہے جبکہ دوسرے سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کی بھی اطلاعات ہیں جس کی سربراہی عین ممکن ہے غنویٰ بھٹو کے حصے میں آ جائے یہ اتحاد سندھ میں پیپلزپارٹی کی سیاسی قوت کو کس حد تک چیلنج کرتے ہیں اس کا درست اندازہ تو اسی وقت ہو گا جب انتخابات کا بگل بجے گا، اگرچہ بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی لیکن سنا ہے دبئی میں پیپلزپارٹی کا جو اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا ہے اس میں اس سوال پر بھی غور ہو گا کہ انتخابات مقررہ مدت سے دو تین ماہ قبل ہی کرا دیئے جائیں وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی کہہ چکے ہیں کہ قومی اسمبلی قبل از وقت بھی تحلیل کی جا سکتی ہے تاہم ابھی گزشتہ روز ہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف سیاسی اتحادوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عام انتخابات وقت مقررہ پر ہوں گے۔
آج سینیٹ کا اجلاس بھی ہونے والا ہے جس میں امکان تو یہی ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظور کر ا لیا جائیگا جو اس سے پہلے باوجود کوششوں کے منظور نہیں ہو سکا، بل کی منظوری کے لئے پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہے جس کا پارٹی نے وعدہ تو کر لیا تھا لیکن بعد میں مختلف توجیحات کے تحت اس حمایت کو مؤخر کیا جاتا رہا، آج اگر ترمیمی بل منظور ہو گیا تو یہ سمجھا جائیگا کہ بل پاس کرانے کے لئے جو کوششیں کی جا رہی تھیں وہ رنگ لے آئی ہیں۔ بل کی منظوری کی صورت میں حلقہ بندیوں کے کام کا آغاز ہو جائیگا جو اگلے عام انتخابات کی پہلی بنیادی اینٹ ہے کیونکہ نئی مردم شماری ہو جانے کے بعد پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
آصف زرداری کے پیچھے پیچھے پاک سر زمین پارٹی کے رہنما مصطفےٰ کمال بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے، شاہ محمود قریشی نے بھی حاضری لگوا دی، پیپلزپارٹی، پاک سر زمین پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاست تو اپنی اپنی ہے لیکن اب ان تینوں میں تازہ قدر مشترک یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں لیکن یہ حمایت اس وقت تک ہے جب تک انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا یہ جماعتیں احتجاجی سیاست میں تو ایک دوسری کی حلیف ہو سکتی ہیں لیکن انتخابی سیاست میں وہ مدمقابل ہی ہوں گی، مثال کے طور پر آصف علی زرداری اور بلاول زرداری ببانگِ دہل کہہ چکے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی، عمران خان تو ایسے اقدامات کا اعلان بھی کر رہے ہیں جو حکومت بنانے کی صورت میں ہی ممکن ہیں انہوں نے ابھی دو روز قبل کہا کہ ان کی حکومت بنی تو وہ 8ہزار ارب روپے کاریونیو اکٹھا کریں گے، اب حکومت سازی کے دو دعوے دار ایک سیاسی یا غیر سیاسی اتحاد ہی کیسے سما سکتے ہیں؟ کیونکہ شیراز کے شیخ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ دو فقیر ایک گدڑی میں سما سکتے ہیں لیکن دوبادشاہ ایک اقلیم میں نہیں رہ سکتے۔ اس لئے اے قارئین محترم جو سیاسی جماعتیں ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں وہ رسم دنیا ہے ، یہ تمام جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد اور اپنے اپنے سیاسی عزائم رکھتی ہیں یہ اگر ایک دوسری کے ساتھ مل کر چلیں گی تو ان کے عزائم کیسے پورے ہوں گے اس لئے سیاسی دانش کا تقاضا ہے کہ وہ اظہار یکجہتی بے شک کریں لیکن اتحاد وغیرہ کی حدود میں شاید داخل ہوتا ان کے لئے ممکن نہ ہو، کسی جگہ دھرنا دینا اور انتخابات جیتنا دو الگ الگ کام ہیں اور اس کے لئے الگ الگ حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی ہے، دھرنوں کے ذریعے عوام کو مشکلات سے تو دوچار کیا جا سکتا ہے، راستے بھی بند کئے جا سکتے ہیں لیکن حصول اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کے لئے انتخابی کامیابی ضروری ہے، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کی حمایت کر رہی ہے تو اس کا مطلب حکومت گرانے میں اس کا ساتھ دینا ہرگز نہیں ہے، پارٹی کے ایک دوسرے رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی کہا ہے کہ یہ تاثر نہ لیا جائے کہ پیپلزپارٹی اور عوامی تحریک کے درمیان کوئی سیاسی اتحاد بن رہا ہے ان کو اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا کہیں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد ہو رہا ہے؟ دونوں رہنماؤں کی وضاحتیں اپنی اپنی جگہ بہت ہی معنی خیز ہیں جس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ سیاست اور سیاسی حکمت عملی اپنی اپنی ہے دو سیاسی رہنماؤں کی ملاقات کو اس سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔