منتخب کردہ کالم

کیا عائشہ گلالئی اپنا دھڑا بناپائیں گی ؟ تجزیہ قدرت اللہ چوہدری

جہانگیر

کیا عائشہ گلالئی اپنا دھڑا بناپائیں گی ؟ تجزیہ قدرت اللہ چوہدری

الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی رکنیت برقرار رہے گی، پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے ان کے خلاف جو ریفرنس دائر کیا تھا وہ مسترد کردیا گیا ہے اس ریفرنس میں انہیں ڈی سیٹ کرنے کی استدعا کی گئی تھی، تاہم فاضل الیکشن کمیشن کے پنجاب اور بلوچستان کے ارکان نے اختلافی نوٹ لکھے ہیں، عائشہ گلالئی کے خلاف ریفرنس اس بنیاد پر دائر کیا گیا تھا کہ انہوں نے قائدِ ایوان کے انتخاب میں پارٹی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، عائشہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ اس روز بیمار تھیں اسلئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خود عمران خان بھی اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے، تحریک انصاف نے اس انتخاب میں شیخ رشید احمد کو اپنا امیدوار قرار دیا تھا چونکہ نمبر گیم تو واضح تھی اسلئے ان کی جیت کا تو کوئی امکان نہیں تھا تاہم جس جماعت کا سربراہ اپنے امیدوار کو ووٹ ڈالنے بھی نہ آئے اس کی دلچسپی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں، لیکن عمران خان نے اپنے طرزِ عمل کو نظر انداز کرکے عائشہ گلالئی کے خلاف ریفرنس دائر کردیا چونکہ ریفرنس پارٹی کا سربراہ ہی دائر کرسکتا ہے اسلئے عمران خان کے خلاف تو کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا لیکن فارسی کی یہ ضرب المثل تو عمران خان پر بھی صادق آتی ہے ’’این گناہیت کہ در شہرِ شما نیز کنند‘‘ (یہ وہ گناہ ہے جو لوگ آپ کے شہر میں بھی کرتے ہیں) عائشہ گلا لئی کے خلاف ریفرنس دائر کرنا کیوں ضروری تھا؟ اسلئے کہ انہوں نے عمران خان کی قیادت کو چیلنج کررکھا ہے۔ عائشہ گلالئی خواتین کی مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں جس کا طریقِ کار یہ ہے کہ ہر پارٹی کو اسمبلی میں اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے اعتبار سے خواتین نامزد کرنے کا اختیار ہوتا ہے، جتنی نشستیں پارٹی کے حصے میں آئی ہوتی ہیں اس سے زیادہ کی فہرست سپیکر کو بھیج دی جاتی ہے، اگر خواتین کی کوئی نشست کسی وجہ سے خالی ہوجائے یا خاتون رکن استعفاٰ دے جائے تو فہرست میں موجود سب سے اوپر والی خاتون کو اس کی جگہ رکن منتخب کرلیا جاتا ہے اور کوئی انتخاب وغیرہ نہیں ہوتا۔ جو خواتین منتخب ہوتی ہیں ان کی نامزدگی پارٹی چیئرمین کی جانب سے ہی ہوتی ہے، عائشہ گلالئی اگر اس ریفرنس کے نتیجے میں نا اہل قرار پاتیں تو ان کی جگہ دوسری رکن منتخب ہوجاتیں اب ایسے محسوس ہوتا ہے کہ باقی ماندہ مدت کیلئے عائشہ گلالئی پارٹی کے لئے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہیں گی۔ اس سے پہلے انہوں نے عمران خان کی ذات پر الزام لگائے تھے تو اب یہ کہہ کر ایک نیا پنڈورہ بکس کھول دیا ہے کہ دھرنے کے دنوں میں 47 کروڑ روپے کی منشیات صوبہ خیبر پختونخوا سے ان گاڑیوں میں لائی گئیں جو دھرنے کے لئے اسلام آباد آرہی تھیں، یہ منشیات وہ نوجوان استعمال کرتے رہے جو عادی نشہ باز تھے، اور دھرنے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ منشیات سے جو پیسہ کمایا گیا وہی اب این اے فور کے ضمنی الیکشن جیتنے کے لئے لگایا جارہا ہے، اگرچہ یہ الزام ہے تاہم پارٹی کی قیادت کی جانب سے اس کا سیدھا صاف جواب دینے کی بجائے عائشہ گلالئی پر الزامات لگائے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ جو مُکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر دے مارنا چاہئے کیونکہ جب وہ تحریک انصاف میں شامل تھیں تو انہیں دھرنے کے حوالے سے یہ الزامات اس وقت کیوں یاد نہ آئے، اگر یہ بات ہے تو یہ ہر اس شخص پر منطبق ہوسکتی ہے جو ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہوتا ہے اور بعد میں اپنی سابق پارٹی کی قیادت میں مین میخ نکالنے لگتا ہے دائرہ اگر پھیلایا جائیگا تو اس میں بہت سے سیاستدان بھی آجائیں گے مثلاً شیخ رشید آج کل نواز شریف کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا اس وقت بھی کہتے جب وہ ان کی کابینہ میں وزیر تھے، زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں خود عمران خان نے کہا کہ وہ شیخ رشید احمد کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھیں لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اسی شیخ رشید کو انہوں نے اپنی جماعت کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنا دیا، ایسی پستی اور ایسی بلندی اب اگر عمران خان سے یہ سوال پوچھیں تو جواب میں وہ سوائے مسکرانے کے کیا کرسکتے ہیں۔
عائشہ گلا لئی کے جب عمران خان کے ساتھ اختلافات سامنے آئے تو وہ پارٹی چھوڑنا چاہتی تھیں لیکن بعد ازاں انہوں نے پارٹی کے اندر رہنے کا فیصلہ کیا اور ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردیں جو پہلے ہی کسی نہ کسی وجہ سے عمران خان سے نالاں ہیں۔ یہ بات تو اب کوئی راز نہیں کہ تحریک انصاف میں بہت سے گروپ سرگرمِ عمل ہیں اور بہت سے مواقع پر یہ اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ پارٹی میں انتخابات کے دوران دھاندلی کی تحقیقات کے بعد جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے جو فیصلہ دیا عمران خان نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا یہ اختلافات اتنے بڑھے کہ کچھ عرصے تک پارٹی میں مقابلہ کرتے رہنے کے بعد وہ پارٹی چھوڑ گئے، اسی طرح اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی رکن ہیں اور انہوں نے غیر ملکی فنڈنگ وصول کرنے پر پارٹی کے خلاف کیس کر رکھا ہے، کئی ارکان ان کے حامی ہیں، پارٹی کے اندر جن ارکان کو شکایات ہیں کیا عائشہ گلا لئی انہیں متحد کرکے ایک دھڑے کی شکل دیں گی؟ چونکہ اب انہوں نے پارٹی نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنا مضبوط گروپ بنانا ان کی مجبوری بن جائیگی ورنہ انہیں کسی نہ کسی بہانے سے پارٹی سے نکال دیا جائیگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ پارٹی سے نکالے جانے کے بعد اسی طرح تحریک انصاف کا نیا دھڑا بنالیں جس طرح اس سے پہلے پارٹی سے نکالے جانے والوں یا نکلنے والوں نے تحریک انصاف نظریاتی بنا رکھی ہے۔